رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی کے ایک محترم وزیر اعظم بڑے عوامی جلسوں میں گرج کر کہتے تھے ”میں بحرانوں کا آدمی ہوں!‘‘۔ خدا انہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے‘ ساری سیاسی زندگی بحرانوں میں ہی گزار دی۔ ملک اور عوام کا جو حشر ہوا‘ اس کو اب کتنی دفعہ بیان کریں۔ سیاست دان‘ اگر وہ واقعی سیاسی فہم و شعور کی دولت سے مالا مال ہے‘ تو معاملات کو سلجھاتا ہے‘ خواہ مخواہ الجھتا نہیں‘ لڑتا اور بگڑتا نہیں۔ میرے نزدیک سیاست دان اور سیاست باز میںبڑا فرق ہے۔ چونکہ ہم عزت و اکرام کرنے والے بندے ہیں‘ اس لئے جو بھی اپنے آپ کو سیاست دان کہتا‘ سمجھتا اور بلواتا ہے‘ ہم اسے ایسے ہی بلا چون و چرا مان لیتے ہیں‘ مگر ساتھ گزارش بھی ہے کہ اپنے مقام اور ذمہ داری کو بھی ذرا پہچانیں۔ آج کل جو ملک میں بحران کی کیفیت ہے‘ یہ عوام نے یا ہم نے پیدا نہیں کی۔ یہ ہمارے معزز سیاسی خاندانوں اور رہنمائوں کی اقتدار کی جنگ اور سیاسی کھیل تماشا ہے۔ نتائج عوام بھگتیں گے۔ کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں‘ اپنی ہی تاریخ کے دریچوں میں ذرا جھانک کر دیکھ لیں کہ ”ہم نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی سیاست نے ملک کی معیشت‘ سماجی نظم اور سیاسی استحکام کا کیا حشر کر ڈالا۔ ایوب خان کے ساتھ گول میز کانفرنس میں مسائل کا حل موجود تھا۔ وہ عندیہ دے چکے تھے کہ آئندہ کے انتخابات اور سیاست سے باہر ہوں گے۔ کس سیاست دان کو معلوم نہیں تھا۔صرف ایک دو ہی سیاسی بحران پیدا کر کے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے‘ اور پھر دیکھا کہ وہ بحران ملک کو کہاں سے کہاں لے گیا۔ بحران پیدا کرنے والے چاہتے ہی یہ کچھ تھے۔ نظر ان واقعات کی طرف جاتی ہے تو دل رنجیدہ ہو جاتا ہے‘ اور ان سب لوگوں کا جو اس دھرتی سے پیار کرتے ہیں۔
کس سے فریاد کریں اور کس سے یہ سوال کریں کہ ڈیڑھ سال بعد جب انتخابات ہونے ہیں تو اس وقت حکومت تبدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کوئی جواب ہے کہ ”عدم اعتماد ہمارا جمہوری حق ہے‘‘۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ آپ کا حق ہے۔ بالکل‘ آپ اگر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے آئین کی رو سے بالکل قانونی راستہ ہے‘ مگر آپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ جمہوریت‘ معاشی استحکام‘ بے روزگاری اور مہنگائی ‘ آپ جو بھی وجہ بتائیں‘ مقصد آپ کا کوئی راز نہیں رہا‘ اور نہ تھا‘ اور نہ بنتی بگڑتی تاریخ کے صفحوں سے کبھی مٹ سکے گا۔ وہ ہے‘ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا۔ آئینی طور پر عدم اعتماد بالکل جائز طریقہ ہے‘ خوشی سے اپنی قسمت آزمائیں‘ ہو سکتا ہے آپ کامیاب بھی ہو جائیں‘ مگر سوچیں عدم اعتماد‘ جو پہلے بھی سیاسی جماعتوں میں موجود ہے‘ اور عوام اور سیاسی نظام کے درمیان بھی اپنا رنگ دکھا رہا ہے‘ مزید بڑھا تو کیا رنگ لائے گا۔ عدم اعتماد کی باتیں‘ محلاتی سازشیں‘ اراکین کی خرید و فروخت کی منڈی‘ یہ سب پہلے ہی ملک میں عدم استحکام پیدا کر چکی ہیں۔ تاریخ میں دیکھتا ہوں تو کئی باتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اپنے ہی ملک کی سیاسی تاریخ کی بات کر رہا ہوں۔ ہمیشہ سیاسی بحران جب پیدا کر دیا جاتا ہے تو اس کی شکل ہر آنے والے دن کے ساتھ بدلتی رہتی ہے‘ اور پھر ایک بحران سے کئی اور بحران جنم لیتے ہیں‘ اور اگر بحران سیاسی قیادت اور سیاسی طاقتیں خود اپنی مرضی سے پیدا کریں کہ انہیں کچھ سیاسی فائدے سامنے نظر آتے ہیں تو بحران کو حل کرنے کی ان کی استعداد رہتی ہی نہیں۔ ہمارے سیاسی ادارے… پارلیمان‘ سیاسی جماعتیں‘ انتخابی عمل اور ریاستی ڈھانچہ… سب زوال پذیر اور کمزور ہو چکے ہیں۔ ان میں کبھی بحرانوں کو حل کرنے کی سکت نہیں تھی‘ اب تو بالکل ہی نہیں۔ ماضی میں جو بحرانوں کو انجام ہوا‘ خدا کرے اب ویسا نہ ہو‘ مگر کبھی ایسا ہمارے ہاں ہوا نہیں کہ روم جلتا رہے اور نیرو بانسری بجاتا رہے۔ بحران پیدا کرنے کی دانائی اس سے زیادہ مجھے تو سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک شخص درخت کی جس ٹہنی پہ بیٹھا ہو‘ اسے ہی کاٹ رہا ہو۔
ذرا اوپر ذکر کیا تھا کہ ایک بحران سے کئی بحران پیدا ہوتے ہیںاور یہ گتھی ایسی الجھتی ہے کہ سب تر دماغ اکٹھے کر لیں‘ پھر بھی اسے سلجھا نہیں سکتے۔ ہمارے ہاں ماضی میں ہمیشہ تصادم حکومتِ وقت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں ہوا۔ ہر واقعے کو ذہن میں گھما کر دیکھیں یا کئی کتابوں اور مقالوں کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو مرکزی محرکات یکساں نظر آتے ہیں ”ہم نہیں تو تم بھی نہیں‘‘۔ پاکستان‘ بحران سے بحران تک کے موضوع پر کئی تحریریں آپ دیکھ سکتے ہیں‘ بلکہ اس پر ایک امریکی سکالر ہربرٹ فیلڈمین (Herbert Feldman) کی پچاس سال قبل لکھی گئی مشہور کتاب آج بھی پاکستانی سیاست کے طالب علم پڑھتے ہیں۔ بات ہمیشہ یہاں سے چلی کہ ہم حکومت کو نہیں مانتے‘ نہ اس کی آئینی جائزیت کو تسلیم کرتے ہیں‘ یا یہ کہ حکومت آمرانہ ہے‘ جمہوری نہیں۔ بالکل ایسا ماضی میں رہا ہے اور جمہوریت اور آئینی حکومت قائم کرنے کے لئے سب سیاسی تحریکیں جائز تھیں‘ مگر میں تو اس طوفان کی بات کر رہا ہوں کہ جب آیا تو ہماری کشتی کم از کم اس ٹھکانے تو نہ لگی‘ جہاں ہم اسے لے جانا چاہتے تھے۔ بات پھر دہرانے کی اجازت چاہتا ہوں کہ بحران پیدا ہو تو سیاسی طاقتوں اور اداروں میں اتنی جان ہو کہ اسے قابو میں رکھ سکیں‘ اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے حل کر لیں۔ عملی طور پر جو کچھ ہوا‘ بالکل الٹ ہی ہوا۔ تصادم اور تنائو نے سیاسی کشیدگی‘ تلخیوں اور تشدد کی صورتیں اختیار کیں تو امنِ عامہ تباہ ہوا‘ گھیرائو‘ جلائو اور پکڑو مارو‘ سیاسی گلیوں سے نکل کر عوامی میدانوں تک پھیل گیا اور نظام سر سے پائوں تک فالج کا شکار ہو گیا۔
آج کل ہم ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہونے جا رہے ہیں۔ جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی باوردی تنظیم انصار الاسلام نے پارلیمانی لاجز میں کچھ دن پہلے کیا وہ آپ ٹریلر ہی سمجھ لیں۔ عدم اعتماد کی فضا کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کے خدشات آپ کے سامنے ہیں۔ بات اب صرف پارلیمان تک نہیں رہے گی۔ دوسروں نے کئی لانگ مارچ کئے‘ دھرنے دیئے اور سڑکیں بند کیں‘ تو جواباً کپتان بھی وہی کرنے لگے ہیں۔ اعلان ہے کہ عدم استحکام کے ووٹ کے دن وہ اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کریں گے۔ اتنا بڑا ہوتا ہے یا نہیں‘ وہ بھی کسی کو چین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔ یہ دھمکی ایک اور نوجوان سیاست دان انہیں دے چکا ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ عدم استحکام کی تحریک کامیاب ہو جائے اور ہمارے محترم قبلہ ڈیرے والے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ بحران رکے گا نہیں۔ قبلہ محترم‘ لاڑکانہ اور لاہور والے اقتدار میں تو کپتان سڑکوں پہ ہو گا۔ عدد تو یہی بتاتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ اگر انہیں حرکتوں سے جو دو بڑی خاندانی جماعتوں نے ایک دوسرے کو اقتدار سے نکالنے کے لئے بیس سال پہلے کیں‘ اور وہی تجربہ کاری کپتان پر آزماتے ہیں تو بحران ختم نہیں ہو گا‘ بگڑے گا اور اس میں شدت آئے گی۔ بڑی جماعتوں والے گھر جا کر سو تو نہیں جائیں گے۔ تاریخ سے کچھ سیکھ سکتے۔ وہ اہلیت ہی نہیں تو ہماری گزارشات کا کیا فائدہ؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر