مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تونسہ کا لوک گیت: سمی میری وار، میں واری||ڈاکٹر عبدالواحد

عجب کہانی ہے کہ سمی آج قحط و خوشحالی تنگی و فروانی اور تونسہ و پورے وسیب میں بڑے شوق سے گائی اور سنی جاتی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ سمی اور راول بلوچ کی محبت کو صدیاں بیت گئی ہیں مگر ان صدیوں کا سفر آج کی جدید دنیا میں ہر نوجوان کے موبائل میں ان دونوں کی بے لوث محبت کی داستان کو نئی روح اور ان کی روحوں کو ابدی سکون دیتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالواحد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوک ادب، داستان اور گیت کی تاریخ انسان کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ جب کسی ماں نے پہلی بار اپنے بچے کو سلانے کے لیے کچھ گا کر سنا یا جب کسی نے دل بہلانے اور لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی قصہ گڑھا تو لوک ادب کا آغاز ہوا۔ کچھ قصے کہانیاں گڑھی ہوئی ہیں مگر کچھ لوک داستانیں گزرے وقت کے احساسات، جذبات اور محبتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ اور اس وقت کے کرداروں اور ان کی آپ بیتیوں کو آنے والی نسلوں تک پہنچاتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک کردار سمی اور راول بلوچ کا بھی ہے جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے تو جب علاقے میں قحط سالی ہو جاتی تھی بارشیں اور اس کے نتیجے میں آنے والی رودکوہی نہیں آتی تھی تو لوگ رودکوہی کے نالوں کے کنارے بیٹھ کر سمی گاتے تھے۔

اور لوگوں کا یہ یقین تھا کہ جب وہ سمی گاتے ہیں تو رودکوہی اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ مسلمانوں کے معاشرے میں لوگوں کا یہ یقین تھا کہ سمی گانے سے بارش اور رودکوہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پھر ہمارے علاقے میں چشمہ رائٹ کینال بنک کا نہری نظام آیا تو لوگوں میں سمی اور سمی کا کردار اجنبی اجنبی سا ہونے لگا۔

پھر جب شفا اللہ روکھڑی نے سمی میری وار میں واری والا لوگ گیت گایا تو مجھے اس گیت میں اپنائیت اور تعلق کی مہک آنے لگی یہ اپنائیت کیوں نہ ہوتی کیوں کہ یہ لوک گیت اور داستان میری دھرتی ماں کے ایک عہد کی محبت و وفا کی داستان ہے۔ پھر پروفیسر محمد خان ملغانی صاحب کی منفرد تحریر ’لوک رس تونسہ‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تو پروفیسر صاحب نے یہ محبت نامہ مجھے ہدیہ کیا تو اس میں ایک حصہ سمی اور راول بلوچ پر بھی ہے۔

پھر بچپن میں ہم ایک گیت سنا کرتے تھے کہ آ راول بلوچ وے ساڈے بارے سوچ وے (اے راول بلوچ ہمارے بارے سوچ)۔ ان سب یادوں نے اس تحریر کو لکھنے پر مجبور کر دیا۔ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ سمی میری وار میں واری کو کسی شاعر سے منسوب نہیں کیا جاسکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وادی سنگھڑ کی تمام قوموں کا ایک اجتماعی کلام تھا جس کو اس وقت شاید لوگ لوک گیت کی بجائے مقدس کلام کے طور پر گاتے اور سناتے تھے۔ سمی اور اول کی محبت کی داستان اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ سمی اپنی سہیلیوں کے ساتھ وادی سنگھڑ پر پانی بھرنے آتی تھی سنگھڑ ایک خوبصورت برساتی نالہ تھا جس کے شمالی کنارے کے اوپر آج کی تحصیل تونسہ شریف آباد ہے۔

سمی تونسہ شریف کی رہنے والی خاتون تھی جس طرح سے پہلے ادوار میں خواتین ندی نالوں سے پانی بھرنے کے لیے شام کے وقت یا صبح کے وقت آیا کرتی تھیں۔ سمی بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسی ندی سے پانی بھرنے آیا کرتی تھی۔ راول کوہ سلیمان کا بلوچ نوجوان تھا جو اونٹوں کے اوپر سامان لاد کر تونسہ شریف کی منڈی میں خرید و فروخت کرنے آتا تھا ایک شام اس کی نگاہیں سمی کے اوپر پڑی تو وہ اس کا گرویدہ ہو گیا کچھ دن اسی طرح تونسہ شریف کے چکر لگاتا رہا کچھ دنوں کے بعد وہ سمی کو اپنے ساتھ کوہ سلیمان لے گیا۔

کوہ سلیمان کیوں کہ قبائلی علاقہ ہے وہاں کی رسم و رواج اور قبائلی اقدار بہت سخت ہیں راول کے گھر والوں نے اس کے اوپر زور دیا کہ وہ سمی کو دوبارہ تونسہ شریف چھوڑ کر آئے۔ راول کیونکہ قبائلی نوجوان تھا مگر سمی ایک ہندو لڑکی تھی ایک وجہ یہ بھی تھی سمی کو نہ اپنانے کی۔ اپنے ماں باپ اور قبیلے والوں کے اسرار کرنے پر راول سمی کو دوبارہ تونسہ شریف تو چھوڑ کر آیا مگر ساتھ ہی وہ کوہ سلیمان کو بھی چھوڑ کر تونسہ کی گلیوں کا مجنوں بن گیا۔

سمی کی شادی دوسری جگہ ہوئی مگر سمی راول بلوچ کے غم میں اور راول بلوچ سمی کی محبت میں اس دنیا میں زیادہ نہ رہ سکے مگر ابدی زندگی میں دونوں کی قبریں تونسہ کے قریب ایک گاؤں جہاں سمی کی شادی ہوئی تھی ایک ساتھ ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد کوہ سلیمان اور وادی سنگھڑ میں قحط سالی شروع ہو گئی تو لوگوں میں یہ چہ مگوئیاں شروع ہونے لگ گئیں کہ یہ قحط سالی شاید سمی اور راول بلوچ کی وجہ سے ہے کیونکہ اس وقت تونسہ شریف اور اس کے گردونواح میں جو خاندان آباد تھے ان میں اکثریت ہندو خاندان کی تھی تو انہوں نے سمی اور راول بلوچ کی بھجن بجانے اور گانے گانے لگے خدا کی کرنی ہوئی کہ اس کی وجہ سے بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور سنگھڑ ندی دوبارہ آبادی ہو گئی۔ اگر اپ ان شبدوں پر توجہ دیں کہ

سمی میری وار، میں واری (سمی اب میری باری ہے، میں واری جاؤں ) ، میں واری آں نی سمیے (میں جان قربان کرتی ہوں، او سمی) ۔

پھر سمی صرف ایک لوک داستان یا لوک گیت نہیں بلکہ مقدس کلام کی شکل اختیار کر گیا۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے قبل تک یہ سمی گایا جاتا تھا اور اس مقصد کے لئے گایا جاتا تھا کہ بارشیں اور سبزہ ہو اور سنگھڑ باسی خوشحال ہوں۔ جب خواجہ شاہ سلیمان تونسوی علیہم الرحمہ سنگھڑ ندی کے کنارے آباد ہوئے تو اس جگہ پانی کی بہت قلت تھی اس وجہ سے اسے تس والا یعنی پیاسی جگہ کہا جاتا تھا تو یہاں کی خواتین خواجہ شاہ سلمان کے پاس آئیں کہ قحط سالی ہے اپ اللہ کے ولی ہیں دعا کریں کہ قحط سالی دور ہو تو انہوں نے پوچھا کہ اس سے پہلے اپ لوگ کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم سمی گاتے تھیں تو انہوں کہا میں بھی دعا کرتا ہوں مگر اپ بھی سمی گائیں۔

عجب کہانی ہے کہ سمی آج قحط و خوشحالی تنگی و فروانی اور تونسہ و پورے وسیب میں بڑے شوق سے گائی اور سنی جاتی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ سمی اور راول بلوچ کی محبت کو صدیاں بیت گئی ہیں مگر ان صدیوں کا سفر آج کی جدید دنیا میں ہر نوجوان کے موبائل میں ان دونوں کی بے لوث محبت کی داستان کو نئی روح اور ان کی روحوں کو ابدی سکون دیتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالواحد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: