رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے سب باتیں ایک طرف رکھ کر یہ سوچیں کہ تین سال پہلے تک جو پارٹیاں اور لیڈرز منہ چھپاتے پھرتے تھے وہ آج عمران خان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ ماحول بن چکا۔ جو اندرونی حالات جانتے ہیں وہ دعوی کرتے ہیں کہ عمران خان حکومت شدید خطرے کا سامنا کررہی ہے۔
جو بندہ نیب کی کسٹڈی میں رہا وہ اب وزیراعظم کا امیدوار بتایا جارہا ہے جبکہ ان کے بیٹے حمزہ شہباز سے سوال کیا جارہا تھا کیا وہ اگلے انتخابات میں پنجاب کے وزیراعلی ہوں گے اور وہ پارٹی کے لیے خدمات گنوا رہے تھے کہ وہ کتنا عرصہ جیل میں رہے۔
جو چند ماہ پہلے تک اربوں روپوں کے سکینڈلز اور منی لانڈرنگ میں مطلوب تھے یا جیل میں تھے وہ اب اس ملک کے حکمران بننے والے ہیں۔ وہ آصف علی زرداری جو چند ماہ پہلے تک اپنی بہن فریال تالپور، فرنٹ مین انور مجید ساتھ چالیس ارب روپے کے فیک اکاونٹس سکینڈل میں جیل میں تھے وہ آج عمران خان کی حکومت گرانے کے تقریبا قریب پہنچ گئے ہیں۔
اب یہ کس کا قصور ہے؟
انسانی مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ مانتے آپ بھی نہیں اور مانتا میں بھی نہیں۔ سب خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ ہم تو غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ کوئی دوسرا کرے گا۔ عمران خان سے پوچھیں تو وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوں گے کہ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے جس کی وجہ سے آج تین سالوں میں زرداری اور شریف اور مولانا فضل الرحمن اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ وہ خان کی حکومت گرا سکیں۔
خان صاحب بارے میں بار بار کہتا آیا ہوں کہ ان کی طرز حکومت اور چند غیرضروری لڑائیوں کی وجہ سے جو لیڈرز اور پارٹیاں تیس سال کھڑی نہیں ہوسکتی تھیں وہ تیس ماہ میں کھڑی ہو گئی تھیں۔ یہی نواز لیگ جو نواز شریف کے لندن سے واپس آکر جیل جانے کے خلاف لاہور میں چند سو بندے اکھٹے نہ کرسکی تھی کہ ائرپورٹ تک پہنچ پاتے آج وہ لانگ مارچ کرنے اسلام آباد آرہی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کا پنجاب سے صفایا ہوگیا تھا وہ اب بلاول بھٹو کی قیادت میں سندھ سے پنجاب ہوکر اسلام آباد تک مارچ کر چکی ہے۔
تو خرابی کہاں ہے؟ کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ خرابی عوام میں ہے جو ان کرپٹ لیڈروں کے جال میں ہر دفعہ پھنس جاتی ہے اور اسے عمران خان جیسا لیڈر تین سال بھی ہضم نہیں ہوتا۔ لہذا وہ پرانے شکاریوں کے نئے جال میں پھنس جاتی ہے ۔ کہنے کو تو کہا جاسکتا ہے خان صاحب کو اچھی پارلیمنٹ نہیں ملی، اچھی اپوزیشن نہیں ملی، اچھی عدلیہ نہیں ملی، اچھا میڈیا نہیں ملا، اچھی ایف آئی اے یا اچھا نیب نہیں ملا۔ اچھے اتحادی نہ ملے۔ سب کچھ تو خراب ملا۔
سوال یہ ہے اگر سب کچھ اچھا ہوتا تو خان صاحب کو کس نے اقتدار میں لانا تھا؟ خان صاحب تو ان سب کے شکرگزار ہوتے کہ انہوں نے ملک کو اس تباہی کے دہانے تک پہنچایا کہ لوگوں نے اسے کندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم بنا دیا کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ لیکن خان صاحب نے ساڑھے تین سال اسی بحث میں گزارے کہ پچھلے برباد کر گئے تھے۔ جتنی شکایتیں انہیں ان ساڑھے تین برسوں میں رہی ہیں شاید ہی کسی وزیراعظم نے کی ہوں۔ شاید یہ ماوزے تنگ کا قول ہے کہ جتنا بڑا بحران ہوگا اتنا بڑا موقع لیڈرشپ کے لیے ہوگا کہ وہ اس بحران کا مقابلہ کر کے خود کو بڑا لیڈر ثابت کرے۔ یہاں چھوٹے سے چھوٹے بحران پر بھی ہاتھ پائوں پھول جاتے تھے اور فورا طاقت ور دوستوں کو فون کہ فلاں صحافی کو سیدھا کر دو، فلاں چینل کو سبق سکھا دو، فلاں کو بند کر دو، فلاں پر مقدمہ بنا دو۔
جو مسائل عمران خان کو خود حل کرنے تھے تاکہ سیاسی عمل کو وہ خود اپنے ہاتھ میں رکھتے وہ انہوں نے اپنے غیر منتخب لوگوں سے کرانے کا رواج ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج جب وہ سیاسی بحران کا شکار ہیں تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اب ان معاملات کو سیاسی طور پر کیسے ہینڈل کریں ۔
عمران خان نے جو ٹیم سلکیشن میں غلطیاں کی ہیں ان کا خیمازہ قوم نے بھگتا سو بھگتا لیکن وہ اب خود بھی بھگت رہے ہیں ۔ عمران خان کے ایک بہت قریبی وزیر نے مجھے خود بتایا خان صاحب ایک بات بھول گئے کہ کرکٹ کی دنیا میں وہ کامیاب رہے کیونکہ وہ بہترین کھلاڑی چن کر ٹیم میں لاتے جو ڈیلیور کرتے۔ لیکن وزیراعظم بن کر انہوں نے اس فارمولے سے انحراف کیا جس کا نتیجہ وہ بھگت رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا اب عمران خان کمزور لوگوں کو آگے لائے ہیں۔ پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختون خواہ میں محمود خان کو سامنے لانا ان کے اندر کے خوف کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ تگڑے وزیراعلی سے ڈرتے تھے۔ انہیں کٹھ پتلی وزیراعلی چاہیے تھا جس میں خود سے سوچنے سمجھنے کی کوئی صلاحیت نہ ہو۔ ایسا بندہ جو روز صبح اٹھ کر واٹس ایپ چیک کرے کہ آج بنی گالہ سے کیا میسج آیا ہے اور اس نے آج سارا دن کیا کرنا ہے۔ عمران خان بھول گئے کہ پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور جو پنجاب میں ڈلیور کرتا ہے وہی اسلام آباد حکومت بناتا ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف نے دس سال جس طرح حکومت کی تھی اس کے بعد بزدار کا وزیراعلی بننا ایسا سیاسی جوا تھا جو عمران خان نے جان بوجھ کر کھیلا اور اس کا نتیجہ وہی نکلا کہ شہباز شریف دوبارہ ابھرے۔ پنجاب میں پانچ چھ حکومتیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ روز ٹرانسفر پوسٹنگ۔ لہذا کسی بیوروکریٹ کو کچھ پتہ نہ تھا اس نے کس کی بات ماننی ہے۔ تین تین ماہ کی پوسٹنگ کا کلچر معتارف ہوا اور الزامات سامنے آنے لگے کہ پنجاب میں ڈی سی اور ڈی پی او لگنے کا ریٹ لگ رہا تھا۔ یہ پہلی دفعہ پنجاب میں سنا تھا بیوروکریٹس پیسے دے کر عہدے لے رہے تھے۔ بلاول نے تو باقاعدہ خاتون اول اور ان کی دوستوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ کا الزام لگایا۔ گوجروانولہ کی گجر فیملی کی ماردھاڑ یا پاک پتن کے مانیکا کی وارداتیں کس سے چھپی ہوئی ہیں؟ پہلے یہ بات سرگوشیوں میں ہوتی تھیں، پھر ٹی وی شوز سے ہوتی جلسوں تک پہنچ گئیں۔
عمران خان کو سب نے کہا کہ پنجاب کو بہتر وزیراعلی دیں ورنہ شریف دوبارہ ابھریں گے۔ عمران خان نہیں مانے۔ عمران خان نے اگر شریفوں کا مکو ٹھپنا تھا تو پھر وہ بہادرانہ فیصلے کرتے۔ کوئی ایکٹو نوجوان وزیراعلی بناتے، اسے تمام اختیارات دیتے اور اچھے اچھے افسران چن کر لگاتے۔ پنجاب میں صرف ایک دفعہ ایسا محسوس ہوا تھا کہ وہ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں جب میجر اعظم سیلمان کو چیف سیکرٹری لگایا گیا جنہوں نے چند ماہ میں اچھے افسران لگا کر حالات کچھ بہتر کیے لیکن چند ماہ بعد انہیں ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ کھل کر سیاسی حکمرانوں کو پنجاب میں پیسہ نہیں کمانے دے رہے تھے۔ ناصر درانی ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ جب آپ خود پنجاب میں اچھے افسران اور اچھی بیوروکریسی نہیں چاہتے تھے تاکہ آپ کے لاڈلے مال کماتے رہیں تو پھر اب گلہ کس بات کا؟ آپ اپنی insecurity کا علاج نالائق لوگوں میں ڈھونڈتے رہے جنہوں نے کھل کر مال بنایا۔ یہی کچھ اسلام آباد میں ہوا جب انہوں نے خود اپنے دوستوں اور آے ٹی ایمز میں عہدے بانٹے۔ جو لندن ائرپورٹ پر آپ کو پک اینڈ ڈراپ سروس دیتے تھے انہیں پاکستان لا کر طاقتور وزارت دے دی ۔ پارلیمنٹ آپ نہیں جاتے تھے۔ میڈیا سے مسلسل لڑائی رہی۔ ہر قسمی کرپٹ کو پاور دی گئی اور جواز دیا گیا کہ مجبوری ہے۔اب وہ سب کرپٹ چھوڑ کر جارہے ہیں ۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان سب کو کسی کام پر لگانے یا انہیں کوئی نئی سمت دکھانے کی بجائے سوشل میڈیا پر گالی گلوچ پر لگا دیا گیا۔ جب عملی طور پر کچھ کرنے کا وقت تھا تو اس وقت وہ ایک ہی تقریر روزانہ بار بار کررہے تھے۔ جب کام کرنے کا وقت تھا تو آرام سے بیٹھے یاروں دوستوں ساتھ مزے ہورہے تھے اور اب جب اقتدار ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، خطرناک ہو جائیں کہ دنیا دیکھے گی۔
تونسہ کے عثمان بزدار ،گوجروانولہ کی گجر فیملی اور پاک پتن کے مانیکا کی خاطر سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ لوگوں کی بائیس برس کی جدوجہد، لوگوں کے تبدیلی کے خواب یہ تین خاندان بائیس ماہ میں کھا گئے۔
آج وہی شریف اور زرداری دوبارہ کھڑے ہوگئے ہیں جن سے چھٹکارا دلوانے کے لیے عمران خان ابھرا تھا۔ اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں ماننے کو عمران خان نہ کل تیار تھا نہ آج ہے۔
جون ایلیا یاد آئے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر