نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’میکوں تونسہ آلے اڈے توں چا گھنو‘‘||ظہور دھریجہ

یہ حقیقت ہے کہ بڑے شہروں میں تخلیق ہونے والے ادب کو شہرت زیادہ ملتی ہے، میڈیا کی آنکھ دور دراز علاقوں کی طرف نہیں جاتی ورنہ دیہی علاقوں میں تخلیق ہونے والا ادب کسی سے کم نہیں۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ 92نیوز کی خبر کے مطابق وزیر اعظم کی ٹیم کے اہم کھلاڑی عثمان بزدار نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تو انٹرنیٹ پر میمز کی بھر مار ہو گئی، عثمان بزدار کی سادگی سے بھر پور منفرد انداز پر پاکستانیوں کے چٹ پٹے تبصروں اور چٹکلوں کا انبار لگ گیا، سوشل میڈیا پر کسی نے انہیں دلوں کا وزیر اعلیٰ کہا تو کسی نے قومی ہیرو قرار دیا، کوئی عثمان بزدار کو کنگ کہتا رہا تو کسی نے Buzziدی مین کہہ کر چھیڑ چھاڑ کی۔
 کچھ صارفین نے عثمان بزدار کو یہ بھی کہا کہ آپ لیجنڈ ہیں ، وسیم اکرم پلس آپ ہمیں بہت زیادہ یاد آئیں گے ۔ ایک صارف نے وسیم اکرم کی تصویر پر ایڈٹ کر کے عثمان بزدار کا چہرہ لگایا اور لکھا کہ موجودہ حکومت میں صرف یہ واحد شخص ہے جس سے کوئی نفرت نہیں کرتا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈ چل رہا ہے اس میں اس سرائیکی فقرے پر بہت زیادہ ویڈیوز بنی ہیں جس میںعثمان بزدار فون پر تونسہ کے ایک دوست کو کہتے ہیں ’’ میں عثمان بزدار بولیندا پیاں، میں ولیا اَمداں تونسہ آلے اڈے توں میکوں چا گھنو‘‘۔ سردار عثمان خان بزدار کا تعلق تونسہ شریف سے ہے۔
 تونسہ شریف کا ذکر آیا ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ علمی و ادبی اعتبار سے زرخیز مگر سہولتوں کے اعتبار سے تونسہ شریف سب سے زیادہ پسماندہ ہے، میں نے اپنے ایک تفصیلی مضمون میں لکھا تھا کہ تونسہ بظاہر ایک چھوٹی سی تحصیل ہے۔ یہ خطہ صدیوں سے محرومی کا شکار رہا، جغرافیائی لحاظ سے یہ پسماندہ بھی ہے اور پس افتادہ بھی ، مگر یہ تہذیبی حوالے سے نہایت ہی مردم خیز خطہ ہے ، اس علاقے میں بڑی بڑی شخصیات نے جنم لیا ، حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ کا مزار نہایت اہمیت کا حامل ہے، تونسہ کا پہلا نام سنگھڑ تھا ، 15نومبر 1951ء کو اسے تونسہ کا نام دیا گیااور حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسویؒ کی وجہ سے اسے تونسہ شریف کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کراچی سے پشاور تک جانیوالی انڈس ہائی وے (قومی شاہراہ 55) پر قائم ہے۔ ساحلی شہر کراچی سے شہر کا فاصلہ 975کلو میٹر اور صوبائی دارالحکومت لاہور سے 600کلومیٹر ہے۔
تونسہ شریف کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ تونسہ کا نام سرائیکی لفظ تَس سے بناہے جس کا معنی پیاس یا شدید طلب ہے۔ دریائے سندھ پر تونسہ بیراج کے نام سے ایک بیراج موجود ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ تحصیل کوٹ ادو میں آتا ہے ، اس بیراج کی تعمیر 1953ء میں شروع ہو کر 1959ء میں مکمل ہوئی مگر یہ تونسہ کو سیراب نہیں کرتا ۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں یا نہیں البتہ چوہدری پرویز الٰہی کے سپورٹر اور جوڑ توڑ کے بادشاہ آصف زرداری نے کہہ دیا ہے کہ جسے اپوزیشن منتخب کرے گی وہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے گا۔
سردار عثمان خان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں یا نہ رہیں لیکن وزرائے اعلیٰ کی تاریخ میں ان کا نام آ گیا ہے، ان کا ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی کیسا رہا اس کا تجزیہ بھی ہوتا رہے گا البتہ عثمان خان بزدار نے خود کہا ہے کہ کون کہتا ہے کہ میں بطور وزیر اعلیٰ کام نہیں کر سکتا ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے سینے میں بہت راز ہیں ، کتاب لکھوں گا تو اس کی ریکارڈ فروخت ہو گی۔ ہمارا وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کو مشورہ ہے کہ وہ راز سینے میں دفن رکھنے کی بجائے ان کو باہر لے آئیں اور کتاب ضرور لکھیں کہ قومیں کتاب سے بڑی ہوتی ہیں اور کہاوت بھی ہے کہ ’’لکھیا لوہا، الایا گوہا‘‘۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تونسہ اور ڈیرہ غازی خان کو چھوٹے موٹے ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ وسیب کو وہ کچھ نہ دے سکے، مجبوری یا نا اہلی اس بارے میں بھی وہ ضرور لب کشائی کریں ۔
 کتاب کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ’’ تاریخ تونسہ شریف‘‘ کے نام سے نوجوان لکھاری حفیظ اللہ گورمانی کی کتاب شائع ہوئی ہے جسے دیکھ کر دلی خوشی ہوئی ہے ۔نوجوان لکھاری حفیظ اللہ خان گورمانی نے بہت محنت کی ہے، خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وسیب کے نوجوان اپنے وسیب کے بارے میں سوچتے ہیںاور تاریخ پر نظر رکھتے ہیں،تاریخ تونسہ شریف میں مقامات، اقوام، قبائل اور شخصیات کا ذکر نہایت محبت کے ساتھ کیا گیا ہے،کتاب کی تیاری میں محنت اور عرق ریزی واضح طور پر نظر آتی ہے، یہ کتاب تونسہ کی تاریخ بھی ہے اور تاریخی حوالہ بھی، آنے والے وقتوں میں طالب علموں اور ریسرچ سکالروں کیلئے یہ کتاب حوالے کا کام دے گی ۔ میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ قوموں کی زندگی میں کتاب کی بہت اہمیت ہے،جو بات تحریر میں آ گئی وہ امر ہو جاتی ہے ، سرائیکی زبان کو لہجہ کہا جاتا تھا مگر کتابوں کی بدولت سرائیکی آج یونیورسٹیوں میں پڑھائی جا رہی ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سرائیکی اہل قلم نے اتنی تعداد میں کتابیں لکھ دی ہیں کہ ان کو سمندر بھی ہضم نہیں کر سکتا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کتابوں کی اہمیت کے حوالے سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ خواجہ فریدؒ ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہونے کے ساتھ بہت مالدار تھے مگر ان کی پہچان ان کی دولت نہیں بلکہ ان کا دیوان ہے،اسی بناء پر میں تمام دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی تحریروں کو کتابی صورت میں لائیں تاکہ وسیب کا علمی ورثہ محفوظ ہو سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ بڑے شہروں میں تخلیق ہونے والے ادب کو شہرت زیادہ ملتی ہے، میڈیا کی آنکھ دور دراز علاقوں کی طرف نہیں جاتی ورنہ دیہی علاقوں میں تخلیق ہونے والا ادب کسی سے کم نہیں۔ شہروں کے شیش محل میں بلاشک سونے چاندی کے مجسمے سجا دئیے جائیں مگر لعل گودڑی میں ہوتے ہیں۔وسیب میں تخلیق ہونے والے ادب کو ہم دنیا کی کسی بھی زبان کے مقابلے میں رکھ سکتے ہیں مگر دیگر زبانوں کے ادارے ہیں اور حکومت کی سرپرستی بھی ہے مگر وسیب سے آج بھی سوتیلی ماں کا سلوک ہو رہاہے، آج بھی سرائیکی وسیب کا علمی و ادبی سرمایہ ضائع ہو رہا ہے ، سرکاری سطح پر طباعت و اشاعت کے ادارے نہیں ہیں،یہ بھی المیہ ہے کہ وسیب سے تعلق رکھنے والے جاگیر دار، تمنداراور سردار ہمیشہ برسراقتدار رہے مگر بڑے شہروں کی چکاچوند روشنیوں نے ان کو اپنے علاقوں کی طرف دیکھنے نہ دیا، وہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتے رہے مگر اپنے علاقوں کو انہوں نے کبھی بیگار کیمپ سے زیادہ اہمیت نہ دی۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author