آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کھلاڑی کی سپورٹس مین سپرٹ اور حوصلے کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ کھلاڑی ہار رہا ہو۔ ہار کو خندہ پیشانی سےتسلیم کرنا ہی کسی حقیقی سپورٹس مین کی نشانی ہوتی ہے ورنہ کئی کھلاڑی ہار برداشت نہیں کر سکتے اور گراونڈ میں ہی رونے لگتے ہیں یا مخالف ٹیم اور امپائر سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ تقریباً اسی سے ملتی جُلتی صورتحال آج کل پاکستانی سیاست کو بھی درپیش ہے جہاں وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے ایک آئینی عمل یعنی تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالا گیا ہے اور وزیراعظم بھی وہ جو ایک سابق کھلاڑی ہے اور اپنے کھیل کے زمانے میں سپورٹس مین سپرٹ اور نیوٹرل امپائرنگ کا بہت بڑا دعویدار تھا لیکن اپنےاقتدار کا کھیل ختم ہوتا دیکھ کر وہ کھلاڑی وزیراعظم اب فاول کھیلنے پر اتر آیا ہے اور ایک آئینی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ آئینی طریقے سے کرنے کی بجائے کبھی اپنے مخالف کھلاڑیوں سے لڑتا ہے انہیں گالی دیتا ہے، انہیں غلط ناموں سے پکارتا ہے، ان کی نقلیں اتارتا ہے اور کبھی اسے امپائر پر اعتراض ہوتا ہے کہ وہ اس کا ساتھ دینے کی بجائے نیوٹرل کیوں ہے۔ اس کھلاڑی وزیراعظم کادعوی ہے کہ کرکٹ میں نیوٹرل امپائرنگ اس نے متعارف کروائی تھی لیکن اب وہ کھلم کھلا کہتا ہے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بندہ اب اس کی کس بات کا اعتبار کرے۔
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کھلاڑی وزیراعظم کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ میں تو دعا کررہا تھا کہ اپوزیشن میرے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرے تاکہ میں اسے ناکام بناؤں اور پھر میں اپوزیشن والوں کو دیکھ لوں گا اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ پھر میں انکے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اب پتہ نہیں کھلاڑی وزیراعظم کے وہ کون سے اختیارات ہیں جو اس کے پاس ابھی موجود نہیں اور یہ اختیارات اسے اس وقت حاصل ہوں گے جب اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی اور پھر ان اختیارات کے حاصل ہونے کے بعد وہ اپوزیشن کو دیکھ لے گا۔ کھلاڑی وزیراعظم کی ان بڑھکوں کے جواب میں چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کھلاڑی وزیراعظم کو چیلنج کیا ہے کہ بعد میں کیا دیکھنا ہے ابھی وقت ہے ابھی دیکھ لو بعد میں شائد آپ کو موقع نہ ملے۔ یہاں کھلاڑی وزیراعظم یہ بات بھول گیے کہ عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کے خلاف جو کریں گے اس کا اپوزیشن کو اندازہ نہیں لیکن اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اپوزیشن جو کھلاڑی وزیراعظم کے ساتھ کر سکتی ہے کیا کھلاڑی وزیراعظم کو اس کا اندازہ ہے؟ اپوزیشن کے تو بہت سارے رہنما جیلیں کاٹ آئے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کسی پر کچھ ثابت نہیں ہو سکا اور کھلاڑی وزیراعظم کے پسندیدہ مشیر احتساب شہزاد اکبر ساڑھے تین سال سرکاری وسائل اور میڈیا کا بے دریغ استعمال کرنے کے باوجود اپوزیشن رہنماؤں کی خلاف کچھ بھی ثابت کرنے میں بری ناکام رہے اور اب اپنی ناکامی کے بعد استعفی دے کر جہاں سے آئے تھے وہیں واپس لوٹ چکے ہیں۔ کھلاڑی وزیراعظم کو یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ وہ تو کچھ ثابت نہیں کرسکے لیکن ان کی حکومت کے دوران سامنے آنے والے بہت سے میگا کرپشن کیسسز تکمیل کے مرحلے میں ہیں اور صرف ہواؤں کا رخ بدلنے کے انتظار میں سرد خانے میں پڑے ہیں۔ ایک لمبی فہرست ہے ان میگا کرپشن کیسسز کی لیکن ان میں سے فارن فنڈنگ کیس جس کی ساری تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور تحریک انصاف پر بینک اکاؤنٹس ڈیکلئیر نہ کرنا اور فارن فنڈنگ وصول کرنا ثابت ہو چکا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں پڑا فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ اگر باقی میگا کرپشن کیسسز کو ایک سائیڈ پر ہی رکھیں تو اکیلا فارن فنڈنگ کیس ہی کھلاڑی وزیراعظم کو ان کی پارٹی سمیت تاریخ کا حصہ بنا سکتا ہے۔
عام طور پر حکومتیں ایسے اقدامات سے اجتناب کرتی ہیں جن سے نقص امن کا اندیشہ ہو بلکہ کوشش کرتی ہیں کہ اگر اپوزیشن کی طرف سے امن و امان کو ہاتھ میں لینے کا اگر کوئی خطرہ ہو تو اپوزیشن سے بھی بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ امن و امان برقرار رہے کیونکہ امن و امان برقرار رکھنا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سارے معاملےمیں بھی کھلاڑی وزیراعظم اور ان کے وزیرِداخلہ الٹی گنگا ہی بہاتے نظر آئے اور حکومت کی جانب سے کھلم کھلا دھمکی دی گئی کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری والے دن ہم پارلیمنٹ کے باہر اپنے کارکنوں کو کال دیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے کوئی رکن پارلیمنٹ ہمارے کارکنوں کے درمیان میں سے گزر کر ووٹ ڈالنے کے لیے پارلیمنٹ بلڈنگ کے اندر جاتا ہے اور ووٹ ڈالنے کے بعد کیسے ہمارے کارکنوں کے درمیان میں سے گزر کر واپس جاتا ہے۔ حکومت کی اس دھمکی کے جواب میں اپوزیشن نے بھی اعلان کردیا کہ ہم بھی اپنے کارکنوں کو کال دیں گے اور دیکھتے ہیں کہ کون اراکین پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کے اندر جانے سے روکتا ہے۔ اندازہ کریں حکومت کی طرف سے شروع کی جانے والی شر انگیزی کتنے بڑے تصادم کو دعوت دینے جا رہی تھی جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اور ریڈ زون میں ہر قسم کے جلسہ جلوس پر پابندی لگا کر ایک متوقع تصادم کو ٹال دیا۔ کھلاڑی وزیراعظم بہرحال میچ ہارنے کے خطرے کے پیش نظر پچ اکھاڑنے کا پورا بندوبست کر چکا تھا جس کا عندیہ وہ پارلیمنٹ لاجزاور سندھ ہاؤس پر حملے کی صورت میں دے بھی چکا تھا لیکن اعلی عدلیہ نے اپنے فیصلے کے ذریعے کھلاڑی وزیراعظم کے عزائم خاک میں ملا دئیے۔
اسی دوران جب پوری طرح واضح ہو گیا کہ کھلاڑی وزیراعظم اتحادیوں کے ساتھ چھوڑ جانے اور اپنی ہی پارٹی میں ہونے والی بہت بڑی بغاوت کے نتیجے میں ایوان میں اپنی اکثریت کھو چکا ہے تو کھلاڑی وزیراعظم نے اپنے کٹھ پتلی سپیکر کے ذریعے ایوان کا اجلاس بلانے کی مقررہ مدت چودہ دن کے اندر اجلاس نہ بلا کر آئین کی ایسی فاش خلاف ورزی کر ڈالی جس پر سپیکر کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ پچیس مارچ کو جب اجلاس بلایا ہی گیا تو بجائے تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کیے جانے کے، وفات پا جانے والے اراکین کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد اجلاس ایک دفعہ پھر اٹھائیس مارچ کی تاریخ تک ملتوی کردیا گیا۔ ان تمام تاخیری حربوں کے باوجود کھلاڑی وزیراعظم ایک یقینی ہار سے تو نہیں بچ سکے گا البتہ کھلاڑی وزیراعظم کی سپورٹس مین سپرٹ کے ڈھول کا پول پوری طرح کھل گیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کھلاڑی وزیراعظم صرف امپائر کو ساتھ ملا کر کھیل سکتا ہے اور اگر امپائر نیوٹرل ہو جائے تو نہ صرف کھلاڑی وزیراعظم کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں بلکہ وہ بال ٹمپرنگ سمیت ہر وہ حربہ استعمال کرنے لگتا ہے جس کی کھیل کے قواعد و ضوابط قطعا اجازت نہیں دیتے۔
کھلاڑی وزیراعظم کی جانب سے کھیل کے قواعد و ضوابط کی ایک اور بڑی اور شدید خلاف ورزی مذہب کارڈ کا استعمال ہے۔ مذہبی طور پر ایک نہایت حساس قوم ہونے کے ناطے بڑے کھلاڑیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی کھیل میں مذہب کو ملوث نہ کریں لیکن کھلاڑی وزیراعظم یہاں بھی باز نہیں آیا اور اپنے خلاف ایک آئینی عمل کو مذہب کی جنگ بنا کر پیش کر رہا ہے اور اپنے منہ سے ہی خود کو اچھائی اور مخالفین کو برائی بنا کر پیش کر رہا ہے۔ کھلاڑی وزیراعظم کو شائد یہ پتہ نہیں کہ لوگوں کی یادداشت اتنی کمزور نہیں کہ وہ کیلیفورنیا کی عدالت کا وہ فیصلہ بھول جائیں جس میں کھلاڑی وزیراعظم کو ایک ایسی بچی کا باپ قرار دیا گیا ہے جس کی والدہ سے کھلاڑی وزیراعظم کا نکاح نہیں ہوا تھا اور وہ بچی اس کے دوسرے بچوں کے ساتھ اس کی سابقہ اہلیہ کے پاس پرورش پا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کھلاڑی وزیراعظم کی پلے بوائے والی زندگی کون بھول سکتا ہے اور اس کی سابقہ اہلیہ کی کتاب میں لگائے جانے والے الزامات بھی ہنوز جواب طلب ہیں۔ ایک ایسے شخص کی جانب سے جس کا بظاہر مذہب سے دور کا بھی لینا دینا نہیں اور جس کا ماضی اور حال ہر طرح کے شرعی عیوب سے بھرا ہوا ہے لیکن وہ جلسوں میں کھڑا ہو کر خود کو ایک ناصح اور عالم دین بنا کر پیش کرتا ہے اور مخالفین کو چور ڈاکو اور ہر طرح کے غلیظ القابات سے نوازتا ہے۔ یہ بھی کھلاڑی وزیراعظم کی بھول ہے کہ تماشائی عوام کھلاڑی وزیراعظم کی جانب سے مذہب کارڈ کےاستعمال سے اس کی ساڑھے تین سالہ حکومتی اننگز کی نالائقی، نااہلی اور اس کی جانب سے پیش کیے جانے والے بدترین کھیل کو بھول جائیں گے اور اسے ایک اور باری کا موقع دیں گے۔ کھلاڑی وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہئیے کہ تماشائی عوام کی خاموشی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے جو اس کے سارے سیاسی کیرئیر کو بہا لے جائے گا۔
عام طور پر جمہوری روایات یہی ہوتی ہیں کہ جب کسی آئینی عہدیدار کو یقین ہو جائے کہ اسے ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں رہا تو وہ بجائے عدم اعتماد کی ہزیمت اٹھانے کے عزت اور وقار کا راستہ اختیار کرتا ہے اور خود ہی استعفی دے کر اقتدار چھوڑدیتا ہے لیکن کھلاڑی وزیراعظم اس طرح کی صورتحال پیدا ہو جانے کے باوجود کہ جب یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ کھلاڑی وزیراعظم ایوان کی اکثریت کھو چکا ہے اور اسے اپنی ٹیم کا اعتماد حاصل نہیں رہا لیکن کھلاڑی وزیراعظم اس کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے پر بضد ہے اور بار بار یہی اعلان کر رہا ہے کہ وہ ہار جانے کے باوجود میدان نہیں چھوڑے گا۔ ستائس مارچ کو کھلاڑی وزیراعظم نے ایک جلسے کا بھی اعلان کر رکھا ہے جس میں کوئی بہت بڑا سرپرائز دئیے جانے کا دعوی بھی کیا جا رہا ہے۔ اس سرپرائز کے بارے مختلف لوگ مختلف اندازے بھی لگا رہے ہیں کہ یہ سرپرائز کیا ہو سکتا ہے۔ کھلاڑی وزیراعظم کا ٹریک ریکارڈ تو یہ بتاتا ہے کہ کھلاڑی وزیراعظم جو کہتا ہے کرتا ہمیشہ اُس کے برعکس ہے تو اس ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ستائیس مارچ کے جلسے میں دیا جانے والا سرپرائز کھلاڑی وزیراعظم کا استعفی بھی ہو سکتا ہے؟ اور اس کے بعد کھلاڑی وزیراعظم اس استعفی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اور عوام کو بتائے گا کہ دیکھو میں نے اقتدار کو لات مار دی اور استعفی دے کر عوام میں آ گیا ہوں لیکن کھلاڑی وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہئیے کہ تماشائی عوام کی یاداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ وہ اس کی ساڑھے تین سال کی بدترین کارکردگی کو اتنی آسانی سے بھول جائیں۔
اقتدار آنے جانی والی چیز ہے، اقتدار کی کرسی نے نہ پہلے کسی کے ساتھ وفا کی ہے نہ کھلاڑی وزیراعظم کے ساتھ کرے گی لیکن اقتدار سے باہر جاتے وقت کھلاڑی وزیراعظم کا رویہ کسی بھی طور سے نہ تو ایک کھلاڑی کے شایان شان ہے اور نہ ایک وزیراعظم کے۔ پہلے بھی وزرائے اعظم گھروں کو بھیجے جاتے رہے اور زیادہ تر کو تو غیر آئینی طریقوں سے اقتدار سے نکالا گیا جبکہ کھلاڑی وزیراعظم کے خلاف تو ایک آئینی طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے جو کھلاڑی وزیراعظم کے ایوان میں اکثریت کھو دینے کے بعد مخالف ٹیم کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اس لیے کھلاڑی وزیراعظم کو بھی چاہئیے کہ فاول کھیلنے کی بجائے یا تو جمہوری طریقے سے ایوان میں تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرے یا دوسرا راستہ عزت اور وقار کے ساتھ استعفی دے کر گھر جانے کا ہے۔ ان دونوں راستوں کے علاوہ تیسرا کوئی بھی راستہ نہ تو کھلاڑی وزیراعظم کے لئے بہتر ثابت ہو گا اور نہ ہی ملک و قوم اور جمہوریت کے لیے۔ سپورٹس مین سپرٹ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فاول کھیلنے سے گریز کیا جائے کیونکہ ایک کھلاڑی سے سپورٹس مین سپرٹ کی ہی توقع کی جاتی ہے۔
۔
Twitter: @GorayaAftab
یہ بھی پڑھیے:
پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ
تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر