گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحیم شاہ پشتو زبان کے ممتاز پاپولر سنگر ہیں ۔اس نے بہت عرصہ پہلے ایک صوفیانہ گیت گایا تھا جو بہت مقبول ہوا۔ او پیرا او پیرا ۔ جس کا مطلب کچھ اس طرح تھا کہ او مرشد ۔حجاب و پردے ہٹا دو ۔ میری خاک کو ہیرا بنا دو ۔ ویسے ان سے پہلے سرائیکی میں بھی ایک گیت تھا ۔میری ڈاچی دے گل وچ ٹلیاں ۔۔میں تاں پیر مناونڑ چلی ہاں۔ اور پھر اس کے ساتھ بھی۔۔پیرا ہو ۔گایا جاتا ۔۔مگر آج ہم ایک اور ۔۔۔پیرا ۔۔کی بات کرتے ہیں جو ٹانک کا تھا۔
180 سال پہلےجب ٹانک پر سکھوں نے قبضہ کیا تو وہاں کا نظم و نسق کچھ ایسے حکمرانوں کے سپرد کیا جو بہت بھاری رقم ٹیکس کی وصول کرنے لگے ۔کچھ کسان تو بھاری ٹیکس کے بوجھ کی وجہ سے دوسرے شھروں ہجرت کر گیے لیکن کچھ لوگوں کو جاگیردار حکمرانوں نے ٹانک سے زبردستی نکال دیا اور وہ کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں وزیری قبائل کی پناہ میں ان کے ساتھ رہنے لگے۔ یہ ایک جتھہ بن گیا جن کا سربراہ پیرا تھا۔ سکھوں کی حکومت میں پیرا ٹانک اور دامان کے میدانی علاقوں آ کر لوگوں کے مویشی لے جاتا اور ہندو کتھری تاجروں کو اغوا کر لیتا پھر بھاری تاوان Ransom وصول کر کے چھوڑ دیتا۔ سکھ حکومت لوگوں کو کیا امان دیتی وہ خود لوٹ مار میں مصروف تھے۔ اس طرح ہندٶں نے شھر سے اور گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ پیرا نے علاقے میں سخت خوف و ہراس اور دھشت پھیلا رکھی تھی۔انہی دنوں1847ء میں سکھوں کی حکومت ختم ہو گئی اور انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔انہوں نے شاہ نواز کٹی خیل کو بحال کر کے ٹانک کی حکمرانی اس کے سپرد کر دی اور جاگیرداروں کو ہٹا دیا ۔ ادھر سکھ حکمران دیوان دولت راۓ کے بعد
ڈیرہ کا پہلا انگریز حکمران جنرل کارٹلینڈ
General Cortlandt
مقرر ہوا۔۔ اس نے شاہ نواز کٹی خیل کو پہاڑی مفروروں سے نمٹنے کا کہا۔شاہ نواز خان نے بات چیت کر کے مفروروں کو اس شرط کے ساتھ معاف کر دیا کہ آئندہ وہ امن سے رہنے کا عھد کریں اس طرح وہ ٹانک اپنے گھر رہ سکتے ہیں۔ پیرا مفرور نے یہ شرط قبول کر لی۔اس نے پہاڑوں میں پناہ دینے والے وزیری قبائل کو اسی80 اونٹ دان کیے جو اس نے میدانی علاقوں سے لوٹے تھے اور ان کو خدا حافظ کہ کر اپنی بہترین وفادار گھوڑی پر سوار ہو کے ٹانک روانہ ہوا۔ اس گھوڑی نے کئی مواقع پر پیرا کی جان بچانے میں پھرتی دکھائ تھی اور وہ اس کا بڑا خیال رکھتا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے جس دن پیرا ٹانک داخل ہوا اس دن ٹانک میں جشن کا سماں تھا پورا شھر ڈھول اور بین باجوں کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے شھر کے باہر کھڑا تھا۔ لڑکے آگے ڈھول کے ساتھ ڈانس کرتے اسے اپنے گھر لے چلے لوگ بڑھ کر اس کا ہاتھ تھامتے گھوڑی کو چھو لیتے اور سلام کرتے۔ کچھ لوگ ٹرے میں مٹھائی اٹھاۓ اسے پیش کرتے رہے شام کو پوری شھر کی جانب سے کھانے کا پروگرام تھا۔اتفاق سے اس رات پورن ماسی کا چاند نکلا ہوا تھا ہر طرف چاندنی چھٹک رہی تھی اور خوب روشن رات تھی۔ ٹانک کے
خوبصورت ترین ڈانسر ساری رات ناچتے گاتے رہے ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس مفرور پیرا جس نے پورے ٹانک میں دھشت پھیلا رکھی تھی اسکے جرائم سے توبہ کرنے پر ٹانک کے عوام بے انتہا خوش ہوۓ اور خوشی کا اظہار بھی کھل کر کیا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے ایک مفرور کا استقبال کیوں کیا ؟ کیونکہ وہ امن کی قیمت جانتے تھے۔ معاشرہ اس وقت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا ہے جب ہر طرف امن و سکون ہو۔ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے بیس سال دھشت گردی کھا گئی بقیہ وقت جلسے جلوس بجلی کی لوڈشیڈنگ تباہ کر رہی ہے۔ہمارے شھر تمام احتجاجی جلسے بازاروں سے نکلتے ہیں۔ کاروبار بند ۔دکاندار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے اور مزدور خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں۔ افکار علوی کی نظم کے اشعار ہیں؎
مرشد ! میں جل رہا ہوں ، ہوائیں نہ دیجیے۔۔
مرشد ! ازالہ کیجئے ، دعائیں نہ دیجیے۔
مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا۔۔
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر