جولائی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کے دسترخوان سے شکم سیری ||حیدر جاوید سید

اب ساعت بھر کے لئے اس تاریخ کے اوراق الٹیئے جسے ہم اپنی تاریخ کہتے نہیں تھکتے۔ صفحہ صفحہ احسان فراموشیوں سے عبارت ہے اور اس تاریخ کے دامن میں رکھا کیا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ ’’بدل‘‘ گئی ہے یا تاریخ ’’بدلے‘‘ گئی، اس کا فیصلہ ویسے اب تاریخ ہی کرے گی۔ اردو ادب کے مرحوم بزرگوار شاعر ادیب نقاد اور دانشور سیدی جون ایلیا کہا کرتے تھے ’’ہزار برس ہوتے ہیں تاریخ کے دسترخوان سے شکم سیری کرتے ہوئے‘‘
آگے بڑھنے سے قبل اس ارشاد میں دو الفاظ کی تبدیلی پر ان کی روحِ پُرنور سے معذرت، جن دنوں سیدی جون ایلیا اور ان جیسے بلند قامت بزرگ حیات تھے وہ دن اس ملک سے ان بزرگوں کی طرح روٹھ گئے۔
کیسے روشن دن تھے۔ مہتاب آفتابوں کے ساتھ مل کر روشنی بڑھاتے تھے۔ پھر وہ دن ہوا ہوئے کیسے؟
اس سوال کے جواب میں دو طرح کی آراء ہیں، مثلاً ہمارے کچھ زندہ و مرحوم دوست یہ موقف رکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے دور میں ہوئی اسلامی تفہیم نے گھٹن پیدا کی وہ چاہتے تو رجعت پسندی کا عوام کی طاقت سے مقابلہ کرسکتے تھے۔
ہم نے ہمیشہ ان دوستوں کی خدمت میں عرض کیا ذرا بھٹو صاحب کے دور میں جنم لیتی قدامت پسندی کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
بھٹو حکومت کی پالیسیوں سے بیرون ملک روزگار کمانے کیلئے جانے والوں نے شکرانے کے طور پر پرکھوں کی بستیوں میں مسجدوں اور مدرسوں کے قیام میں تو حصہ ڈالا کسی نے بھی سکول، کالج، یونیورسٹی یا فنی تعلیم کے ادارے کے قیام بارے سوچا نہ حصہ ڈالا۔
بہت ادب سے معذرت اس سے زیادہ اس موضوع پر عرض کرنے سے قاصر ہوں۔ آخر ہم بھی گندم کی روٹی، چاول کھاتے ہیں اور ناشتے میں ڈبل روٹی اس سے پہلے بیڈ ٹی کے ساتھ بسکٹ یا رس۔

آپ سیدی جون ایلیاء کے اس ارشاد پر غور کیجئے جو بالائی سطور میں عرض کیا ہے۔ غور کیجئے اگر وقت ہے۔ نہ بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ ہم اور آپ شاعروں، تاریخ اور دانشوروں کے "ملٹی سٹورز” سے اپنے اپنے مطلب کی چیز تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ اسی لئے تو آگے نہیں بڑھ پاتے۔
ہمارے بچوں اور پیاروں کی زندگیوں کو اپنے اپنے نظریات کے میدانوں کا رزق بنانے والے کیسے اور کتنا آگے بڑھ گئے۔ چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے۔
امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں کی ملوکیت نما خلافتوں کو ورثے کے طور پر سینے سے لگائے جیتے بلکہ ان کی تاریخ پر ایک دوسرے سے لڑتے لوگوں سے کیا شکوہ کیجئے ، آجکل تحریک انصاف کے قائد اور ان کے حامی بات بات پر جس کو جی چاہے میر جعفر اور میر صادق قرار دے دیتے ہیں۔
خود ان کے اندر میر جعفر و میرصادق ، ہٹلر اور حملہ آور لٹیروں کی روحیں حلول کرچکی ہیں قبلہ اخیرالمومنین ایک ہی وقت میں ٹونی بلیئر، ٹیپو سلطان، محمود غزنوی اور ملاں فضل اللہ ہیں۔ تھری ان ون تو آپ نے دیکھے سنے ہوں گے یہ ’’فور ان ون‘‘ ہیں۔
جن دنوں ڈی چوک پر تھے لبرل چہرہ پیش کرتے اور مغرب کے مثالی نظاموں کی باتیں کرتے ہوئے مقامی حکمرانوں اور بالادست طبقات کو خبردار کیا کرتے تھے
’’تم لوگ مغرب میں ہوتے تو اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ جیلوں میں ہوتے‘‘۔
پھر پچھلے پونے چار سالوں کے دوران "اعلیٰ حضرت ” ہمیں ریاست مدینہ کے قیام کی برکات سے آگاہ کرتے ہوئے بتاتے رہے کہ میں ریاست مدینہ کی طرح کی ریاست بنانے کے لئے کوشاں ہوں۔ پونے چار سالوں میں وہ نئی ریاست مدینہ کے قیام کے لئے دوچار اینٹیں بھی نہ لگاپائے۔ بلکہ پہلے سے موجود ریاست کی بنیادیں ہلادیں۔
آج کل ملک میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل انہوں نے ایک مذہبی تنظیم کے فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے مطالبہ پر کہا تھا ’’فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطلب ہوگا کہ یورپی یونین سے تجارت بند کرلیں اس سے انڈسٹری بند ہوجائے گی‘‘۔
اپنے اقتدار پر بن آئی تو امریکہ سے پنگا۔ یہ جانتے ہوئے بھی یہ بھی معاشی طور پر چنگا ہرگز نہیں۔ کچھ دوست روسی وزارت خارجہ کے گزشتہ روز والے بیان کو سنبھالے اچھل کود رہے ہیں۔ دیکھو جی روس نے بھی امریکی سارش کی تصدیق کردی۔
روس امریکہ، ہاتھیوں کی لڑائی ہے۔ کمزور ملکوں کے میدانوں کو ویران کرنے والی۔ افغان انقلاب ثور سے لے کر گزشتہ برس کے اگست تک ہم امریکہ کے کیمپ میں تھے۔
ان 42سالوں کے دوران ڈیڑھ لاکھ بندے مروانے اور چار سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانے کےساتھ اگر کچھ نصیب ہوا تو یہ ’’امریکی پٹھو ریاست‘‘ کا طعنہ اور 42برسوں کے دوران جن کے لئے ہم مرتے رہے انہوں نے بھی ہمیں مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آج بھی ہماری غیرریاستی جنگجو تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔
معاف کیجئے گا بات دور نہیں کچھ زیادہ دور نکل گئی۔ امریکہ نواز افغان پالیسی سے فیض و کرم کے جو چشمے پھوٹے ان سے عام آدمی کتنا سیراب ہوسکا؟ اور اس کے ساجھے دار طبقات ہم (عام آدمی) سے وفائوں سے بھری قربانیاں تو چاہتے ہیں سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ آزادی ہو تو پوچھ لیا جائے 42برسوں میں ملا امریکی مال و اسباب کہاں گیا۔
وہ اگر پچاس فیصد ایمانداری کے ساتھ بھی اس ملک میں خرچ ہوا ہوتا تو یہ بدحالی گلے کا ہار نہ ہوتی جس کا ڈھول ان دنوں سبھی بجانے پر مجبور ہیں۔
( کیری لوگر بل اس عرصے میں پہلی سول کوشش تھی کہ امداد عوام کی منتخب حکومت کو ملے اس کوشش پر میموگیٹ سکینڈل سے خود حملہ ہوا باقی بات پھر سہی )
کاش ہم نے تاریخ کے دسترخوان سے شکم سیری کی بجائے اس میں موجود اسباق سے رہنمائی لی ہوتی۔ ویسے تو رہنمائی لینے کی کوئی خاص ضرورت ہرگز نہیں تھی وجہ یہ ہے کہ جس تاریخ کے دسترخوان سے ہم شکم سیری کرتے رہے وہ عربوں، مصریوں اور ترکوں کی تاریخ ہے۔ خالص ان کے عروج و زوال کی۔
ان کے حکمران عرب، مصری اور ترکی تھے ساتھ ہی مسلمان بھی اس لئے مسلم ملوکیت کی تاریخ ان کے ذکر اذکار کے بغیر ادھوری ہوتی۔
ہم تو یہاں رہتے ہیں جو کبھی ہند و سندھ تھا پھر متحدہ ہندوستان ہوا اور 14اگست 1947ء کے بٹوارے میں ہندوستان و پاکستان 25سال بعد 16دسمبر 1971ء کو ایک نیا ملک بنگلہ دیش کی صورت میں برصغیر اور دنیا کے نقشوں پر ابھر آیا۔

آپ اس ہند و سندھ اور متحدہ ہندوستان کی تاریخ کے ان ادوار کو پھرول لیجئے جب یہاں مسلم حکمرانوں کا طوطی بولتا تھا تحقیق و تحصیل کا ایک ادارہ ایسا بنا ہو ان ادوار میں جوانسانی سماج کے ارتقا اور انسانیت سازی میں معاون کردار ادا کرسکتا ہو؟

لمبے چوڑے قصوں اور تاریخ کے اوراق الٹنے کی بجائے صرف 75برسوں کی تاریخ پر نگاہ دوڑالیجئے۔ سب سے اچھے اور اعلیٰ ادارے، بھٹو کے دور میں بنے اور بھٹو کے ساتھ کیا ہوا؟
جس جدید ترین میزائل پروگرام پر ہم اتراتے پھرتے ہیں یہ بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو شمالی کوریا سے اپنی جان پر کھیل کر لائی تھی ہم نے اس کا احسان الحمدللہ اسے بیچ سڑک پر اسے مار کر اتارا دیا۔
اب ساعت بھر کے لئے اس تاریخ کے اوراق الٹیئے جسے ہم اپنی تاریخ کہتے نہیں تھکتے۔ صفحہ صفحہ احسان فراموشیوں سے عبارت ہے اور اس تاریخ کے دامن میں رکھا کیا ہے۔
پیار قارئین، آج کے کالم میں تلخ نوائی کچھ زیادہ ہی ہوگئی۔ کیا اس پر معذرت کروں؟ گو اس کی ضرورت نہیں۔
صبح و شام رنگ بدلتی سیاست پر کیا لکھا جائے ماسوائے اس کے کہ آج کل یہ بیانیہ فروخت ہورہا ہے کہ تحریک انصاف کے حامی محب وطن ہیں اور اس کے مخالفین و ناقدین غدار۔
چند لمحوں کے لئے ہم بھی جذباتی ہوکر محب وطن بننے کا سوچ رہے تھے وہ تو شکر ہے کہ فقیر راحموں نے یاد دلادیا کہ سال 1982ء میں جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ ایک خصوصی ملٹری کورٹ نے غداری کے ایک مقدمہ میں سزا سنائی تھی۔
اس پر فقیر راحموں کی خدمت میں کافی کا کپ پیش کرکے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے سوچا کہ جنرل ضیاء الحق نے کتنا بڑا احسان کیا ہم پر غدار قرار دے کر ورنہ قدم قدم پر حب الوطنی اور مسلمانی ثابت کرنا پڑتی۔
چلیئے اس جملہ معترضہ پر معذرت قبول کیجئے۔ آیئے پھر سے تاریخ کے دسترخوان پر چلتے ہیں۔ ان میں ایک دسترخوان بقولِ تاریخ ایسا بھی تھا جس پر بیٹھے عباسی خلیفہ نے حکم دیا اموی خلافت کے پسماندگان کو پیش کیا جائے۔
آداب بجا لاتے ہوئے درباریوں نے کہا،
"امیرالمومنین دسترخوان اموی پسماندگان کی باقیات کے اوپر بچھایا گیا ہے”۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: