نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ باتیں اِدھر اُدھر کی ||حیدر جاوید سید

پچھلی شب پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویزالٰہی نے بھی کچھ باتیں اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہیں۔ انجمن محبان نواں پاکستان کو موقع ملے تو اس پر غور ضرور کریں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2014ء والے دھرنے کے دوران درج ہوئے پارلیمنٹ و پی ٹی وی حملہ کیس سے وزیراعظم عمران خان پہلے ہی بری ہوچکے تھے گزشتہ روز صدر مملکت، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور دیگر وزراء و پی ٹی آئی رہنما بھی بری ہوگئے۔ استغاثہ نے بریت کی درخواستوں کی مخالفت نہیں کی۔
” کیسے کرتا مخالف” حالانکہ آڈیو ٹیپس اور موقع کی تصاویر موجود تھیں۔ بہرطور انصاف کا بول بالا ہونے اور دہشت گردی کے مقدمہ سے بری ہونے پر تحریک انصاف کی حکمران قیادت کو پرخلوص مبارکباد ہی پیش کی جاسکتی ہے۔
اب ہمیں امید کرنی چاہیے کہ دہشت گردی کی عدالتوں میں زیرسماعت دیگر مقدمات میں بھی استغاثہ اسی حب الوطنی اور نیک نامی کے اظہار سے پہلو تہی نہیں برتے گا۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ انصاف ہوا اور سات سال بعد قائدین نواں پاکستان بری ہوگئے اور شکر ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے میں 16ایم پی او کے تحت سزائیں نہیں ہوئیں۔
اب یہ سولہ ایم پی او اور سزائوں کی تفسیر نہ پوچھ لیجئے گا۔ پہلے ہی بہت سارے احباب اور قارئین ناراض ہیں۔ ناراض کیوں ہیں بس ایک ہی وجہ ہے۔ ان کا شکوہ ہے کہ اپنے کالموں میں حکومت اور تحریک انصاف کے لئے خیر کا کلمہ کبھی نہیں لکھتا۔ ویسے شکوہ ہونا نہیں چاہیے کیونکہ یوٹیوبرز کا ایک لشکر جرار، صحافیوں کی فوج ظفر موج حکومت اور تحریک انصاف کی حامی ہے۔ رہ گئے ہم تو ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘ والا معاملہ ہی ہے۔

حکومت اور تحریک انصاف کا میں اس حد تک حامی ہوں کہ اپوزیشن یا یوں کہہ لیجئے پیپلزپارٹی اور اے این پی کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود میری رائے یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد گو جمہوری حق ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ اس حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی تاکہ ہمارے ’’لالہ جی‘‘ کا بھی رانجھا راضی ہوتا اور ان کی "کمپنی” کا بھی۔
ایک قاری امجد بشیر نے میسج نما سوال بھیجا ہے، دریافت کیا ہے کہ ’’آج کل (ن) لیگ کو کچھ نہیں کہہ رہے حالانکہ آپ کا تو کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا (ن) لیگ پر تنقید کئے بغیر‘‘۔ عرض فقط یہ ہے کہ کامریڈ نواز شریف علاج کے لئے لندن گئے ہوئے ہیں اخلاقی فریضہ یہ ہے کہ بیمار کی تیمارداری اور لواحقین سے شفقت سے پیش آنا چاہیے۔
یہاں شفقت سے مراد خاور شفقت حسنین بھٹہ ہرگز نہیں وہ ہماری ملتانی منڈلی کے تاحیات قائد ہیں۔ منڈلی کے قومی راز افشا کرنا سنگین جرم ہے۔
ہمارے پسندیدہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے گزشتہ روز پھر کنونشن سنٹر میں اوورسیز پاکستانیوں کے ’’میلے‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے بڑھک ماری ہے کہ ’’کس میں ہمت ہے کہ عمران خان کے خلاف ووٹ دے‘‘۔ یہ بھی کہا اپوزیشن ڈر گئی۔ اس ڈر گئی پہ پنجابی سٹیج ڈراموں کا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے لیکن چھوڑیں ہم آگے بڑھتے ہیں۔
ماضی کے ادوار میں، آگ لگادو، ماردو، گرادو، چھوڑو نہیں تباہ کردو، میں خود آگ لگادوں گا، کی بڑھکیں مارنے والے موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید آجکل دیکھ لوں گا، کچل کے رکھ دوں گا، رینجرز اور ایف سی بلائوں گا، کوئی چوں کرکے تو دیکھے، جیسی باتیں کررہے ہیں۔
کل ایک ستم ظریف نے ایک پرانا ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں فرمارہے ہیں کہ ’’جس دن بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ ہوا میں اتنا خوفزدہ ہوگیا کہ پہلی فلائٹ پکڑ کے پاکستان سے باہر چلا گیا تھا کیونکہ مجھے ڈر یہ تھا کہ دھماکوں کی کوئی شُرلی اِدھر اُدھر نہ ہوجائے‘‘۔

شیخ صاحب اپنی بہادری کی داستانیں بھی گاہے بگاہے پیش کرتے رہتے ہیں۔ فقیر راحموں کی ان سے 1970ء کی دہائی کے وسط سے یاد اللہ ہے۔ خوب آدمی ہیں، رونق میلہ لگائے رکھتے ہیں۔ ایک بار (پیپلزپارٹی کے دور میں) جلسہ عام میں کلاشنکوف لہرانے کے جرم میں دھرلئے گئے۔ عدالت میں آبدیدہ حالت میں کہا حضور میں نے تو کھلونا کلاشنکوف لہرائی تھی۔
یاد آیا اس دور میں اعجاز الحق نے بھی کلاشنکوف لہرائی تھی ان کے خلاف مقدمہ درج ہونے لگا تو ان کے مرحوم والے کا محکمہ مدد کو آگیا۔
قبلہ شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے، دیکھو شاہ جی، بینظیر بھٹو نے مجھے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرواکر سزا دلوادی لیکن اعجاز الحق کو اصل کلاشنکوف لہرانے پر بھی کچھ نہیں کہا کیونکہ اس کا باپ آرمی چیف رہا تھا۔

معاف کیجئے گا بات سے بات نکلتی اور دور چلی جاتی ہے۔ ہمارے کچھ محبان مکرم قسم کے دوست اکثر اصرار کرتے رہتے ہیں شاہ جی اپنی سوانح عمری لکھو۔ لکھ تو دوں سوانح عمری مگر اس ملک میں کتاب پڑھتے کتنے لوگ ہیں۔
چلیں کتاب پڑھنے کی بات چھوڑیں کیا آنکھوں دیکھا سب لکھ ڈالنے پر ’’اماں قائم رہے گی‘‘۔ دو دن اُدھر دوستوں سے عرض کیا میں داستان زندگی لکھ تو رہا ہوں البتہ دو دوستوں کو بتادیا ہے کہ اسے شائع ہمارے سانحہ ارتحال کے بعد کروانا۔
فقیر راحموں بولے یار شاہ اتنا ڈرتے کاہے کو ہو؟ اب کیا کہوں سیاہ و سفید قصے اتنے ہیں کہ کچھ ’’مقدس‘‘ کہلانے والے لوگوں کے ظاہری "تقدس” سے پردہ اٹھتا ہے۔
خیر لکھ تو رہا ہوں صحت و زندگی رہی تو مکمل بھی ہوجائے گی یہ داستانِ حیات۔
ارے باردیگر معاف کیجئے گا سیاست کے اس گرما گرم موسم میں ہم کیا قصے لے بیٹھے۔ اسلام آباد میں ماحول ’’فل تپا‘‘ ہوا ہے۔ حکومت اور متحدہ اپوزیشن دونوں بندے پورے ہیں کا دعویٰ کررہے ہیں۔ اُدھر ہمارے محبوب لالہ جی گزشتہ روز لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی جاپہنچے اور طلبا و طالبات کو فل سات گھنٹے لیکچر دیا۔
اس لیکچر کو لے کر سوشل میڈیا پر کچھ نادان لالہ جی سے پوچھ رہے ہیں کہ علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تو پرانا پاکستان تھی یہ لمز کے لونڈوں کی شرارت کیا ہے؟
بعض عظیم محب وطن یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر محترمہ ندا کرمانی کے خلاف زہریلی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ ہمیں لوگوں کی آرا سے اختلاف کا پورا پورا حق ہے مگر اپنے حق کے استعمال میں یہ ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ فرد کے حق کی حدود ہوتی ہے اور یہ حد وہاں تمام ہوتی ہے جہاں دوسری رائے کی حد شروع ہو۔
ہمارے محبوب وزیراعظم نے منگل کو کنونشن سنٹر میں منعقدہ اوورسیز پاکستانیوں کے میلے میں ایک بار پھر اپنے مخالفین کو بے بہاہ سنائیں اور بولے، لوگ سوچتے ہیں کہ ان چوروں کا ساتھ دینے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ عمران کے ساتھ ڈوب جائو۔ جان کی امان ہو تو بندہ پوچھ ہی لے حضور اور کتنا ڈوبنا ہے؟
ایک بات اور کہی وہ یہ کہ زرداری، نواز اور فضل الرحمن میری بندوق کے نشانے پر ہیں۔ نواں پاکستان بنانے والے ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ قبلہ وزیراعظم عمران خان جو زبان استعمال کرتے ہیں یہی مروجہ سیاست کا چلن ہے۔
آپ کو کیا اعتراض ہے۔ خدا کے بندو ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوگا جیسی روح ویسے فرشتے۔
ہم تقسیم شدہ برصغیر کے ایک ملک میں ہی رہتے ہیں جہاں ہمارے محترم جناح صاحب نے ابوالکلام آزاد کو شو بوائے کہا تھا۔ بھٹو صاحب نے اصغر خان کو آلو اور خان قیوم کو ڈبل بیرل خان، میاں نوازشریف، شیخ رشید اور جماعت اسلامی والے سلمان بٹ محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں ناگفتنی کہتے تھے۔
نواں پاکستان والے مریم نواز کو کچھ کہتے ہیں جواب میں بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں شو بوائے سے بندوق کے نشانے تک والی ساری باتیں غلط تھیں اور ہیں خیر یہ ہماری رائے ہے لازم نہیں آپ اس سے اتفاق کریں۔
پچھلی شب پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویزالٰہی نے بھی کچھ باتیں اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہیں۔ انجمن محبان نواں پاکستان کو موقع ملے تو اس پر غور ضرور کریں۔
پیارے قارئین کالم کے دامن میں اتنی ہی گنجائش تھی باقی باتیں ادھار رہیں۔ پی ڈی ایم نے اپنے مہنگائی لانگ مارچ کے قافلوں کو 23مارچ کی بجائے 25مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی ہدایت کی ہے۔ مارچ 23کو ہی شروع ہوگا۔ لیکن 23 مارچ سے اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد ہورہی ہے اس کے پیش نظر ایک اچھا فیصلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author