ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپس مٹھی کی جانب چل پڑے اور کئی کلومیڑز کے بعد سڑک کے دوسری طرف پھر سے ایک پاکستانی سڑک پہ مڑ لیے۔ یہ راستہ ماروی جو کھوہ یعنی ماروی کے کنویں کی جانب جاتا تھا۔ ایک جگہ چہار دیواری کے نزدیک پہنچے۔ گاڑی جا کے دروازے سے ادھر روک دی گئی۔ دروازے کے مخالف راستے کے اس پار کوئی پچیس قدم دور بنے ایک دیہاتی ڈھابے سے ایک نوجوان کار دیکھتے ہی چل پڑا تھا، جونہی ہم اترے اس نے چائے، بوتلوں کی پیشکش کی۔
ہم دروازے سے اندر داخل ہو گئے۔ سامنے ایک کنواں تھا جس کے ایک جانب ایک آدمی بوکے سے کنویں کا پانی نکال کر لیے کھڑا ہولے ہولے بہا رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی کہا، پانی چیک کریں سائیں۔ میں نے انکار کر دیا۔ ایک راہداری جس کے اطراف میں درختوں والے خالی قطعے تھے اور راہداری کے پہلووں پر سبز بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اندر کی طرف جاتی تھی۔ باہر ہی سے دیوار کے پیچھے اندر بنے بڑے بڑے اور اونچے چونہرا دکھائی دیتے تھے۔
راہداری ایک جگہ ایک کمرے پہ ختم ہوئی۔ کمرہ پختہ تھا جس پر باہر کی جانب چونہرا کا ڈیزائن بنایا گیا تھا مگر اندر عام لینٹل والی چھت تھی البتہ کمرہ ٹھنڈا تھا۔ ایک جانب کرسی پر شہزادہ عمر سومرو کا مجسمہ پاوں لٹکائے بیٹھا تھا دوسری طرف ماروی ایک سہیلی کے ہمراہ زمیں پر بیٹھی تھی، یعنی دونوں مجسموں کی صورت ۔ لوگ پہلے ہی ان کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے، جب وہ نکل گئے تو میں نے بھی باری باری ان دونوں مجسموں کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔
اطراف میں دو اور کمرے تھے جو اگر باہر دوری سے دیکھے جائیں تو چونہرا ہی دکھائی دیں گے مگر اندر سے وہ عام جدید کمرے ہیں جن میں ایک پرانے برتنوں اور دوسرا سندھی ہینڈی کرافٹس سے سجایا ہوا ہے۔ ہم برآمدہ عبور کرکے آئے تو عابد چنا صاحب پھسکڑا مار کے گانے والی منڈلی کے ساتھ بیٹھ گئے اور مجھے بھی بیٹھ جانے کو کہا۔ میں اپنے مشکل سے اتارے جانے والے بوٹ نہیں اتار سکتا تھا۔ ان کے ساتھ ہی دری پر بیٹھ گیا۔ یہ وہ چونہرا تھا جس میں عابد صاحب مجھے بٹھانا چاہتے تھے مگر میں اس سے باہر ہی رہا اس لیے اندازہ نہیں کر سکا کہ وہ اندر سے خنک ہے یا موسم کی طرح نیم گرم۔
سامنے ہی مجھے روہیڑا کا درخت نظر آیا جس پہ نارنجی پھول تھے۔ عابد چنا صاحب نے بتایا تھا کہ روہیڑا کے پھول کسی درخت پر نارنجی تو کسی پر سرخ ہوتے ہیں۔ یہ درخت چالیس سال میں پل کر بڑا ہوتا ہے جب اس کی لکڑی بہت مضبوط اور کارآمد ہوتی ہے۔ یہ درخت کاٹنا انگریز کے دور سے ہی منع ہے مگر لوگ دروازے کھڑکیاں بنوانے کے لیے کاٹ ہی لیتے ہیں۔ اس کے پھول بہت حد تک گڑھل کے پھولوں سے مشابہ ہیں لیکن گڑھل کا پودا ہوتا ہے اور یہ قامت اور موٹائی میں درخت۔ میں نے اس درخت تلے کھڑے ہو کر تصویر بنوائی اگرچہ سامنے سورج کی وجہ سے میری آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔
اب ہمارا شہر سے باہر کا دورہ تمام ہو گیا تھا اور ہمیں سلام کوٹ جانا تھا۔ سلام کوٹ میں سنت آنند آشرم ہے جو عابد چنا صاحب مجھے دکھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس آشرم میں روزانہ دس من اجناس پرندوں کو ڈالی جاتی ہیں۔
میں چونکہ ماسکو میں بچوں کو بتا چکا تھا کہ میں ایسی جگہ جا رہا ہوں جہاں مور آزاد گھومتے ہیں۔ میں انہیں ان موروں کی وڈیو دکھانا چاہتا تھا۔ اگرچہ آشرم میں پرندے بہت تھے مگر کوے کبوتروں کے علاوہ مور کہیں نہیں تھے۔ عابد صاحب کے استفسار پر بتایا گیا کہ وہ گرمی کی وجہ سےدرختوں میں چھپے ہونگے۔ اب بھلا انہیں کون ڈھونڈتا۔
اس وسیع و عریض آشرم میں ایک ستونوں پر کھڑی کی گئی چھت کے تلے بہت سے چولہوں پر بہت سی بڑی بڑی دیگچیاں پڑی تھیں جو وہاں دیگ کہلاتی ہونگی۔ ان سے کھانا نکال نکال کر اس کے سامنے بنے وسیع اور اونچی چھت والے شید کے نیچے سیمنٹ کے فرش پر بے ترتیب بیٹھے لوگوں کو کھلایا جا ریا تھا۔
باہر نکلنے لگے تو کچھ راجستھانی عورتیں آ رہی تھیں جنہوں نے پہنچہ سے شانہ تک پلاسٹک کے چوڑے چڑھائے ہوئے تھے۔ اس بارے میں عابد صاحب نے بتایا کہ اگر چوڑے شانے تک ہوں تو وہ کنواری ہوگی اور اگر کہنی تک ہوں تو بیاہتا۔ اگر چوڑے محض کلائی میں ہوں تو وہ ودھوا۔
باہر کار میں ڈرائیور انتظار کر رہا تھا۔ سامنے کے احاطے میں بہت زیادہ گائیں، کچھ بکریاں اور چند اونٹ اکٹھے تھے۔ آشرم ان مویشیوں کو بھی دن بھر مفت چارہ دان کرتا ہے۔ انسانوں ، پرندوں اور مویشیوں کے لیے رزق عشروں سے فراہم کیا جا رہا ہے۔ اب میں نے ڈرائیور کے ساتھ نشست سنبھال لی کیونکہ مجھے گرمی لگنے لگی تھی اور عقبی نشست دیر کے بعد ٹھنڈی ہوتی۔ بکتے ہوئے بیروں کو دیکھ کے میں نے بیروں کا تقاضہ کر دیا۔ مہربان عابد کار سے اتر کر بیر خرید لائے۔ میں نے کہا کہیں بیٹھ کر کھائیں گے۔ تقاضہ تو میں نے رات سے کوئی میٹھی چیز کھلائے جانے کا بھی کیا تھا چونکہ عابد صاحب کو ذیا بیطس لاحق ہے اور ظفر کو لاحق ہونے کا خدشہ، چنانچہ عابد صاحب نے رات آئس کریم کھلانے کا وعدہ کیا تھا جو ہم دونوں بھول چکے تھے۔
دوپہر کا کھانا اکاونٹنٹ ٓنند لال کے ہاں تھا۔ عابد صاحب نے تو مجھے روایتی کھانے کھلانے کی ہامی بھری تھی مگر وہاں وہی گوشت چاول وغیرہ تھے۔ بھوک لگی ہوئی تھی میں تو ٹوٹ پڑا۔ کھانے کے بعد پھل لائے گئے، وہ بھی کھائے۔ ظفر نے طے کیا ہوا تھا کہ چار بجے بہرحال واپسی کے لیے نکلنا ہے لیکن مجھے راستے میں سٹور دکھائی دیا تو میں نے پھر آئس کریم خریدنے کی بپتا ڈال دی۔ عباس فقیر کار سے اتر کر تین مینگو آئس کریم کی ڈبیاں خرید لایا۔ ہم پھر سے عباس فقیر کی بیٹحک میں پہنچے جہاں میں نے بوٹ اتار دیے، پہلے عباس نے گیت سنایا پھر میں نے گلوکار اور دوستوں کی سمع خراشی کا جتن کیا مگر توقع کے خلاف انہیں میری گلوکاری پسند آئی اور عباس فقیر نے تکریم میں ستائش کر ڈالی۔
میری اولیں سابقہ اہلیہ ہوٹل کے بستر کی چادر دیکھ کر ڈبل بیڈ کی دو روایتی چادریں اور رلی لانے کی فرمائش کر چکی تھی۔ دکان عباس کے گھر کے پاس کہیں تھی۔ ہم عباس کو الوداع کہہ کر دکان پہ پہنچے تو دوکان بند تھی مگر عابد بھائی میزبانی میں پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے مالک کا در جا کھٹکھٹایا۔ وہ نکلا تو عابد صاحب نے کہا دکان کی چابی لے آو۔ وہ گھر سے چابی لے کے ہمیں دکان میں لے گیا جو ایرکنڈیشنر کی وجہ سے خنک تھی۔ لانے والا بتانے لگا کہ دکان میں چھوٹا بھائی کام کرتا ہے اور میں اسلام آباد میں سروس کرتا تھا اب چینیوں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔
اتنے میں اس کا بھائی آ گیا تو بڑا بھائی گھر چلا گیا۔ یہ نوجوان بہت اچھا سیلز مین تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم بلاک پرنٹنگ گھر میں کرواتے ہیں۔ لون کے سوٹوں پہ ہاتھ دھر کے بتایا کہ سبز رنگ نیم کے پتوں سے اور زرد ہلدی سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دوسرے رنگوں کے اجزاٗ بھی قدرتی ہیں مگر ہمیں تو چادریں لینی تھیں سو لیں۔ یہاں بھی عابد صاحب نے مجھے ادائیگی نہ کرنے دی۔
ہم عابد صاحب کی این جی او کےدفتر پہنچ گئے۔ آئس کریم اوردھلے ہوئے بیر آ گئے۔ عابد صاحب نے دونوں میرے ساتھکھائے مگر ظفر نے اجتناب کیا۔ اس دوران عابد صاحب مجھے اپنے استاد حمید اخترخان صاحب سے متعلق بتانے لگے۔ میں نے پھر تقاضا کیا کہ آپ نے کسی مقامی مٹھائی کا ذکر کیا تھا۔ لو جناب عابد صاحب نے وہ بھی منگوا لی۔ سوہن حلوہ ایسے مگر اس سے مختلف حلوہ سے، جس میں کشمش اور بادام تھے، کھانے سے ظفر گریز نہ کر سکے اگرچہ اس میں شکر آئس کریم کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھی، اس لیے کہ وہ لذیز بھی تھا اور ظفر کو پسند بھی۔
تھر سے متعلق قریب قریب تمام تقاضے پورے ہو گئے تھے مگر ابھی مور دیکھنے کا تجسس برقرار تھا۔ ڈرائیور امان اللہ نے بتایا تھا کہ دوسرے پٹرول پمپ پر مور ہوں گے۔۔ ہم پانچ بجے روانہ ہوئے جو ظفر کے متعینی وقت سے ایک گھنٹہ زیادہ تھا۔ دوسرے پمپ پہ جا کے گاڑی روکی، ظفر نے سامنے ٹیلے پر دیکھ کے کہا کہ ایک مور تو وہاں بیٹھا ہے۔ آپ اتر کے دیکھ لیں شاید اس طرف موجود ہوں۔ مور تو کہیں نہیں تھے البتہ پمپ کے احاطے کے اس جانب سے ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور آ کے ہاتھ پھیلا دیا۔ ظفر نے موروں کے متعلق پوچھا تو بولا، بھجی ویو یعنی بھاگ گئے ہیں۔ ظفر نے اسے کچھ پیسے دیے اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ اس سے اگلے پٹرول پمپ کے پاس واقعی کوئی دس مور تھے جن میں آٹھ سرمئی مور اور دو رنگین لمبی مگر کم گھنی دموں والی مورنیاں۔ ظفر نے کار کا دروازہ کھول کر موبائل فون سے وڈیو لینا شروع کی۔ میں نے کہا نکل کے آگے جا کے بناو۔ ظفر نے کہا کہ ڈر کے اڑ جائیں گے، مگر یہ کہہ کے نکل کے کھڑا ہوکے وڈیو بنانے لگا۔ میں دروازہ کھول کے موروں کے قریب چلا گیا۔ وہ ڈرے تو نہیں البتہ مورنیاں منہ موڑ کر دوسری جانب چلی گئیں جبکہ مور سڑک عبور کر گئے۔ پھر مورنیاں بھی ان کے تعاقب میں نکلیں۔ ایک گاڑی سے گھبرا کے ایک مورنی نے اڑان بھری جو وڈیو میں محفوظ ہو گئی۔ یوں یہ مقصد بھی پورا ہوا اور ہم واپسی کے سفر پر چل نکلے۔
ظفر نے اس بار میر پور خاص والا راستہ اختیار کیا تھا کیونکہ وہاں اسے اپنے ایک سکول کے ہم جماعت فضل حق چانڈیئو سے ملنا تھا جو وہاں ڈی ایس پی تھے، راستے بھر ظفر یہی کہتا رہا کہ رات کو مجھ سے گاڑی نہیں چلتی اگر ہم چار بجے نکل آتے تو ٹھیک ہوتا۔ خیر ان کے دوست سے مختصر ملاقات کی جنہوں نے وہاں کی سوغات پستہ حلوہ کا ایک ایک ڈبہ ہماری نظر کیا چونکہ میں ان سے پوچھ چکا تھا کہ میرپور خاص کی کیا شے مشہور ہے۔
ہمیں حیدرٓباد سے گذرنا تھا۔ یہ مناسب نہ ہوتا اگر میں اپنے دیرینہ دوست حسین سومرو کو بعد میں بتاتا کہ ہم تیرے پہلو سے گذر کے نکل گئے۔ میں نے اسے فون کرکے بتا دیا کہ ہم تیرے شہر سے گذر رہے ہیں۔ دیر ہونے کی وجہ سے ملاقات نہیں کر سکوں گا۔ بولا ٹھیک ہے لیکن اگر آ جاو تو چائے پی لیں گے۔ میں نے ظفر سے پوچھا تو انہوں نے لوکیشن بھیجنے کو کہا۔ سفر پھر بھی ۲۵ منٹ کا تھا۔ ایک بار پھر حسین نے کال کی اور کھانے سے متعلق پوچھا۔ میں نے کہا جو گھر میں ہوگا کھا لیں گے۔ جب اس کے پاس پہنچے تو گھر کی خواتین تکلف میں پڑ گئیں۔
میں نے حسین کو بتایا کہ تم تو لے نہیں گئے میں پھر بھی تھر ہو آیا ہوں۔ اس نے طنز کیا کہ تم تھر کو ہاتھ لگا کے آ گئے ہو۔ بارہ سوا بارہ بجے اسے خدا حافظ کہا اور کوئی سوا دو ، اڑھائی بجے صبح گھر پہنچا۔ میں نے بالٓاخر تھر دیکھ لیا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر