رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل ایسی سیاسی گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ ہمارا کمزور دل یہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ آخر لاغر‘ بیمار اور محترم بزرگ سیاست دان محفوظ گھروں کا آرام چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں جا کر ملاقاتوں میں کیونکر مصروف ہیں۔ شاید ان کی خوشی اسی میں ہے۔ ہماری بھی دعا ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں‘ صحت مند ہوں اور ان کا با برکت سایہ اس ملک پر ہمیشہ چھایا رہے۔ چونکہ یہ درویش خود تیزی سے‘ بلکہ تیز رفتاری سے زندگی کے مراحل طے کر رہا ہے تو اپنے آرام اور سکون کو باقی سب کاموں پر ترجیح دیتا ہے۔ کہنے کی ضرورت تو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسان راحت و اطمینان کے حصول کی تگ و دو میں اپنی زندگیاں برباد کر ڈالتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کام اور آرام میں توازن ہونا ضروری ہے‘ اور کام بھی صرف وہ کرنے چاہئیں جو ہماری طبیعت اور فطری رجحان کے مطابق ہوں۔ دوسرے کیا کرتے ہیں‘ کیا ہیں‘ اور کیا کچھ ان کے پاس ہے‘ اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ علم اور دانش کی دولت نصیبوں میں ہو تو توازن اور اطمینان کی جنت انسان ڈھونڈ ہی نکالتا ہے۔ بات صرف عقل اور آگاہی کی ہے۔ زندگی پھر ترتیب‘ نظم و ضبط اور زمینی حقائق کے ساتھ چلنے سے عبارت ہو جاتی ہے۔ اکثر اپنے معاشرے کی افراتفری‘ بے چینی‘ بے ہنگم بھاگ دوڑ پر بہت ترس آتا ہے۔ پتا نہیں سب کس کھوئی ہوئی شے کی تلاش میں سرگرداں ہیں‘ جو مل ہی نہیں رہی۔ ہر ایک کی دوڑ ضرور کسی مقصد کے حصول کے لئے ہے۔ آخر وہ کون سی خواہشات ہیں‘ جن کے ہم اسیر ہیں۔ آپ کو معلوم ہی تو ہے‘ کوئی راز کی بات نہیں۔ دولت‘ عزت‘ مقام‘ طاقت اور اقتدار کی ہوس کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔ معاملہ کچھ اور ہے‘ اور اتنا بھی پیچیدہ نہیں ہے۔
سب انسانوں کی نفسیاتی ضروریات ایک جیسی نہیں ہیں۔ ابراہام ماسلو نے 1943 میں ان ضروریات کی پانچ اقسام میں درجہ بندی کی۔ اصل بات وہ ہمارے محرکات کی کر رہا ہے۔ ان کا مختصر ذکر یوں ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی بقا کا بندوبست کرنا ہے‘ جس میں کھانا پینا‘ آرام اور مکان شامل ہیں۔ دوسری‘ ہمیں جان کی امان کی فکر ہوتی ہے کہ ہم تشدد‘ چوری چکاری سے محفوظ ہوں اور ہماری صحت اور جذباتی توازن بھی سلامت رہیں اور مالی طور پر ہم آسودہ ہوں۔ تیسری صف میں ہمارے سماجی امور ہیں‘ خوش گوار گھریلو زندگی‘ یار دوست‘ خاندان اور ہم کار۔ اگلے درجے کی اعلیٰ قدروں میں عزتِ نفس‘ خودی کی آبیاری اور خود اعتمادی شامل ہیں۔ سب سے اوپر انسان کی فطری صلاحیتوں کا اجاگر ہونا ہے کہ ہم زندگی میں جو بننا چاہتے تھے‘ وہ بن گئے ہیں۔ بحیثیت استاد میرا پہلا درس یہ رہا ہے کہ آپ وہ نہیں جو آپ کے اندر کی‘ آپ کے دل کی خواہش ہے۔ کسی کی پروا نہ کریں۔ آپ کا پیشہ آپ کا مشغلہ ہی ہو‘ ورنہ یہ ایک بوجھ ہو گا۔ ایک مالی‘ کسان‘ بھیڑ بکریاں چرانے والا چرواہا اور کشتی کا ملاح اگر اپنے کام سے خوش ہیں تو وہ خوش نصیب ہیں۔ رات کو آرام کی نیند مسابقت کی دوڑ سے باہر اطمینان کے خیمے میں ہی مل سکتی ہے۔ کروڑوں‘ اربوں‘ کھربوں یا ہزاروں ایکڑ زمین ہو‘ اور ہاں اقتدار کی پریاں بھی پر پھیلائے آپ پر مہربان رہیں‘ مگر سکون اور راحت صرف جسمانی ہو تو پھر ہم دعا ہی کر سکتے ہیں‘ جو میں نے کرنا شروع کر دی ہے۔ صد افسوس کہ سب کو پتا ہے کہ زندگی یہی سانسیں‘ دن مہینے اور سال ہیں‘ مگر آرام کی تلاش میں کیسی بے آرامی‘ بے سکونی میں برباد کر ڈالتے ہیں۔ زندگی گزارنا بھی ہنر ہے اور اس ہنر سے خالی وقت کے جنگلوں میں کھوئے‘ پریشان پریشان تہ خاک چلے جاتے ہیں۔
چلو ایک تاریخی کردار کی بات کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب اور تہذیب میں عقل و دانش مومن کی میراث ہیں‘ جہاں سے بھی ملیں‘ اچک کر اپنے دامنِ مراد میں سمیٹ لینے کی ہدایت ہے۔ یہ اٹھارہویں صدی کی بات ہے جب امریکہ کی تیرہ نوآباد ریاستوں نے 1776 میں برطانیہ کی حکومت کے خلاف اعلانِ بغاوت کرتے ہوئے آزادی کا مطالبہ کر دیا تھا۔ انگریزی بولنے والے‘ عیسائی‘ ایک ہی تہذیب کے رشتوں میں پروئے ہوئے‘ مگر اب امریکی تشخص ابھر کر آباد کاروں کو برطانیہ کے خلاف متحرک کر چکا تھا۔ آزادی کی خون ریز جنگ چھڑی تو دنیا کی سب سے طاقت ور ریاست کے خلاف لڑنے کے لئے سپہ سالار کی ذمہ داری جارج واشنگٹن کے حصے میں آئی۔ وہ بنیادی طور پر ایک کاشت کار تھا۔ اسے ایک بڑا زمین دار کہہ سکتے ہیں‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ جارج واشنگٹن ایک سرویئر بھی تھا‘ زمینوں اور جنگلات کی پیمائش کرنے کا ماہر۔ برطانیہ کو شکست دے کر وہ ایک ہیرو کے طور پر ابھرا‘ مگر جونہی اپنا کام ختم کیا تو دور دراز واقع اپنے گائوں میں اپنی زمینوں پر پہلے کی طرح کاشت کاری میں مصروف ہو گیا اور پہلے جیسی زندگی گزارنا شروع کر دی۔ جارج واشنگٹن کسی باقاعدہ فوج کا سربراہ نہیں تھا‘ بلکہ یہ رضا کاروں کی تنظیم تھی‘ جو خود ہی ٹوٹ چکی تھی۔ جارج نے نہ اقتدار پر قبضہ رکھا‘ نہ کوئی حکومت بنائی۔ وردی کو صندوق میں بند کیا اور فصلیں اگانے میں مصروف ہو گیا۔ جارج واشنگٹن اپنی ریاست ورجینیا میں ہی رہے۔ جب انقلابی جنگ 1783 میں ختم ہوئی تو ہر ریاست آزاد اور خود مختار تھی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بعد ازاں 1789 میں آئین کے بننے اور اس کی توثیق کے بعد وجود میں آیا تو قوم نے جارج واشنگٹن کو پہلا صدر ہونے کا اعزاز بخشا کہ وہ اپنے خلوص‘ ایمان داری‘ قابلیت اور عوامی خدمت کی بنا پر اس کے حق دار ٹھہرے تھے۔ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ بعد میں بھی وہ پھر سے کاشت کار ہی رہے‘ اپنی جاگیر جا کر سنبھالی۔
اپنے حالات اور قومی رہنمائوں کی قابلیت‘ دیانت داری‘ خلوص اور سیاست کے بارے میں ہم کیا لکھیں؟ ان کی حالت دیکھ کر مجھے تو ترس آتا ہے‘ اور اس سے زیادہ گماشتوں اور ہرکاروں پر کہ کیسے‘ سینہ تان کر اور ڈٹ کر لوٹ کھسوٹ کا دفاع کرتے ہیں۔ سب کو ناجائز دولت‘ مزید ناجائز دولت کی ہوس نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔ جب سیاست قومی خدمت کے جذبے سے خالی ہو اور محض سرمایہ کاری اور تجارت بن جائے تو ایسے ہی کردار آپ کو ملیں گے۔ جب خود اقتدار میں تھے تو اسمبلیوں کے اپنی مدت پوری کرنے پہ زور دیا جاتا تھا۔ ہم تب بھی ان کے ساتھ تھے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے‘ اب بھی یہی کہتے ہیں۔ جب بہت سے فصلی بٹیرے ادھر ادھر سے اڑ کر کپتان کی ٹیم میں شامل ہو رہے تھے‘ تو انہیں متنبہ کرنے والوں کی کمی نہ تھی‘ مگر پھر وہی اقتدار‘ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں والا معاملہ۔ ہمارے ہاں موسمِ بہار نہیں سیاست کی خزاں چھائی ہوئی ہے‘ پت جھڑ کا سماں ہے۔ بے رنگ و بو اقتدار کی جنگ نے ان سب کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر