رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومتوں کو گرانے کے گُر‘ فارمولے‘ ترکیبیں اور تدبیریں کوئی ہمارے محترم سیاسی لوگوں سے پوچھے‘ مگر ان بیکار کی باتوں میں کوئی کہیں اور کیوں سر کھپائے گا۔ لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ علم‘ فن اور تجربہ یہاں ہی رہے گا‘ کوئی اور شاید اس سے مستفید نہ ہو سکے۔ ہم نے مہارت حاصل کر لی ہے اور نسل در نسل یہ کھیل کھیل کر اسے اپنی سیاسی تاریخ کا حصہ بنا چکے ہیں۔ سب کو معلوم ہی ہے مگر صرف یاد دہانی کے لئے عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں تاکہ جب یہ حکومت گر جائے اور اس سے پہلے کئی بار گرنے والے دوبارہ اٹھ کھڑے ہو کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں‘ اور پھر ان کو ایک بار پھر گرانے والے میدان میں اتریں تو آپ کو معلوم رہے کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے۔ جن اقدامات کا ذکر یہاں کرنا چاہتا ہوں‘ ان کی کوئی ترتیب تو نہیں‘ مگر اکثر ایسا ہی ہوتا دیکھتے آئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک بیانیہ تراشنے کی ضرورت ہے۔ جب سے حکومتوں کو گرانے کی رسم پڑی ہے‘ یکسانیت ہی سامنے آئی ہے۔ بات یہاں سے شروع ہوتی رہی ہے کہ حکومت کی جائزیت کو ہم نہیں مانتے۔ نہ ماننے کی البتہ کئی وجوہات بیان کی جاتی رہی ہیں۔ یہ کہ آمرانہ ہے‘ غیر آئینی طریقے سے بنی ہے‘ عوام کی تائید اسے حاصل نہیں رہی‘ عوام مہنگائی کی چکی میں پس گئے ہیں‘ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔ عمران خان صاحب نے گزشتہ سے پہلے والے انتخابات کے خلاف احتجاج دھرنے کی صورت میں پارلیمان کے سامنے کئی ماہ تک کیا۔ خان صاحب ایک طرف‘ باقی سب جماعتیں دوسری طرف۔ اس سے قبل 1977 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک طرف اور نو جماعتیں دوسری طرف تھیں۔ بڑی تحریک چلی اور جمہوریت اور آئین کو بچاتے بچاتے ہم نے مارشل لاء لگوا دیا۔ پھر سیاسیوں کا ایک بڑا حصہ بڑی سرکار کی نئی سیاسی نوکریوں میں جمہوریت کو ”دوبارہ زندہ کرنے‘‘ کی غرض سے مصروف ہو گیا۔ اور جو جناب ذوالفقار علی بھٹو پہ گزری‘ اس کا سوچ کر دل دُکھتا ہے۔ تحریکِ انصاف گزشتہ انتخابات میں بڑی پارٹی کے طور پر ابھری تو حزبِ اختلاف نے روزِ اول سے انتخابات کی شفافیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انتخابات شفاف نہ ہوں تو بالکل انہیں تسلیم نہ کیا جائے اور ہر گزشتہ انتخابات کو ہم یہ سند بھی نہیں دے سکتے‘ مگر ہر الیکشن کو متنازع بنا دیا جائے تو اس بنیادی جمہوری عمل کی کوئی حیثیت اور کوئی اعتبار باقی نہیں رہتا۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ہمارے سب محترم سیاسی بھائی مل بیٹھتے اور آئندہ انتخابات کو شفاف اور آزادانہ بنانے کے لئے مل کر قانون سازی کرتے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے اس بارے میں جو بھی تجویز آئی‘ اسے ابھی تک تو مسترد کر دیا جاتا رہا ہے۔ پھر تو وہی پرانا کھیل‘ ڈر ہے کہ جو بھی مستقبل میں حزبِ اختلاف ہو‘ جاری رکھے گی اور معاملات کبھی سیدھے راستے پر نہیں آئیں گے۔ ظاہر ہے پھر حالات میں بھی کوئی تبدیلی نہ آئے گی۔
دوسرا بڑا حربہ ہمارے ہاں سیاسی ”لانگ مارچ‘‘ کا ہے۔ چین میں مائوزے تنگ کی قیادت میں صرف ایک ہی مارچ ہوا تھا۔ اس کی نوعیت‘ مقصد‘ نظریہ اور جدوجہد کچھ اور تھی۔ یہ 1934 میں شروع ہوا اور 1949 میں فتح پر ختم ہوا تھا۔ یہ بنیادی طور کسانوں اور عام لوگوں پر مشتمل ایک گوریلا فوج تھی‘ جس نے چیانگ کئی شیک کی حکومت کا خاتمہ کر کے کمیونسٹ حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ ہمارے ہاں اسلام آباد کی طرف اب تک نو ”لانگ مارچ‘‘ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے سات تو مذہبی‘ سیاسی جماعتوں نے کئے اور دو بڑی سیاسی جماعتوں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کے خلاف۔ ان مارچوں کی وجہ سے کبھی بھی حکومت تبدیل نہیں ہوئی۔ مطالبات صرف دو مارچوں میں مان لئے گئے۔ میاں محمد نواز شریف کے 15 مارچ 2009 کے مارچ میں بہت جان تھی کہ گوجرانوالہ پہنچتے ہی محترم آصف علی زرداری صاحب نے ”آزاد عدلیہ‘‘ کو پھر سے آزاد کر دیا تھا۔ زیادہ تر مقصد پاور شو رہا ہے۔ یہ دکھانے کے لئے کہ ہمارے ساتھ کتنے لوگ ہیں اور یہ کہ ان ”لاکھوں‘‘ لوگوں کو اسلام آباد میں لا کر حکومت کو مفلوج کر دیں گے۔ ابھی کسی بھی ”لانگ مارچ‘‘ کا ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ حکومتوں کو گرانے کے لئے لانگ مارچز کا سہارا لوگوں کو ابھارنے‘ تحریک میں دم خم ڈالنے ‘ گرم جوشی پیدا کرنے اور ولولہ اجاگر کرنے کے لئے لیا جاتا ہے۔ سوچیں اگر صرف 172 اراکین نے حکومت کی تقدیر بدلنی ہے تو پھر لانگ مارچ کیا تصور ہو سکتا ہے؟
لانگ مارچ تو صرف یہ دکھانے کے لئے ہے کہ عوام اب حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سب سیاسی کھلاڑیوں کو معلوم ہے کہ سیاسی گھوڑے خریدے بغیر کام نہیں بنے گا۔ معاملہ چھانگا مانگا اور مری سے شروع ہوا تھا‘ جہاں دو حریف جماعتوں نے اپنے اپنے اراکین اسمبلی کو سخت پہرے میں رکھا ہوا تھا کہ کہیں کوئی لالچ کا شکار نہ ہو جائے۔ اگر وفاداریوں پر کچھ اعتماد ہوتا تو ایسا جبر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ دونوں نے منڈی لگائی ہوئی تھی اور ایک دوسرے کے خلاف الزام وہی تھے‘ جو اب ہیں کہ اراکین کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ یہ ان جمہوریتوں میں ہوا جن کی مثالیں ہمارے اکابرین دیتے ہوئے تھکتے نہیں۔ آخر ان دونوں نے اپنی ہی ‘حکومت گرائو مہموں‘ سے کچھ سیکھتے ہوئے اٹھارہویں ترمیم کے وقت آئین میں ڈال دیا کہ تین موقعوں پر اراکین اسمبلی اپنا ووٹ پارٹی کے سربراہ کی ہدایت پر ڈالنے کے پابند ہیں‘ جن میں عدم اعتماد کی تحریک بھی شامل ہے۔ اس ہدایت سے روگردانی کرنے والے کے لئے سزا تھی۔ اب جو باتیں ہو رہی ہیں‘ اُس وقت کی منشا اور آئینی ضابطوں کے بالکل بر عکس ہیں۔ بہر حال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جب تک عددی اکثریت نہیں ملتی اس وقت تک لاکھ لانگ مارچ کر لیں‘ حکومت تبدیل نہیں ہو گی۔ اس وقت تک بات صرف مداری والی ہے کہ ”پیسہ پھینک‘ تماشا دیکھ‘‘۔
خرید و فروخت کی منڈی ایک اور جگہ بھی لگتی ہے کہ بیانیے اور اپنے زور پر لوگوں کو یقین کیسے دلانا ہے۔ موجودہ دور کی سیاست ابلاغ کی سیاست ہے‘ اور ابلاغ اب سب جمہوری دنیا میں ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر ابھرا ہے۔ ہمیں تو بالکل معلوم نہیں کہ وہاں کون کہاں سے‘ کیا کچھ لیتا ہے‘ مگر ایسے خواہ مخواہ کے الزامات ہماری سیاست کے ساتھ سائے کی طرح چلتے ہیں۔ ایک بات جو اندھوں کو بھی نظر آتی ہے‘ یہ ہے کہ جب کوئی میڈیا پر بات کرتا ہے تو جانب داری کھل کر سامنے ہوتی ہے۔ ویسے خان صاحب نے غیر جانب داری کے بارے میں جو بات کی ہے‘ اس کے پیشِ نظر تو ہم سب کو جانب دار ہی ہونا چاہئے‘ مگر پیشے کے اپنے اخلاقی تقاضے تو ضرور ہیں۔ آخر میں ایک اور گُر کی بات کرنا لازم ہے کہ گٹھ جوڑ حکمران طبقات میں کیسے پیدا کیا جائے‘ محلاتی سازش کا سر چشمہ کہاں ہو اور کون سب عناصر کو ترتیب میں ڈال کر تبدیلی کا محلول تیار کرے‘ اگر حکمرانی کا فن ہم نہ سیکھ سکے حکومتوں کو گرانے کی مہارت تو ہمیں حاصل ہے کہ ایسا ہم اپنے ملک کی مختصر سی تاریخ میں کئی بار کر چکے ہیں‘ عوام بے فکر ہو کر اپنے مسائل کا حل خود تلاش کر لیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر