مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آج کا سیاسی بحران اور ذوالفقار علی بھٹو||ظہور دھریجہ

برصغیر کی پبلک زندگی میں کچھ کامیابیاں انعام و اکرام کی مستحق ہیں جن کے ذریعے مصیبت زدہ عوام تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں جن کے باعث کسی دیہاتیوں کی غمناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہوگئی ہے ۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں آئینی اور سیاسی بحران چل رہا ہے، اس بحران سے 1977ء کے حالات یاد آ رہے ہیں ، اس وقت بھی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی ہوئی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ یہ تحریک امریکہ کی ایماء پر شروع ہوئی ہے، الزام آج بھی وہی ہے مگر چہرے وہ نہیں ہیں۔ گزشتہ روز ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منائی گئی تو بہت سے حالات و اقعات یاد آئے،ان میں ایک خط بھی ہے جسے تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی 21 جون 1978ء کو اپنی عظیم بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر خط لکھا جس میں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو میری سب سے پیاری بیٹی کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا:۔’’ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی ( جو خود بھی مقید ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اس طرح کی تکلیف میں مبتلا ہے ) اس کی جان بچانے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے ، یہ رابطہ سے زیادہ بڑا معاملہ ہے محبت و ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے؟
تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی، تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ، ان دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو تاکہ ان دونوں کا انضمام ہو سکے۔ پیاری بیٹی !میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ، صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے ، سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔
برصغیر کی پبلک زندگی میں کچھ کامیابیاں انعام و اکرام کی مستحق ہیں جن کے ذریعے مصیبت زدہ عوام تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں جن کے باعث کسی دیہاتیوں کی غمناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہوگئی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتی ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کیلئے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں ، تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو جب تک کہ تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو ، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو ۔
تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو ، میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں ۔ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں پیاری بیٹی ! میں اس جیل کی کوٹھڑی سے میں تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں ، جس سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا لیکن میں آپ کو عوام کا ہاتھ تحفہ میں دیتا ہوں ۔ میں تمہارے لئے کیا تقریب منعقد کر سکتا ہوں ، میں تمہیں ایک مشہور نام اور مشہور یاداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں ، تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور طاقت ور بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرو۔
میری پیاری بیٹی! کیا تمہیں یاد ہے 1957ء کے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں، تو ہم ’’المرتضیٰ‘‘ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ صبح کا وقت موسم بڑا خوشگوار تھا، میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی ، ایک بیرل 22 اور دوسرا 480 کا تھا ۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گرایا۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آ گرا تو تم نے چیخ مار دی ۔ تم نے اسے اپنی موجودگی میں دفن کرایا ۔
تم برابر چیختی رہیں ۔ تم نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ ایک مردہ طوطے نے 1957ء کے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو رُلا دیا تھا ۔ 21 سال بعد وہ چھوٹی سی لڑکی ایک جوان لڑکی بن گئی ہے جس کے اعصاب فولادی ہیں اور جو ظلم کی طویل ترین رات کی دہشت کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے ۔ حقیقتاً تم نے بلا شبہ یہ ثابت کر دیا کہ بہادر سپاہیوں کا خون تمہاری رگوں میں موجزن ہے۔ ‘‘ ذوالفقار بھٹو ایک قومی رہنما تھے ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ ان کاسرائیکی وسیب سے محبت کا حوالہ بہت اعلیٰ ہے ۔ وہ سرائیکی وسیب اس کی تہذیب‘ ثقافت اور تاریخ سے واقف تھے وہ سرائیکی کی جداگانہ شناخت کا ا دراک رکھتے تھے۔
 1962ء میں ذوالفقارعلی بھٹو کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا،ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میںذوالفقارعلی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنایا ،جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ’’اعلان تاشقند‘‘ پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا، بھٹو وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے۔وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد 30نومبر1967ء کو اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر لاہور میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی اورغریبوں کے لئے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا ۔
 مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بنگالیوں کے حقوق اور بنگالیوں کی قومی و ثقافتی شناخت کے نعرے پر بھاری اکثریت سے کامیابی حا[صل ہوئی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی، جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا، مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی، بھارت نے بنگالیوں کا ساتھ دیا۔ 16دسمبر 1971ء کوسقوط ڈھاکہ کا واقعہ رونما ہوا، بقیہ پاکستان کا اقتدار بھٹو کے حوالے ہوا۔
 بھٹو نے جنگ سے تباہ حال معیشت کو سہارا دیا، شملہ معاہدے کے ذریعے بھارت سے 90ہزار جنگی قیدی آزاد کرائے، 1974ء میںاسلامی سر براہی کانفرنس کرائی، 1973ء میں سر زمین بے آئین کو آئین دیا، غریب کاشتکاروں اور مزدوروں کیلئے قوانین بنائے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی جس کی پاداش میں بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا، بھٹو کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور جن کو بھٹو نے بھارت کی قید سے آزاد کرایا تھا ان کے سربراہ ضیاء الحق نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا کر 4اپریل 1979ء کوپھانسی دیدی۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: