نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی کھیل تماشا||رسول بخش رئیس

میدان تو سج گیا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ رابطے میں ہیں‘ اعداد اور نمبر پورے ہو چکے ہیں۔ خود ہی بتائیں‘ اس میں عوام کہاں ہیں اور ان کی امنگیں کہاں ہیں؟ یہ سب حکمران خاندانوں کا کھیل تماشا نہیں تو اور کیا ہے؟ ہماری باتوں اور لکھنے سے کیا اثر ہوتا ہے‘ چلو ہم بھی تماشا دیکھتے ہیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی ملک اگر دہائیوں سے سیاسی کھیل تماشوں کا اکھاڑا بنا ہوا ہو تو عوام اور غریب کے کون سے مسائل حل ہوں گے‘ ترقی کیونکر ہو گی‘ کوئی سکھ کا سانس کیسے لے گا اورخوشحالی کے خواب کیوں پورے ہوں گے؟ نظام جو بھی ہو‘ جمہوری‘ آمرانہ‘ صدارتی یا ہمارے جیسا پارلیمانی‘ چلتا صرف استحکام سے ہی ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات کوئی جمہوری‘ آئینی نہیں۔ چین میں ہمارے جیسے انتخابات نہیں ہوتے‘ اور جدید سنگاپور کے بانی لی کوان یو تو مغربی جمہوری نظام کو ایشیائی معاشروں کے لیے غیر موزوں قرار دیتے تھے۔ بات سادہ سی ہے کہ اگر حکومتیں محلاتی سازشوں سے بنائی اور گرائی جائیں‘ ہر حکومت کو عوام دشمن قرار دے کر مختلف گروہ اور جماعتیں‘ سڑکوں پر مارچ کرتے رہیں‘ تو نظام کمزور‘ بیکار اور ناکام ہو جاتے ہیں۔ آپ دنیا کے بہترین ماہرین‘ نوکر شاہی چلانے کے لیے اعلیٰ کردار کے حامل اہل لوگ اور وزارتوں میں جتنے بھی پُرخلوص لوگ جمع کر لیں‘ استحکام نہ ہو گا تو ناکام ہو جائیں گے۔ سرکاری دفتروں میں کام کرنے والوں سے لے کر سرمایہ کاروں اور غیر ملکی کمپنیوں تک‘ سب کام چھوڑ کر سیاسی تماشوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ‘کون بنے گا اگلا وزیر اعظم‘ کی باتیں ہوتی رہیں یا ‘کب جا رہے ہیں وزیر اعظم‘ تو وہ حالات پیدا نہیں ہو سکتے جن سے کوئی ملک ترقی کے مراحل طے کر سکے۔ ہماری اپنی مثال موجود ہے۔ ایوب خان کا دور جمہوری نہیں آمرانہ تھا۔ صرف دس سال استحکام رہا تو ترقی کی مثال قائم کر دی۔
سیاسی استحکام تین چار عناصر سے پیدا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے موزوں سیاسی نظام جسے عوام کی تائید حاصل ہو اور جو اِن کی امنگوں کا ترجمان ہو۔ عملی دشواری یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ نظام حکمران طبقات کی خواہشات‘ سیاسی مفادات اور طرزِ فکر کی پیداوار تھا۔ عوام ہمیشہ وڈیروں‘ سرداروں‘ مخدوموں‘ چودھریوں اور ملکوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے تیار رہے ہیں۔ برطانیہ کا پارلیمانی نظام صدیوں پر محیط روایات‘ جمہوری تحریکوں اور عوامی فلسفوں سے پیدا ہوا ہے۔ اسی طرح امریکی صدارتی آئین بھی عوامی‘ قومی انقلاب کی بھٹی میں ڈھلا ہے۔ صاحبِ نظر لوگ دنیا کے ہر کونے میں امریکی ”اعلانِ آزادی‘‘ کو فریموں میں رکھ کر دفتروں اور ڈرائنگ روموں میں سجاتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں اور آئنوں کے پیچھے لمبی فلسفیانہ بحثیں اور نظریات ہیں مگر مرکزی نکتہ ایک ہی ہے کہ حکومت بنانے کا بنیادی حق عوام کے پاس ہے۔ اس حق کے ذریعے نمائندہ حکومت قائم ہو گی جو جوابدہ ہو گی۔ آئین کی پابند اور قانون کی حکمرانی کے تابع۔ ایک رائے امریکی آئین کے بارے میں یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں صدی کے مقتدر طبقات نے اپنے معاشی مفادات کی حفاظت کے لیے نہ صرف آئین بنایا بلکہ اس کے ذریعے ریاست ہائے متحدہ کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل ہر ایک ریاست جدا اور مقتدر تھی۔ ہمارے تین آئینوں میں سے ہمارے روایتی سیاسی خاندانوں کی ترجیح ہمیشہ پارلیمانی نظام رہی ہے کہ ملک کے تقریباً تین سو سیاسی خاندانوں کے صرف اور صرف ”ایک سو بہتر‘‘ چشم و چراغ وزیر اعظم کو منتخب کرتے ہیں‘ صوبوں کے وزیر اعلیٰ رہتے ہیں یا جاتے ہیں‘ یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ رہی بات سیاسی جماعتوں کی‘ اور خصوصاً خاندانی اور موروثی والوں کی تو ان کی کامیابی کا راز ہم خیال گروہوںکو اکٹھا رکھنا ہے اور وہ بغیر کچھ لیے زیادہ دیر کسی ایک اکٹھ میں ہمیں تو نظر نہیں آئے۔ و ہ جب ادھر ادھر ہو جاتے ہیں‘ اور یاد رہے کہ ہمیشہ وہ ایسے فیصلے عوام اور ملک کے مفاد میں ہی کرتے ہیں‘ تو حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہیں۔
دوسری بات جمہوری روایات ہیں‘ جن میں سیاسی رہنمائوں کا ذاتی کردار نہایت ہی اہم ہے۔ کبھی صادق اور امین والی باتیں چلی تھیں اور کہیں لکھا ہوا بھی ہے‘ مگر ایسے کرداروں کا تعین نہ قانون اور نہ ہی عدالتیں کر سکتی ہیں۔ معاشرے کا مجموعی اخلاقی معیار‘ تہذیبی رویے اور عوام کی بیداری و اعلیٰ سیاسی شعور سیاست کے میدان میں چھاننی کا کام دیتے ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں تو ریت مٹی‘ سب چھن جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے‘ اتنا کہ ہم اخلاق کی بات کرتے ہوئے ڈر جاتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اخلاق کا تعلق قانون اور اس کی حکمرانی سے ہے۔ حکمرانوں کی بات کیا کرنی‘ عوام میں جا کر دیکھ لیں‘ اردگرد اپنے سماج کا مشاہدہ کریں۔ صفائی‘ سچائی اور انسانیت کے سب مروج رویے کھل کر سامنے ہوں گے۔ اخلاقی پستی ہو یا معاشرے میں بڑھتی ہوئی انارکی‘یہ بھی میری حقیر رائے میں نصف صدی سے جاری سیاسی جنگوں کا نتیجہ ہے۔ معاشرے ایک دن میں تو نہیں بگڑتے‘ اور جب بگڑ جائیں تو یہی ہوتا ہے جو آپ آج اپنی آنکھوںکے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
سیاست اصول پسندی کے بغیر‘ اگر اس پر جمہوری لبادہ بھی پہنایا گیا ہو‘ معاشرے میں انارکی پیدا کرتی ہے۔ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ اس انارکی میں رہنے اور اسے دیکھنے میں گزرا ہے۔ اب تو انارکی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو اپنی جائیداد‘ عزت اور جان کا خوف ہے۔ نہ جانے کتنے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں‘ جن کے مکانوں اور پلاٹوں پر ہر نوع کے مافیاز نے قبضے کیے ہوئے ہیں۔ عدالتوں کے دروازے بس کھلے ہیں اور سب کے لیے۔ زندگی انصاف کی تلاش میں گزار دی تو کیا حاصل۔ سوچیں‘ انارکی بھی اس نظام اور اس پر حق اور غلبہ رکھنے والے حکمران ٹولوں کا تحفہ ہے۔ ان کے لیے کون سا کام مشکل ہے۔ نہ چاہیں تو فیصلے نہ ہوں گے۔ تب ہوں گے جب حالات موافق ہوں گے۔ دہرے معیار‘ دوغلا پن اور کھربوں میں لوٹ کھسوٹ کو ہضم کیا۔ یہی جمہوری خواب ہے‘ جس کی تعبیر میں ہم نے زندگی کھپا دی۔
عمران خان ایک تیسری طاقت کے طور پر ابھرے تو نوجوانوں اور متوسط طبقے نے ان کی بھرپور حمایت کی۔ شہروں میں بسنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس لیے کہ لوگ موروثی سیاسی خاندانوں کی سیاست‘ ان کی مالی بدعنوانی اور سیاسی کھیل تماشوں سے تنگ آ چکے تھے۔ کپتان کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک وہ جس پر وہ چل رہے تھے کہ عوام کے اندر تحریک پیدا کر کے نئی قیادت کو سامنے لایا جائے اور وہ خیبر پختونخوا میں اس سلسلے میں کامیاب بھی رہے۔ دوسرے‘ تین سو موروثی سیاسی خاندانوں میں سے کچھ کو تحریکِ انصاف کا پٹکا گلے میں ڈال کر ساتھ ملا دیا جائے۔ اکثریتی جماعت تو بن گئی مگر انحصار موسم کے ساتھ بدلتے اتحادیوں کے ساتھ کرنا پڑا تو اس کے ساتھ ہی نظریاتی کارکن خان صاحب کی ”ایلیٹ‘‘ سیاست سے بیزار ہو گئے۔ ہمارا تجزیہ غلط یا صحیح‘ کل بھی اور آج بھی‘ یہی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست کامیا ب تو موروثی سیاست کا جنازہ‘ اگر موروثی سازشوں‘ جوڑ توڑ‘ خرید و فروخت کی منڈیاں لگانے میں کامیاب رہے تو پھر اس کھیل تماشے کا نجانے کیا نتیجہ نکلے۔ میدان تو سج گیا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ رابطے میں ہیں‘ اعداد اور نمبر پورے ہو چکے ہیں۔ خود ہی بتائیں‘ اس میں عوام کہاں ہیں اور ان کی امنگیں کہاں ہیں؟ یہ سب حکمران خاندانوں کا کھیل تماشا نہیں تو اور کیا ہے؟ ہماری باتوں اور لکھنے سے کیا اثر ہوتا ہے‘ چلو ہم بھی تماشا دیکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author