نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کرپشن کی ہے تو ثبوت لائیں،’’ہیں جی‘‘||حیدر جاوید سید

وزارت اطلاعات انہوں نے ہمیں بھی عطا کی تھی مگر ہم نے یہ بوجھ اٹھانے سے معذرت کرلی۔ معذرت کی وجہ فواد چودھری اور مطیع اللہ جان کے جھگڑے کو بالکل نہ سمجھ لیجئے گا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھوڑیں اس سیاست کو یہاں پچھتر برسوں سے یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ اب کون سا نصف شب میں آفتاب طلوع ہوجانا ہے۔ بٹوارے پر لُڈیاں ڈالنے والے ایک دن ایسے ہی لڑتے ہیں۔ اور کریں بھی کیا۔
مستیاں رج کھانے کی ہیں یا فاقہ مستی کی۔ ہم تو آدھا تیتر آدھا بٹیر والی حالت میں بھی ’’مست‘‘ ہی ہیں۔
فقیر راحموں کہتے ہیں ’’ہمارا سوشل میڈیا "اندھے کے پائوں تلے بٹیرا” کے مصداق ہی ہے۔ یہ ہمارے ہمزاد پچھلے 60برسوں سے ہمیں گمراہ کرنے کی ڈیوٹی پر ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اگر ایک آدھ خوبی ہے تو ان کی وجہ سے ہے خود ’’اپن‘‘ نے خرابیاں جمع کرنے میں کسر کوئی نہیں چھوڑی۔
فقیر کو بلاوجہ ہمارے ساتھ فتوئوں کی چاند ماری کا نشانہ بننا پڑا۔ ہمارے چار اور جو ہورہا ہے بلکہ جو ہوتا آرہا تھا فقیر راحموں اس پر اپنی آراء سے نوازتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار ہلکی پھلکی جھڑپ تک نوبت پہنچ جاتی ہے اب بھی دو دن سے ناراض ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ازخود نوٹس کی سماعت پر ان کے طویل تبصرے کے جواب میں ہم نے یہ کہہ دیا کہ ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ دستور کی بالادستی کی محافظ ہے۔
کہنے لگے سپریم کورٹ نہیں پارلیمینٹ دستور کی بالادستی کی محافظ ہے سپریم کورٹ نے یہ دیکھنا ہے کہ محافظ نے حفاظت درست طور پر کی یا نہیں۔
جواباً ان کی خدمت میں جو عرض کیا اس پر یہ کہہ کر لائبریری سے باہر نکل گئے ’’شاہ تم نے سدھرنا بالکل نہیں‘‘۔ ہم نے کہا کیا تھا بس یہ نہ پوچھ لیجئے گا ورنہ مقدمہ پکا ہے۔
خیر چھوڑیئے یہ ہم کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے۔ آج کل تو رمضان المبارک ہے۔ رمضان سے دو دن قبل کیلے 250روپے درجن تھے۔ گزشتہ سپہر مارکیٹ میں فروٹ فروخت کرنے والا بڑے جوش و خروش کے ساتھ سیاستدانوں کی چوریوں کی نشاندہی ” جسٹس ر جاوید اقبال ” کی طرح کرنے میں مصروف تھا۔
غلطی سے ہم نے یہ کہہ دیا، ٹھوکر نیاز بیگ چوک میں جو کیلا 150 روپے درجن ہے وہ یہاں اس وقت 300روپے درجن دے رہے ہو اور چور سیاستدان ہیں۔
بگڑگئے اس بات پر کہنے لگے ’’جائو شاہ جی فیر ٹھوکر نیاز بیگ چوک توں ہی لے آئو فروٹ‘‘۔ لمحہ بھر کے لئے جذبات میں آکر ہم نے ٹھوکر کی طرف جانے کا سوچا پھر احساس ہوا آنے جانے کا رکشہ کرایہ 2سو روپے اور 150روپے کے کیلے یہ تو 350روپے میں پڑیں گے۔ مرتے کیا نہ کرتے 3سو روپے کے حساب سے خرید لئے باقی چیزوں کو بھی ‘‘آگ ہی لگی‘‘ ہوئی ہے۔
آگ تو لگنی ہی تھی سال بھر میں یہی ایک ماہ رمضان المبارک ہی تو آتا ہے کمائی کے لئے اس میں بھی بندہ کمائی نہ کرے تو کیا کرے۔
ہمیں احساس ہے کہ آجکل پڑھنے والوں کی دلچسپی کے موضوعات کیا ہیں۔ وہی سیاست کی رام لیلائیں۔ مثلاً ان دنوں اپنے تونسوی بھائی عثمان بزدار کا دور اقتدار زیربحث ہے ہر طرف۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس "مشوم” سے بندے نے کل چپ کا روزہ توڑ کر کہا میرے دور (وزارت اعلیٰ) میں اگر کرپشن ہوئی ہے تو ثبوت لائیں۔
سادہ آدمی ہے اس نے کیا کرپشن کرنا تھی لوگ تو بس منہ اٹھاکر الزام لگادیتے ہیں۔ فقیر راحموں سے ابھی تک صلح نہیں ہوئی ورنہ وہ دو تین یا ساڑھے چار قصے کرپشن کے ضرور بتادیتے۔ ان کے خبری دوست بہت ہیں۔
اب دیکھیں نہ کیسی دلچسپ صورتحال ہے۔ محترمہ مریم نواز گزشتہ چند دنوں سے کسی فرح گجر نامی خاتون کی کرپشن کہانیاں سنارہی تھیں، گزشتہ شام یہ بات سامنے آئی کہ وہ خاتون (ن) لیگ کے گوجرانوالہ سے ایم پی اے اقبال گجر کی بہو ہیں۔ فقیر راحموں سے صلح ہوتی تو انہوں نے جھٹ سے کہنا تھا کہ ’’ن لیگ نے اس خاتون کو سازش کے تحت تحریک انصاف میں بھیجا تھا‘‘۔
باقی کی باتیں لکھنے کی ضرورت نہیں آپ خود سوچ سمجھ لیجئے۔ ہمیں حیرانی ایک میڈیا ہائوس پر ہے جس کے چینل نے محترمہ فرح گجر کے آبائی گائوں میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر ایک رپورٹ نشر کی اور اس کے آخر میں رپورٹر نے کہا ’’ایک سال کے دوران ہونے والے یہ کام اس گائوں میں پچاس سال سے نہیں ہوئے تھے۔ یہ ترقیاتی کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ کرپشن تو ہوئی ہے‘‘۔
اب جس رپورٹر کو یہ ہی معلوم نہیں کہ ضلع شیخوپورہ کا گھنگ گائوں قیام پاکستان سے پہلے سے آباد ہے اسے کیا معلوم کہ کرپشن کیا ہوتی ہے۔ اچھا ویسے 2کلومیٹر پختہ سڑک، بنیادی طبی مرکز، پولیس چوکی، ایک لنگر خانہ، یہی کچھ بنا ہے نہ اس گائوں میں برائی کیا ہے۔
عوامی بھلائی کے کام ہیں۔ جلنے والے جلتے رہیں یا پھر اپنے تعلقات استعمال کر کے آبائی گائوں میں کام کروائیں۔ ویسے کرپشن بھی محنت سے ہوتی ہے۔ ہاتھ پائوں ہلائے اور تعلقات کے بغیر ممکن نہیں۔
عثمان بزدار درست کہتے ہیں ثبوت ہوتو سامنے لائیں۔ خیر ثبوت تو عمران خان کے پاس بھی اس الزام کا نہیں کہ اپوزیشن غدار ہے وہ بھی ایک کاغذ لہراتے پھرتے ہیں۔ معاف کیجئے گا یہ ہم کیا باتیں لے بیٹھے جسے وقت اور اللہ دے اس پر جلنے اور حسد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
وہ بھی تو وقت تھا ہی نہ جب ہمارے عثمان بزدار تحصیل ناظم کی مہر جیب میں رکھتے تھے پتہ نہیں ضرورت مند کہاں مل جائے۔ مہر جیب میں رکھنے کی بات کا غلط مطلب نہ لیجئے گا۔ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار شخص ہی مہر کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔
باقی کہانیاں بہت ہیں ان دنوں ہر تیسرا آدمی چوتھی کہانی سنارہا ہے۔ کچھ اینکر ان دنوں اپنے پروگراموں میں شامل پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے رہنمائوں سے کہتے ہیں کرپشن کے ثبوت لائیں۔ لیکن یہی اینکر جب (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی کرپشنوں کی ہزار داستان سنایا کرتے تھے تو ثبوت دیکھاتے تھے نہ پوچھتے تھے۔ اب پتہ نہیں کیوں ثبوت مانگتے ہیں۔
خورشید شاہ کے خلاف ان سارے اینکروں نے 5سو ارب کی کرپشن داستان چسکے لے لے کر اپنے ناظرین کو سنائی لیکن جب بات دس بارہ کروڑ پر آکر رک گئی تو سبھی نے چپ سادھ لی ” فقیر راحموں کے بقول ( یہ ناراضگی سے پہلے کا قول ہے ) سانپ سونگھ گیا نگوڑوں کو "۔
اس لئے لازم ہے کہ کرپشن کے ثبوت سامنے رکھ کر بات کی جائے بلا وجہ کا میڈیا ٹرائل اچھی بات نہیں ہے۔ چلیں ان باتوں کو چھوڑیں یہ جو بدھ کی دوپہر سے تخت لاہور میں دلچسپ تماشے لگے ہوئے ہیں ان کا کیا کرنا ہے۔
قبلہ چودھری پرویزالٰہی نے جو حکمران اتحاد کی طرف سے وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں پنجاب اسمبلی سیل کروادی ہے۔ لاہور میں 15دن کے لئے رینجرز بلالی گئی ہے۔ دفعہ 144کا نفاذ الگ ہے اپوزیشن والوں نے ایک ہوٹل میں ارکان اسمبلی کا اجلاس بلاکر حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ منتخب کرلیا ہے۔
پی ٹی آئی والے اس پر فلیٹی ہوٹل کا وزیراعلیٰ کی پھبتی کس رہے ہیں۔ تماشے ویسے خوب ہیں۔ "کڑوا” تماشا یہ ہے کہ حکمران اتحاد کے پاس پنجاب میں اکثریت نہیں ہے۔ اس لئے جب تک اکثریت کا بندوبست نہیں ہوجاتا اسمبلی کھلے گی نہ معاملات آگے بڑھیں گے۔
بحران تو ہے صوبہ میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں مگر حکومت تو وفاق میں بھی نہیں ہے۔ اللہ توکل سب چل رہا ہے، چلنے دیجئے۔ قومی خزانے کی رقم بچ رہی ہے ڈالر دوسو روپے سے گیارہ روپے کم پہ ہے۔ سوشل میڈیا پر البتہ ہمارے ایک عزیز سید عدیل رضا عابدی نے متوازی حکومت کے قیام کا اعلان کرکے وزارتیں تقسیم کرنا شروع کردی ہیں۔
وزارت اطلاعات انہوں نے ہمیں بھی عطا کی تھی مگر ہم نے یہ بوجھ اٹھانے سے معذرت کرلی۔ معذرت کی وجہ فواد چودھری اور مطیع اللہ جان کے جھگڑے کو بالکل نہ سمجھ لیجئے گا۔
چند دن کی فیس بکی وزارت کا کیا کرنا یہی قلم مزدوری ٹھیک ہے۔ قلم مزدوری سے یاد آیا یہ بھی نعمت ہی ہے۔ حالات کا اتارچڑھائو انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔
معاف کیجئے گا ہم تخت لہور کی باتیں کررہے تھے۔ گزشتہ دوپہر سے خوب رونق میلہ لگا ہوا ہے۔ اس میں مزید ’’رونق‘‘ لگنے کا اندیشہ ہے۔
خدا کرے اندیشہ درست نہ ہو اور رونق بھی معروف معنوں تک ہی رہے۔ اب چلتے چلتے ایک سوال ہے وہ یہ کہ سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) وفاقی حکومت کے خاتمہ کے باوجود تحریک انصاف کے لوگوں کی ’’آرام گاہ‘‘ کیوں بنا ہوا ہے اس کا کوئی حل ہے کہ نہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والا (ویسے یہ ٹیکس سے زیادہ بھتہ ہی ہے) چینل آخر کیوں ایک جماعت کے حق میں پروپیگنڈہ کررہا ہے؟۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author