رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتدار کے ایوان میں اچانک یہ کیا ہو گیا۔ دیکھ لیا انجام سیاسی جنگ کا۔ ایسا ہی ہوتا ہے ایسے کاموں میں۔ سیاست جب جنگ میں تبدیل ہو جائے تو اصول بھی وہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں‘ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ہم تو عوام کے ساتھ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور تماشا ابھی کئی ہفتوں سے ایسا سجا ہے کہ ہر لمحہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے اور سرخیاں بدل رہی ہیں۔ ہمارے جیسے کمزور دلوں‘ لاغروں اور ڈرپوکوں میں ہمت نہیں کہ کئی جانب سے زبانوں کی توپوں سے چلتے گولوں کے شور کو برداشت کر سکیں۔ ہر سیاسی جماعت نے گہری سوچ بچار اور تحقیق کرنے کے بعد توپچی بھرتی کر رکھے ہیں۔ سب کرائے پر ہیں اور ان میں جنس کی کوئی تخصیص نہیں۔ سب مصروف ہیں۔ ملک بھر میں پھیلتے ہوئے میڈیا نے سب کو کھلا میدان مفت میں دے رکھا ہے۔ اس گولہ باری سے ہی تو گلشن کا کاروبار چلتا ہے۔ ہمارے بے چارے عوام کو کوئی اور تو تفریح ملتی نہیں‘ سیاسی توپوں سے اگلتے ہوئے شعلوں‘ دھویں اور گرج دار دھماکوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہم نے اچھا ہی کیا کہ دنیا سے کنارا کشی اختیار کر لی ہے۔ ان معاملات سے ذرا دور ہٹ گئے۔ کچھ لا تعلق سے ہو گئے۔ واپس کبھی بھیڑ بھاڑ میں آنے کو جی چاہتا ہے تو کسی سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا ہوا اس سیاسی جنگ کا‘ اب کون پیش قدمی کر رہا ہے اور کون پسپائی پر آمادہ ہے؟ موبائل فون رکھنے کی ضرورت تو ہمیں بھی ہے مگر اس کو کھولنے اور پورے جہان اور افکارِ تازہ پر بار بار نظردوڑانے کی بیماری سے آزاد ہیں۔ دو دن قبل ایک دور کی جامعہ میں رات بسر کرنا پڑی‘ کارِ سرکار کے سلسلے میں۔ میری صبح کی سیر کو تو کوئی دشمن‘ دوست یا کوئی ہنگامی صورت حال بھی کبھی نہیں روک سکی۔ عجیب و غریب نظارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ دو باوردی گارڈز بڑے گیٹ کے سامنے نظریں گاڑے فون پر کچھ پڑھتے رہے۔ ایسے کہ جیسے دنیا و ما فیہا سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو۔ سیاسی جنگ ہو اور یہ میڈیا اس کا میدان بنا ہوا ہو‘ تو کون ان تازہ خبروں‘ تبصروں‘ سیاسی پیغاموں اور اپنے اپنے سیاسی اکابرین کی دھواں دھار تقاریر کو دیکھنے اور سننے میں کوتاہی کرے گا۔
جو کچھ ہو رہا ہے‘ اور ہوتا رہا ہے‘ اس سے ہمارا معاشرہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیاست زدہ ہو گیا ہے۔ یہ بیماری بھی کچھ ایسے ہی ہے جیسے کچھ بدقسمت لوگ آسیب زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا موضوع ہے کہ عوام سیاسی کیوں ہوتے ہیں؟‘ حدیں کیوں عبور کر جاتے ہیں؟ معقولیت اور اعتدال میں کیوں نہیں رہتے‘ اور گھر گھر سیاسی تقسیم کیوں پیدا ہوتی ہے؟ جواب اس کا بڑا سادہ ہے۔ حکمران ٹولے اگر آئینی ضابطوں اور اصولوں کے مطابق سیاسی مسابقت میں حصہ نہیں لیں گے اور ہر وقت ہر موسم اور ہر حکومت میں دست و گریباں رہیں گے تو ہم گھروں میں بیٹھے ایک دوسرے سے الجھنا شروع کر دیں گے۔ سیاست دان تو بزدلی کا طعنہ یا الزام برداشت نہیں کرتے‘ مگر ہم خود اپنے آپ کو بزدل کئی دہائیوں سے قرار دے چکے ہیں۔ کسی نے سیاست کی بحث چھیڑی نہیں‘ اور ہم نے اجازت لیے بغیر اپنی راہ لی نہیں۔ ملکی سیاسی تقسیم نے دوستوں‘ خاندانوں اور بھائیوں تک کو ناخوشگوار حد تک جذباتی بنا دیا ہے۔ کھیل دوسروں کا‘ فتح یا شکست دوسروں کی‘ ہم کیوں خواہ مخواہ پیادے بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف میدانِ جنگ ہو‘ تو ہمارے بے کار مشوروں پہ کون عمل کرے گا۔
یہ سطور لکھتے وقت جو کچھ دیکھ رہا ہوں‘ یا سن رہا ہوں‘ اس سے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی جنگیں بھی ملکوں کے درمیان چھوٹی اور بڑی جنگوں کی طرح اپنے اور حریفوں کے بارے میں غلط فہمیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں مثالیں دینا شروع کروں تو بات کہیں اور نکل جائے گی۔ قوموں کے سیاسی افق پہ ابھرنے والے کرشماتی قائدین کا سب سے بڑا مسئلہ رعونت‘ خود پسندی‘ بے جا غرور اور مخالفین کو ہر لحاظ سے کمزور سمجھنا ہے۔ اکثر نے طاقت کا ناجائز استعمال کر کے کمزور مخالفین کو مزید کمزور کیا اور برابر اپنی طاقت میں اضافے کی خواہش نے انہیں ناروا مظالم کی طرف بھی دھکیل دیا‘ لیکن سب کا وقتِ حساب بھی ہم نے کرۂ ارض پر دیکھا۔ ہمارے سکولوں کی دیواروں پر جو سنہرے اصول لکھے جاتے تھے‘ ان میں سے ایک یہ تھا کہ ”دشمن کو حقیر مت سمجھو‘‘۔ میرے نزدیک سیاسی مخالفین دشمن نہیں ہوتے‘ بلکہ اصولی طور پر دوست ہوتے ہیں کہ سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں‘ ایک ہی قوم کے رہنما۔ فرق تو صرف اتنا ہے کہ منزل تک پہنچنے کی ہمت اور راستوں کا فرق ہوتا ہے۔ اختلاف ہر ایک کا حق ہے‘ مگر احترام واجب ہے۔ گالی گلوچ کی کیا ضرورت ہے‘ بد زبانی کی گنجائش تو ہونی ہی نہیں چاہئے۔ ہم نے دنیا کے کئی ممالک کی سیاست کو غور سے دیکھا ہے‘ پڑھا ہے‘ پڑھایا ہے اور ان کی تاریخ بھی‘ مگر جو سیاسی زبان کا رواج ہمارے ملک میں ہے‘ اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔ ایک سے بڑھ کر ایک رہنما اور ایک سے ایک کرائے کا توپچی اپنی مثال آپ ہے۔ جونہی ہمارے صحافی مائیک ان کے سامنے کرتے ہیں‘ زہر افشانی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ہم جمہوریت کی بحالی کے پہلے دور سے دیکھ رہے ہیں۔ تب ہم طالب علم تھے۔ اب تو ہمارے شاگرد بھی ریٹائر ہو چکے ہیں۔ بد زبانی اور بد کلامی کا طوفان بوتل کے جن کی طرح واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سرزمیںِ پاکستان کے لیڈروں نے اس جن کو اتنا شاد کیا ہے کہ لگتا ہے‘ اس نے دنیا بھر کے سارے ہم خیال جن زبانی گولہ باری کو فروغ دینے کے لیے یہاں بلا لیے ہیں اور وہ مصروفِ کار ہیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے ملک میں ہیجان کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ جوڑ توڑ‘ خرید و فروخت کی منڈی‘ جہاں مال مویشی نہیں کچھ اور خریدا جا رہا ہے‘ جسے کچھ بھٹکے ہوئے لوگ روحِ انسانی بھی کہتے ہیں۔ ہر طرف سازش کا شور ہے۔ تیور بدلے ہوئے ہیں‘ آستینیں سب نے چڑھا رکھی ہیں۔ چار بڑی سیاسی جماعتوں نے لوگوں کو جلوسوں کی صورت اسلام آباد اور دیگر شہروں میں لا کر طاقت کے مظاہرے کئے ہیں۔ بات تو سادہ سی تھی کہ جسے آپ جمہوریت کہتے ہیں‘ اس کا تقاضا ہے کہ مخالفین کے اقتدار کی جائزیت کو اگر آپ دل سے تسلیم نہیں کرتے تو بھی احترام لازم ہے کہ اس سے صرف پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت مضبوط ہو سکتی ہے اور مجموعی سیاسی فضا کو پُرامن اور خوش گوار رکھا جا سکتا ہے۔ آپ بھی بادشاہ لوگ ہیں کہ خود پودا لگاتے ہیں‘ اس کی آبیاری کا دعویٰ بھی کرتے ہیں‘ مگر کہیں سے اشارہ ملتا ہے تو اس پودے کو جڑ سے نکال پھینکنے پر آمادہ بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ خطرناک کھیل ہے اور کھیل ختم بھی ہو سکتا ہے۔ بڑھتے ہوئے تنائو اور تصادم میں کسی کو کچھ ہوش نہیں‘ کس کو الزام دیں‘ کس سے فریاد کریں؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر