حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد میں سندھ ہائوس پر پی ٹی آئی کے 2ارکان قومی اسمبلی اور ایک وزیر مملکت کے خیبر پختونخوا سے بلوائے ہوئے کارکنوں کے حملہ سے پیدا شدہ صورتحال پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ وزیر مملکت نے کارکنوں کو خیبر پختونخوا سے کیوں بلوایا یہ بذات خود ایک سوال ہے۔ جواب یقیناً اس وزیر مملکت کے پاس ہوگا مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ احتجاج کے نام پر سندھ ہائوس پر حملہ اور گیٹ توڑ کر ہنگامہ آرائی کے ردعمل میں اگر سندھ میں وفاقی عمارتوں پر جواب دعویٰ ’’پیش‘‘ کیا جائے تو حالات کیا بن سکتے ہیں۔
سندھ ہائوس پر حملے کے ذمہ داران وزیرداخلہ کے حکم پر گرفتار کئے گئے پھر وزیراعظم کے ایک معاون شہباز گل نے 2ارکان قومی اسمبلی اور تین دوسرے افراد کو پولیس کی تحویل سے چھڑالیا۔ گو باقی کارکن پولیس کی تحویل میں ہیں مگر یہ تین افراد کون ہیں جنہیں دو ارکان اسمبلی کے ساتھ پولیس سے چھڑوایا گیا؟ کہا جارہا ہے کہ یہ اسی وزیر مملکت کے رشتہ دار ہیں اور اگر ان کی باضابطہ گرفتاری عمل میں آتی تو یہ کہنے کا جواز ختم ہوجاتا کہ سندھ ہائوس پر احتجاج اور حملہ لوگوں کا انفرادی فعل ہے۔
ویسے انفرادی فعل تو یہ ہرگز نہیں کیونکہ اگر کچھ وفاقی وزراء کے گزشتہ چند دنوں کے بیانات پر غور کیا جائے تو اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ جمعہ کو سندھ ہائوس اسلام آباد پر احتجاج اور گیٹ توڑنے کا واقعہ دونوں ’’باقاعدہ‘‘ تھے بے قاعدہ ہرگز نہیں۔
دوسری طرف یہ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم یا چلیں وزراء سے ناراض ارکان کی تعداد 47 تجاوز کرچکی ہے۔ یہ ارکان ناراض کیوں ہیں اس حوالے سے اگر منحرف قرار دیئے جانے والوں کا موقف سوفیصد درست نہ بھی ہو تو اس سے ا نکار نہیں کہ دال میں کچھ کچھ کالا بہرحال ہے۔
اطلاعات یہی ہیں کہ تحریک انصاف کی خصوصی کور کمیٹی نے جس حکمت عملی کی منظور دی ہے اس کے تین حصے ہیں اولاً منحرف ارکان کے گھروں پر مظاہرہ ان کے خلاف سوشل میڈیا مہم، سپریم کورٹ سے یہ حق حاصل کرنا کہ جرم سے پہلے سزا دینے کا اختیار ہونا چاہیے اور یہ کہ مسلح افواج کو متنازعہ بنایا جائے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا خصوصی کور کمیٹی نے وزیراعظم کی رضامندی کے بغیر اس حکمت عملی کی منظوری دی اور عمل بھی شروع ہوگیا؟ بظاہر یہی لگتاہے کہ اس حکمت عملی کو وزیراعظم کی تائید حاصل ہے۔ ان کی تائید حاصل نہ ہوتی تو وہ پچھلے چند دنوں سے اپنے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر وزارت دفاع کے ماتحت محکموں سے تعلق رکھنے والی چند شخصیات کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا نہ صرف نوٹس لیتے بلکہ شٹ اپ کال بھی دیتے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے جو اکائونٹس کل تک یہ ثابت کررہے تھے کہ نوازشریف غدار ہے اور زرداری کرہ ارض کا سب سے بڑا ڈاکو اب انہی اکائونٹس سے یہ دونوں ’’خوبیاں‘‘ ایک اور شخص کی ذات میں جمع کرکے پیش کی جارہی ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ اب غیرجانبدار ایمپائر غدار بھی ہے اور ڈاکو بھی، کہا تو اس سے آگے بہی بہت کچھ جارہا ہے مگر اس کو ان سطور میں لکھنا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔
ہمارے ہمزاد فقیر راحموں تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سوشل میڈیا جہاد اس وقت شروع کرایا گیا جب تین وفاقی وزراء پرویز خٹک، اسد عمر اور فواد چودھری کی ایک اہم ملاقات ناکامی سے دوچار ہوئی۔
فقیر راحموں تو وزیر قانون کی شاہراہ دستور پرایک ملاقات اور منت ترلوں کی کہانی بھی سنارہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملاقات صبح کے وقت ہوئی خواہش مسترد کئے جانے کا پیغام دوپہر کے وقت ملا جس کےبعد ٹائیگرز کو ہلہ شیری دی گئی اور سندھ ہائوس والا واقعہ رونما ہوا۔
اسی دوران موجودہ نظام کے محافظ یوٹیوبروں میں سے کچھ نے وزیراعظم کے ممکنہ انقلابی اقدام کی نوید دی اور بعض نے 8افراد کی گرفتاریوں کے منصوبے کی۔
کیا واقعی وزیراعظم وہ کر گزریں گے جو میاں نوازشریف نے 12اکتوبر 1999ء میں کیا تھا؟
یہ سوال اہم ہے۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ معاملات اس نہج تک پہنچیں۔ شور شرابے، غائبانہ نماز جنازہ کے پروگرام، پتلے جلانے اور لوٹے لٹکانے تک تو کام ٹھیک رہے گا اس سے آگے بات بڑھی تو یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہوگی۔
بات اس سے آگے بڑھنی بھی نہیں چاہیے۔ ساعت بھر کے لئے رکئے پتہ نہیں مجھے سال 2011ء سے 2018ء تک کے درمیانی عرصے کی ’’وارداتیں‘‘ کیوں یاد آرہی ہیں۔ سچ یہی ہے کہ ان برسوں میں چند محکموں کے لوگوں نے حقیقی فرائض سے پہلو تہی برتی اور سیاسی انجینئرنگ میں "جذبہ ایمانی” کے ساتھ شرکت کی۔
مثال کے طور پر ایک شخص اپنے شہر سے (ن) لیگ کا ٹکٹ لینے کے لئے روانہ ہوا۔ مانگا منڈی کے پاس موصول ہونے والی ٹیلیفون کال پر خوفزدہ ہوکر واپس پلٹ گیا پھر اس نے درخواست کی اچھا مجھے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے دیا جائے۔ فون کس نے کیا اور فون سن کر بندہ خوفزدہ کیوں ہوگیا۔
اس بات کو گہرائی سے سمجھنے کےلئے وہ گاڑی تلاش کیجئے جس میں 2013ء میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو ملتان کے حلقہ انتخاب سے اغوا کرکے ملتان کی حدود سے باہر لے جایا گیا۔ اس ’’گاڑی‘‘ کا اتہ پتہ ان ساری داستانوں کی حقیقت کھول دے گا جو پچھلے دو عام انتخابات کے دوران پرواز کرتی رہیں۔
ہمارے ایک دوست اٹھتے بیٹھتے کہا کرتے تھے یار شاہ جی تمہارے شہید والد بزرگوار فوجی افسر بھی رہے پھر تم فوج کی اتنی مخالفت کیوں کرتے ہو۔ ان کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ اگر فوج نہ ہو تو ہندو پاکستان کو کچا چباجائیں۔
مجھے انہیں دو باتیں ہر ملاقات میں یاد دلانا پڑتیں۔ اولاً یہ کہ میں فوج کا نہیں دستور شکنی کے مرتکب ہوئے جرنیلوں اور خود کو اس ملک کا مالک سمجھنے والے طالع آزمائوں کا ناقد ہوں۔ ثانیاً یہ کہ ہندوئوں کی اکثریت گوشت خور نہیں ہے۔
اب پچھلے چند دنوں سے اسی دوست نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ات مچارکھی ہے ویسے وہ شکریہ راحیل شریف بلکہ اس سے پہلے شکریہ پرویز مشرف انجمن کا بھی حصہ تھے ان کا دعویٰ تھا کہ اگر پرویز مشرف نوازشریف کو برطرف نہ کرتا تو 12اور 13 اکتوبر کی درمیانی رات نوازشریف نے بھارتی فوج کو ٹیک اوور کروادینا تھا۔
کیسے کیسے نابغے اس سرزمین پر پائے جاتے ہیں یہ صاحب ہمیشہ کہتے ہیں اگر انہیں ایک دن کے لئے وزیراعظم بنادیا جائے تو وہ پہلا کام یہ کریں گے کہ پپلزپارٹی کا بیج ہی ماردیں گے ان کے خیال میں ملک توڑنے والی اس پارٹی کا وجود قبول کرنا ہی غداری ہے۔
معاف کیجئے گا بات کسی اور طرف نکل گئی۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہ دوست اور ان کی ذہنیت کے دوسرے حاملین ان دنوں خان صاحب (عمران خان) کو نجات دہندہ اور مسیحا بناکر پیش کررہے ہیں ان کاکہنا ہے کہ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ عالم اسلام کی اس امید تازہ کی حفاظت کرے۔
اپنے موقف کو رد کرنے والوں کے لئے ان کے خیالات بلکہ یوں کہیں کہ ’’فتاویٰ ہائے بشیریہ‘‘ کو یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔
سیاسی ماحول بڑا جالم بنتا جارہا ہے اس وقت سب سے سستی ننگی گالیاں اور غداری کے فتوے ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ حکمران جماعت اور حزب اختلاف ہر دو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ہمدردان تحمل و شائستگی کا دامن تھامے رکھیں اور کوئی ایسی بات کریں نہ قدم اٹھائیں جس سے انارکی کا دروازہ کھلے۔ خاکم بدہن ایسا ہوا تو نقصان سب کا ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر