رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُرانی سیاست دنیا بھر میں عوام کی نظروں میں اپنا وقار‘ عزت اور حیثیت کھو چکی ہے‘ مگر اس کا کمال یہ ہے کہ عوام کے نام پر ابھی تک زندہ ہے۔ تازگی اس میں کئی دہائیوں سے نہ آ سکی۔ وہی گھسے پٹے نظریے‘ وہی چہرے مہرے‘ وہی بیانیے اور وہی بوسیدہ سیاسی رنگ۔ سیاست میں بہار مغرب میں بھی نہ آ سکی‘ اگر آئی تو عرب ممالک میں‘ مگر وہاں بھی پُرانے سیاست بازوں نے ایسے حربے استعمال کئے کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔ عرب کی بہار کی بات ہم ذرا بعد میں کرتے ہیں‘ پہلے تھوڑا سا جائزہ مغربی جمہوریتوں کا لے لیتے ہیں۔ کوئی معتبر کتاب امریکی اور یورپی جمہوریت پر اٹھا کر دیکھ لیں‘ اور کئی دہائیوں سے جاری علمی مباحث اور مکالموں کو کھنگالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کے وجود سے روح پرواز کر چکی ہے‘ بس صرف ڈھانچہ باقی ہے۔ عملی اور فلسفیانہ طور پر روح وہ رشتہ ہے جو نظام پر عوام کے حقیقی اعتماد کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ یہ محسوس کریں کہ حکومت ان کے حقوق اور مفادات کی ترجمان اور نگہبان ہے۔ ان میں سے ہے‘ ان کے لیے ہے‘ اور اجتماعی امنگوں کا عکس ہے۔ یہی سیاسی اخلاقیات کا فلسفہ بھی ہے جس کی چھاپ دو ہزار سات سو سال قبل مسیح سے لے کر آج تک کے جدید سیاسی فلسفیوں کے افکار میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ حکومت اگر صرف حکمران طبقات اور ان کے حاشیہ برداروں اور طفیلیوں کے گرد گھومتی رہے اور ان کے اقتصادی تسلط کو فروغ دے کر جائزیت کا لبادہ پہنا دے تو اخلاقی بنیادوں پر کھڑی کسی بھی نظام کے تحت قائم کردہ حکومت کھوکھلی ہو کر رہ جاتی ہے۔ مغرب میں جمہوریت ہے‘ نظام پختہ ہے‘ مگر وہاں عورتیں‘ رنگ دار لوگ‘ اقلیتیں اور پسے ہوئے طبقے صدیوں سے کناروں پر زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی‘ جس کے وہ مستحق تھے۔ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حال ہی میں امریکہ میں رجعت پسندی کی اٹھتی ہوئی لہر نے تحریکِ نسواں کو زبردست دھچکا لگایا ہے۔ سیاہ فام بے چارے جس طرح زندہ ہیں اور جس طرح زندگی گزار رہے ہیں وہ کبھی ان کے علاقوں میں ذرا جھانک کے دیکھ لیں‘ تو پتا چل جائے گا۔ سیاست دان جس پارٹی سے بھی ہوں‘ خواب دکھاتے ہیں اور زور اس بات پہ ہوتا ہے کہ آج آپ پہلے سے بہتر ہیں۔ بات یہ نہیں‘ بات معاشی انصاف‘ سیاسی نمود اور حقیقی آزادیوں کی بہار کی ہے۔ اس کا نمونہ آپ صرف اور صرف سکینڈے نیوین ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔ مغرب میں کہیں اور ایسا نہیں ہو سکا۔ اسی لیے سیاست‘ سیاست دان اور سیاسی اداروں پر تواتر سے اعتبار اور اعتماد کم ہوتا چلا آیا ہے۔ وہاں نظام میں اتنی لچک اور گنجائش موجود ہے کہ بارک اوبامہ‘ بل کلنٹن اور مارگریٹ تھیچر صدر اور وزیر اعظم منتخب ہو جائیں‘ مگر نظریہ‘ پالیسیاں اور نقطہ نگاہ ایک محدود دائرے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جائزیت‘ انتخابی سیاست اور پارٹیوں کی باریوں اور سرمایہ داری نظام کی صلاحیت کے حصار میں نظام محفوظ ہے۔
افریقہ‘ لاطینی امریکہ‘ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں جو نظام ہیں‘ وہاں مغرب جیسی لبرل ڈیموکریسی کے لیے اب بھی فضا ہموار نہیں ہو سکی۔ اگر کہیں جمہوریت ہے تو ہمارے جیسی ہے‘ جہاں اقتدار حاصل کرنے اور قائم رکھنے کے لیے آئینی جائزیت کا ڈھانچہ موجود ہے‘ مگر کرسی صرف مقتدر طبقات کے لیے مختص ہے۔ اسی لیے تو سینکڑوں فوجی انقلاب وہاں آتے رہے ہیں‘ جو طبقاتی لحاظ سے مڈل کلاس کے حکمرانوں کے خلاف بغاوت تھی۔ اگرچہ اس کے اسباب اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں ہر جگہ بادشاہتیں ہیں‘ جہاں فوجی انقلابوں نے نصف صدی سے شاہی سلطنتیں ختم کیں‘ وہاں شخصی اور خاندانی آمریتوں نے ان کی جگہ لے لی۔ غلبہ قائم رکھنے کے لیے ریاستی طاقت کو فسطائی انداز میں منظم کر کے اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز‘ تحریک اور جماعت کا گلا گھونٹنے کی ایک لمبی خونیں داستان ہے۔ کیسے کیسے ظالموں اور کن کن مظلوموں کی فریاد کا دفتر کھولیں۔ ایسے اندھیروں میں عرب بہار کی روشنی ایک نوجوان کے خون سے سورج کی پہلی کرن کی مانند سیاسی افق پر ابھری تھی۔ پھر ہزاروں بلکہ لاکھوں نے جان کی قربانیاں دی تھیں۔ تیونس اور مصر میں جمہوری حکومتیں ان جماعتوں نے قائم کیں‘ جن کے بانی‘ قائد اور کارکن تختۂ دار پر لٹکا دیئے گئے تھے۔ پُرانے نظام میں نئی روح ڈالنے کی کوشش کی تو پُرانوں نے پھر دوبارہ اقتدار قومی مفاد اور ”حقیقی جمہوریت‘‘ کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سنبھال لیا۔ یہ درویش جب اپنی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑاتا ہے تو یہ چند الفاظ ذہن پر زور زور سے ہتھوڑے برسانا شروع کر دیتے ہیں کہ کچھ یاد ہے کہ نہیں؟
پاکستان میں بھی سیاست تین سو حکمران گھرانوں کے گرد آج تک گھوم رہی ہے۔ کسی کو ثبوت کی ضرورت پڑے تو صرف گزشتہ چار انتخابات کے جماعتی نتائج کو سامنے رکھ لے۔ جمہوری سیاست اقتدار کی جنگ اور اقتدار برائے ترقی‘ خوش حالی‘ دولت افروزی اور سیاست پر چند مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری قائم کرنے کے تنگ اور تاریک دائرے میں گردش کرتی رہی۔ نظام کی فرسودگی اور دن دیہاڑے اربوں کھربوں کی لوٹ کھسوٹ کی ناقابلِ یقین داستانوں نے پارلیمانی نظام کی اخلاقی جائزیت کا سنہری لبادہ تار تار کر دیا۔ یہ ایسے ہی نہیں کہ ہمارے کچھ سیاسی مبلغ اپنا بیان سناتے نہیں تھکتے کہ سیاست میں کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ سر دیوار میں مارنے کو جی چاہتا ہے‘ مگر اس کا کیا فائدہ؟ بات لمبی ہو گئی۔ عرض صرف یہ کرنا چاہتا تھا کہ عمران خان صاحب پاکستان کے نوجوان‘ متوسط اور غریب طبقات کا مقدمہ لے کر سیاست میں نہیں نکلے تھے۔ ‘نیا پاکستان‘ کو ایک نئی بہار کی نوید سمجھ کر عوام نے پذیرائی ایسی کی کہ تحریکِ انصاف سب سے بڑی پارٹی بن گئی‘ مگر انحصار اڑ کر موسمی پرندوں اور ہوا کا رخ بھانپ کر ساتھ دینے اور چھوڑنے والے گروئوں پہ تھا۔ نظام کی گرفت سے نکل کر آزادانہ فیصلے کرنے کی ہمت کی تو پھر وہی ہوا‘ جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ کپتان کا اقتدار رہے یا نہ رہے‘ یہ بالکل واضح اور یقینی ہے کہ اس نے تاریخ کے پہیے کو زبردست چکر دے دیا ہے۔ زمین ہموار کر دی ہے۔ پھول کب کھلیں گے؟ اس کا پتا نہیں۔ پُرانے کھلاڑی جو بھی گُر آزمائیں‘ تاریخ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں‘ اور ہمیشہ کے لیے رقم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کچھ بتاتی بھی ہے کہ بہاروں کا راستہ کسی نے کب تک روکا ہے‘ سمندر کی موجیں بھلا کب کسی سے اجازت طلب کرنے کی پابند ہیں‘ اور آندھیوں نے کب کسی کے اشاروں پر راستے بدلے ہیں؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر