نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہنگامہ ہے کیوں برپا ایک "خط ” ہی تو ہے||حیدر جاوید سید

ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ خط واقعی دھمکی آمیز ہوتا جیسا کہ اتوار کی شام سے بدھ کی دوپہر تک طوفان اٹھایا گیا تھا تو پھر قومی سلامتی کمیٹی میں اس پر بات کرکے عوام کو اعتماد میں لینے کے بعد کا ذریعہ پارلیمنٹ اور جلسہ ضرور تھے۔ یہاں تجزیہ کچھ تھا مگر اسے دھمکی آمیز خط کا نام دیا گیا اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض کئے دیتا ہوں کہ جسے دھمکی آمیز خط قرار دے کر امیر و امیدِ ملت اسلامیہ کی جان کو خطرات لاحق ہیں، کی بات کی جارہی ہے اس کی آدھی حقیقت تو اتوار کی شام سے بدھ کی سپہر تک کے سفر میں خود ہی کھل گئی۔
روز اول سے ہی دستیاب معلومات کی بنیاد پر عرض کررہا تھا کہ یہ خط ایک قسم کی ’’سفارتی کیبل‘‘ ہے۔ جو سفیر عموماً اپنی پھرتیوں، بے پناہ کام اور خدمت وطن کے نام پر بھیج کر بتاتے ہیں ہم بہت کام کررہے ہیں۔ حالیہ سفارتی کیبل یا دھمکی آمیز خط کا قصہ بھی فقط اتنا ہے کہ ایک سابق سفیر جو بیرون ملک موجود ہیں ان کی ایک کیفے میں ایک دو سرکاری حکام سے ’’کپ آف ٹیٔ‘‘ پر ملاقات ہوئی۔
سفارتی امور کے حاضر و سابق بندگان خدا جب ملتے ہیں تو اس وقت کے عالمی منظرنامے پر ہی بات ہوتی ہے۔ اس ملاقات میں بھی یہی ہوا، لمحہ موجود کی عالمی صورتحال پر تبادلہ خیال کے دوران دو الگ ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین خارجہ امور نے بالی وڈ یا ہالی وڈ کی فلموں پر تو ظاہر ہے گفتگو نہیں کرنی تھی۔

اس ملاقات میں جو تبادلہ خیال ہوا اسے ہمارے سابق سفارتکار نے اسی ملک میں تعینات حاضر سفارتکار سے بعد میں ہوئی ملاقات میں بطور تجزیہ پیش کیا۔
یہی تجزیہ یہ کہہ کر بھیجا گیا کہ مجھے ملاقات کے لئے بلایا گیا اور امریکی آفیشل کی یہ رائے تھی اس سے آگے کی کہانی کس نے گھڑی، عمران خان (وزیراعظم) کو کس نے کہا کہ یہ آپ کے لئے دھمکی ہے اور دھمکی وجہ روس کا دورہ ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، یہ بھی کہا جارہاہے کہ سبکدوشی کے مرحلہ پر پہنچے (کیونکہ مدت تعیناتی پوری ہوچکی نیا سفیر تعینات ہوچکا ہے) سفیر محترم نے یہ کیبل بھیجی تو روٹین کے مطابق مگر مرچ مصالحہ فرمائشی تھا۔
فرمائش کرنے والوں میں دو شخصیات کا نام آرہا ہے ایک ہمارے ملتانی پیر و مرشد کا اور دوسرا اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل مندوب کا۔
سوچا یہ گیا کہ روٹین کی سفارتی کیبل کو اس ڈرامائی انداز میں جذباتی مداحوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ انہیں لگے کہ سارا عالمِ کفر ہمارے کپتان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔

ہمارے یہاں عالم کفر والا سودا جلدی فروخت ہوتا ہے اور ہے بھی زود ہضم۔ دفتر خارجہ میں ایسی سفارتی کیبل ہزاروں کی تعداد میں ر یکارڈ روم میں محفوظ ہوں گی۔ ایسے مکالماتی تجزیوں سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کون ہمارے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر حکمت عملی وضع کی جاتی ہے یہی سفارتکاروں کا کام ہے اور انہوں نے کون سا کوزی حلیم یا چکڑچھولے فروخت کرنا ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ ان دنوں حکومت اور اپوزیشن میں ٹھنی ہوئی ہے۔ سوچا گیا کیوں نہ اس سفارتی تجزیہ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ سوچا کس نے، وزیراعظم سے کس نے کہا یہ آپ کے لئے دھمکی ہے۔ یہ مشورہ کس نے دیا کہ اس دھمکی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے تو اپوزیشن کے پرخچے اڑائے جاسکتے ہیں؟

راوی (ذرائع) اس بارے میں تین افراد کی طرف اشارہ کررہے ہیں ایک ہمارے ملتانی پیر و مرشد۔ دوسرے جہلم والے عزیزی اور تیسرے، سابق مشرقی پاکستان کے سقوط کے ایک کردار کے فرزند ارجمند۔ ان تینوں کا خیال تھا کہ اگر عوامی اجتماع میں دھمکی آمیز خط لہراکر وزیراعظم کہہ دیں کہ مجھے غیر ممالک سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور میرے خلاف سیاسی میدان اور تحریک عدم اعتماد دونوں بیرونی فنڈنگ کا نتیجہ ہیں تو اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
اب ذرا سوچئے اگر یہ واقعی کوئی دھمکی آمیز خط تھا جیسا کہ پہلے کہا گیا، اتوار کی شام سے بدھ کی دوپہر تک یہی موقف تھا کہ ایک ملک نے دھمکی دی ہے نام نہیں لیا جاتا تھا لیکن امریکہ کا نام زبان زدعام تھا۔
ہمارے ہاں روایتی اور فیشنی امریکہ دشمنی موجود ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچا گیا۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا وزیر خارجہ کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ وزیراعظم کو مشورہ دیتے کہ کسی تاخیر کے بغیر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے؟ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی بجائے جلسہ عام کے انعقاد اور جلسہ میں عوام (اپنے حامیوں) کے سامنے جذباتی تقریر سے فتح کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ مظلومِ امت مسلمہ کا درجہ حاصل کیاجاسکتا تھا۔
دھمکی آمیز خط قومی سلامتی کمیٹی میں لے جانے کا نتیجہ جو نکلنا تھا وہ شاہ جی، چودھری صاحب اور جرنیل زادہ تینیوں جانتے تھے۔
کیا آپ کو عجیب نہیں لگتا کہ اس قدر حساس معاملہ سے قومی سلامتی کمیٹی بے خبر تھی۔ دھمکی آمیز خط لہرانے، ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرنے اور یہ تاثر دینے کی ان کی طرح مجھے بھی دھمکی دی گئی ہے کیونکہ میں مرد آزاد ہوں کا مقصد کیا تھا۔ صاف ظاہر ہے عوام کی ہمدردی حاصل کرنا، لیکن مشورہ دینے اور تقریر سمجھانے والے یہ بھول گئے کہ بھٹو نے کچھ کام بھی تو کئے تھے۔ خان صاحب نے پونے چار برسوں میں کیا کام کئے؟
میں مکرر آپ کی خدمت میں عرض کئے دیتا ہوں خان صاحب جولائی 2019ء میں امریکی دورہ پر گئے تھے وہ وزٹنگ وزٹ تھا۔ ایسا ہی وزٹنگ وزٹ جو حالیہ عرصہ میں روس کا ہوا۔
یعنی امریکہ اور روس کے دورے سٹیٹ وزٹ (سرکاری دورے) نہیں تھے۔ سفارتکاری سے ملاقاتیں طے کرائی گئیں۔

امریکہ کا دورہ پی ٹی آئی کے اجتماع سے خطاب کے لئے تھا۔ روس کا دورہ کچھ دیگر معاملات تھے وہ تو روس یوکرائن جنگ چھڑ گئی۔ ایک ذریعہ اس امر کی تصدیق کررہا ہے کہ روس یوکرائن جنگ سے پندرہ دن قبل امریکہ اور روس میں موجود دنیا بھر کے سفارتکار اپنے اپنے ملکوں کو روس یوکرائن کشیدگی اور جنگ کے امکانات سے باخبر کرچکے تھے یعنی سفارتی کیبلز دنیا بھر کے دفتر خارجہ میں پہنچ چکیں تھیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے شہرت یافتہ وزیر خارجہ ایسی اطلاعات سے لاعلم تھے؟
اب اگر روس کے وزٹنگ وزٹ اور حالیہ مبینہ دھمکی آمیز خط دونوں کو ملاکر تجزیہ کریں تو آپ آسانی سے سمجھ لیں گے کہ وزیراعظم کو گھیر کر اس مقام تک لے جایا اور لایا گیا۔

دفتر خارجہ کا فرض تھا کہ وہ روس کے وزٹنگ وزٹ کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیتا جوکہ نہیں دیا گیا بلکہ وہی روایتی کہہانی بیچی گئی۔
مہینوں کی محنت سے شیڈول طے پایا ہے دورہ ملتوی کیا گیا تو دو طرفہ تعلقات متاثر ہوں گے۔
خیر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ تاثر کیوں دیا گیا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہوئی کشیدگی کا علاج اس دورے میں موجود ہے ادھر ہم روس گئے اور اُدھر امریکی بھاگم بھاگ اسلام آباد تشریف لائیں گے؟
سفارتکاری کی نزاکتوں سے باخبر ایک عام طالب علم بھی یہ تجزیہ کرسکتا ہے کہ عالمی دھڑے بندی سے دامن بچاکر وہی رہ سکتے ہیں جن کے قدم اپنی سرزمین پر مضبوطی سے جمع ہوئے ہوں۔
ہمارے حالات سے زمانہ واقف ہے سوائے ہمارے۔
ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ خط واقعی دھمکی آمیز ہوتا جیسا کہ اتوار کی شام سے بدھ کی دوپہر تک طوفان اٹھایا گیا تھا تو پھر قومی سلامتی کمیٹی میں اس پر بات کرکے عوام کو اعتماد میں لینے کے بعد کا ذریعہ پارلیمنٹ اور جلسہ ضرور تھے۔ یہاں تجزیہ کچھ تھا مگر اسے دھمکی آمیز خط کا نام دیا گیا اور پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اگر ہم واقعی امریکی غلامی سے نکلنے کے لئے پرعزم ہیں تو پھر جب روس و چین معاشی بلاک بنانے کے لئے ترکی اور ایران کے ساتھ 2020ء میں ہم سے بھی بات چیت کررہے تھے تو ہم منہ موڑ کر امریکی "کافی” کی چسکیاں کیوں لیتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author