قربانی کے بکرے !! ۔ ۔۔۔
تحریر ۔
آفتاب نواز مستوئی جام پور۔ ۔۔۔
سرائیکی وسیب بالخصوص ڈیرہ غازیخان ریجن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس محروم و محکوم تخت لہور اور انگریزوں کے مراعات یافتہ طبقہ کے شکنجے میں جکڑی دھرتی سے ” قربانی کا انتہائی خالص خوبصورت مال ” مناسب بھاو میں مل جاتا ہے ۔
انگریز تو چلا گیا مگر ” تمن داروں ‘ جاگیرداروں ” ‘ کی شکل میں ایک ایسی ” مخلوق ” چھوڑ گیا
جس نے نسل در نسل اپنے جاہ و جلال اور حکمرانی کو برقرار رکھنے کیلئیے تخت لہور اور تخت اسلام آباد میں شراکت کی خاطر ” کیا کیا نہ کیا ” ۔۔ ان کی اصلیت اور ” کارناموں "کی تفصیلات وکیل انجم کی کتاب سیاست کے فرعون ( مطبوعہ فیروز سنز ) میں نہایت مدلل اور واضح و سلیس انداز میں موجود ہیں ماضی کے اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ
قیام پاکستان سے لیکر اب تک اس پٹی پر انگریز ی دور کے 9 تمن دار ہی باری باری ہر حکومت میں شامل چلے آرہے ہیں
مگر ” ان بے چاروں ” کا المیہ یہ بھی ہے کہ انہیں جب بھی کوئی بڑا عہدہ دیا گیا تو ان کی حیثیت صرف کسی مداری کے ” بچے جمورے ” جیسی رکھی گئی
جیسے بھرے مجمع میں کوئی مداری اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے ” جمورے ” جواب ملتا ہے ” جی استاد ” وہ کہتا ہے ” گھوم جا ” جواب میں گھومنے کے ساتھ کہا جاتا ہے ” گھوم گیا ” اور جمورے کو گھما گھما کر مداری اپنا کام چلا لیتا ہے تماشہ ختم ہوتے ہی ” جمورے ” کی حیثیت بھی ختم ۔۔ !
سرائیکی وسیب میں اضلاع ڈیرہ غازیخان و راجن پور کی جغرافیائی حدود وسیب کے دیگر اضلاع کی نسبت مختلف و منفرد ہیں باقی اضلاع میدانی علاقوں پر مشتمل ہیں
جبکہ ان دو اضلاع کی حدود میں کوہ سلیمان کا طویل پہاڑی سلسلہ موجود ہے جسے انگریز نے 9 تمن ( بزدار ‘ قیصرانی ‘ سوری لنڈ ‘ کھوسہ ‘ لغاری ‘ گورچانی ‘ ٹبی لنڈ ‘ دریشک اور مزاری ) میں تقسیم کر دیا تھا ۔شروع دن سے ہی
ہر تمن دار کو مجسٹریٹ /کلکٹر وغیرہ کے اختیارات سونپنے کے ساتھ ساتھ انہیں بارڈر ملٹری پولیس بھی دے دی گئی اور ہر تمن میں سوار ( سپاہی ) سے لیکر دفعدار رسالدار تک کی بھرتی و تقرری کا طریق کار بھی متعین کر دیا گیا کہ ہر تمن میں صرف اسی تمن کے ہی لوگ بھرتی ہو سکیں گے
چاہے وہ خواندہ ہوں یا نا خواندہ ‘ ( یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے ) دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ان تمن داروں کے بچے یہاں کے وسائل اور آمدنی سے ایچی سن سے لیکر آکسفورڈ تک پڑھتے رہے
جن کی خاطر لاہور کے پر آسائش اور مہنگے علاقوں میں عالیشان بنگلے اور کوٹھیاں تعمیر کی گئیں مگر ہر تمن میں عام آدمی کو تعلیم صحت مواصلات بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا
حتی ا کہ آج تک اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں کینسر ‘ تپ دق ‘ یرقان ‘ ہیپا ٹائٹس سی ‘ بی ‘ گلہڑ ‘ انیمیاء جیسی مہلک بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں ۔
کیونکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک یہی لوگ اقتدار میں شامل ہوتے ہیں اس وجہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی ( زگ زیگ ) حلقہ بندیاں بھی انہی کی مرضی اور خواہشات کے طابع ہوتی ہیں پورے پاکستان میں واحد یہ دو اضلاع ہیں جن کی قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقے کوہ سلیمان سے شروع ہوتے ہیں
اور دریائے سندھ کے بیلٹ پر ختم ہوتے ہیں ۔1968 کے پولیٹیکل ایجینسیز ایکٹ کے تحت ٹرائبل ایریا ( کوہ سلیمان ) میں تمام تر انتظامی امور اور لاء اینڈ آرڈر کے معاملات کا سربراہ پولیٹیکل ایجنٹ /کمانڈنٹ بارڈر ملٹری پولیس ہوتا ہے
قانون کی عملداری کیلئیے بارڈر ملٹری پولیس ۔BMP میدانی علاقوں میں پنجاب پولیس۔ جبکہ قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پہاڑ ی و میدانی علاقے ایک کر دئیے جاتے ہیں جسکی وجہ سے آج تک پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ان اضلاع میں اپنے نظریات اور منشور کے مطابق اپنی
بنیادیں مضبوط نہیں کر سکی اور با امر مجبوری ہر جماعت ( جسے اقتدار کیلئیے ممبران کی مطلوبہ تعداد پوری کرنا ضروری ہوتی ہے) ان تمن داروں کی محتاج ہو کر رہ جاتی ہے میدانی و شہری علاقوں سے واضح طور پر شکست کے باوجود ٹرائبل ایریاز کے ( 100فیصد ووٹوں ) ووٹوں کے بل بوتے پر ” یہی لوگ ” با آسانی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔اب تک منعقد ہونے والے تمام عام انتخابات کے نتائج کا ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری علاقوں جہاں تعلیم ذررائع آمدورفت کی تمام سہولتیں موجود ہوتی ہیں
میں ٹرن آوٹ بمشکل 40 % ہوتا ہے مگر ٹرائبل ایریا جہاں خواتین ووٹ کاسٹ نہیں کرتیں جہاں تعلیم اور ذرائع آمدو رفت کا فقدان ہے جہاں کے مرد حضرات کی اکثریت بھی بسلسلہ روزگار بیرون ملک ہے جہاں کی
آبادی بھی بکھری ہوئی ہے جہاں پچاس فیصد لوگوں کے شناختی کارڈز تک نہیں بنے ہوے ہوتے وہاں کے پولنگ اسٹیشنوں کا ٹرن آوٹ 100فیصد بعض مقامات پر یہ
دلچسپ اور حیران کن صورتحال بھی ملتی ہے کہ کل ووٹر صرف 98 کاسٹنگ 198 ۔کامیاب امیدوار متعلقہ تمن دار ۔
تخت لہور کی ہمیشہ سے یہ ریت رہی ہے کہ طاقت واقتدار کا سب سے بڑا عہدہ اپنے پاس ( پنجاب ) کے پاس رکھا اور اگر کبھی بادل نخواستہ سرائیکی وسیب کو ” بڑا عہدہ ” مل بھی گیا تو شروع دن سے ہی اسے عدم برداشت کا نشانہ بنایا گیا
البتہ جس نے اقتدار کے عارضی اور بے ہودہ نشہ میں آکر "جی حضوری نیاز مندی اور خوشامد "کو وطیرہ بنائے رکھا اسے ” ڈمی یا روبوٹ ” طرز پر کچھ دن اقتدار اعلی ا کے
جھولے میں جھولنے کی مہلت کسی حد تک دے دی گئی ۔
اس سب کچھ کے پیچھے اصل ایجنڈا بہر صورت ” تخت لہور ” یا پنجاب کی بالا دستی کو بہر صورت قائم رکھنا ہے سرائیکی وسیب کے ” تمن داروں جاگیرداروں اور گد ی نشینوں ” کو بڑے بڑے عہدے تو ہر دور میں دئیے گئے
مگر ساتھ میں ” ہر حکم کی پابندی لازم ” اور سرائیکی صوبہ کے قیام یا پنجاب کی تقسیم پر لب کشائی نہ کرنے کی شرط کے ساتھ ۔ ۔۔پھر جب تک چاہا انہیں ” بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا ” اور جب دل چاہا انہیں اقتدار کے محلات سے نکال کر
نہایت بے دردی کے ساتھ ” قربان گاہ ” کی نظر کر دیا گیا ۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو ” ان قربانی کے بکروں ” کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئیے جو وسائل تو اس وسیب سے حاصل کرتے ہیں
اور خرچ لاہور اسلام آباد میں کرتے ہیں موجودہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے سچ تو کہا ہے کہ ” سرائیکی صوبہ کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس خطے کے ایم این اے ایم پی اے خود ہیں
کیونکہ ان کے بچے گھر کاروبار سب کچھ لاہور میں ہے یہ نہیں چاہتے کہ یہ لاہور چھوڑ دیں "۔۔ جی ہاں سچ تو ہے صوبہ تو کیا یہ لوگ اپنے علاقوں میں لوگوں کی چیخ و پکار و مطالبات کے باوجود نئے اضلاع بھی نہیں بننے دیتے کیونکہ انہیں یہ تو پتہ ہے کہ جتنا نئے انتظامی یونٹ بنیں گے مفلوک والحال لوگوں پر ان کی
حکمرانی کی گرفت ڈھیلی پڑتی جائے گی ۔
اب آتے ہیں حالات حاضرہ کی طرف موجودہ حکومت کے چار سال پورے ہونے چلے ہیں کیا
کھویا کیا پایا ؟ حکمرانوں اور اپوزیشن کی آنکھ مچولی ایک دوسرے پر الزام تراشی گالم گلوچ ” دڑکے دباچے ” سب ہر ایک پر عیاں ہے مہنگائی بد عنوانی رشوت خوری لاقانونیت حکومتی اقدامات یہ بھی سوشل میڈیا کے اس تیز ترین دور میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔
اپوزیشن کے بلاول زرداری کا سندھ سے براستہ سرائیکی وسیب ‘ پنجاب اسلام آباد تک اور حکومتی پارٹی کے راہنما مخدوم شاہ محمود قریشی کا سندھ کی طرف لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی تحریک کا شور شرابا بھی ہر شہری دیکھ رہا ہے
دو دن قبل میلسی میں عثمان بزدار کا پہلی مرتبہ فی البدیہہ سرائیکی زبان میں گرجدار خطاب اور عمران خان کا الگ صوبہ کے قیام کا بل پیش کرنے کا اعلان وغیرہ وغیرہ بھی ہر کسی نے سن لئیے اسی دوران اچانک حکمران پارٹی کے علیم خان کا متکبرانہ انداز میں جہانگیر خان ترین سے مل کر چالیس ممبران پنجاب اسمبلی کی حمایت کے ساتھ عثمان بزدار کو ہٹانے کا دعوی ا ہمارے نزدیک قطعی طور پر حیرت انگیز نہیں ہے
یہ سب کچھ اسی ” لہوری پلان ” کا حصہ ہے جو سرائیکی بیلٹ کے سیاستدانوں کی تذلیل و تضحیک کیلئیے ہمیشہ تیار رہتا ہے ۔ حکمران پارٹی کی ایک ” مخصوص لابی ” شروع دن سے ہی عثمان بزدار کو پسند نہیں کرتی تھی اسی طرح گجرات کے چوہدری بھی آغاز سے لیکر تا حال جہاں عثمان بزدار کو ہٹائے جانے کے خواہشمند ہیں وہاں یہی عہدہ خود حاصل کرنے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں
مسلم لیگ نواز ہو پیپلز پارٹی ہو یا خود حکمران جماعت پی ٹی آئی ہو جو بھی چوہدریوں کو ایوان وزیر علی ا کا مکین بنانے کی گارنٹی دے یہ اسکے دوسری جانب خالص لہوری جماعت کے سربراہ شہباز شریف نے بھی اپوزیشن کے اہم ترین اجلاس میں سب سے پہلے وزیر اعلی ا پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے
ہم نے تو ابتداء میں ہی کہہ دیا تھا کہ تخت لہور سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے ” ایک بے اختیار ” وزیر اعلی ا کو برداشت نہیں کر پارہا
اور ساڑھے تین سال بعد یہ سب کچھ واضح بھی ہو رہا ہے ‘ شہباز شریف لہوری + علیم خان لہوری + چوہدری گجراتی + ( حسب روایت ) ایک سرائیکی جاگیر دار و سرمایہ دار جہانگیر ترین – سب کا ون پوائنٹ ایجنڈا ۔۔۔۔” عثمان بزدار کی قربانی "۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ” بے رحم لہوری قربان گاہ ” میں یہ قربانی ” تخت اسلام آباد ” کو بچا پائے گی یا نہیں ؟ ۔۔۔یا پھر کہیں ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ
مہنگائی بد امنی ‘ دہشت گردی سے پریشان حال پاکستانی قوم کو وقتی طور پر ” کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ” ٹائم پاس کرنے کی کوشش کی جارہی ہو ؟ ۔۔۔۔و ما علیناا ن البلاغ
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون