نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرستش ہو یا عبادت، سب کی اپنی اپنی||ڈاکٹر مجاہد مرزا

پانچ برس پیشتر کی نسبت اس بار مجھے مسجد نبوی کے اندر کے قالین کم صاف لگے اگرچہ عزیزم جہانزیب منہاس نے بعد میں باور کرایا کہ اطراف میں مسلسل تعمیرات کی وجہ سے گرد اڑتی رہتی ہے جو صاف ہونے میں نہیں آتی۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مظاہر پرستی سے بت پرستی تک اور کثیرلالوہیت سے وحدانیت پر ایمان اور اس ضمن میں اپنے اپنے طور پر عبادات آج بھی کروڑوں افراد کرتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرستش اور عبادات کرنے والے سارے ہی گروہ اپنے عمل کو درست اور برحق خیال کرتے ہیں۔ ان گروہوں میں بھی گروہ ہیں جن میں سے کئی اپنے مذہب کے علاوہ دوسری طرح سے پرستش اور عبادات کرنے والوں کو بلکہ اپنے گروہ میں موجود ذیلی گروہوں کی عبادات، رسوم اور عقائد کو نہ صرف درست نہیں مانتے بلکہ کچھ تو اپنے ذیلی گروہوں اور کچھ اپنے سے علاوہ دوسرے عبادتی گروہوں کی جان کے درپے ہیں۔
ہر ایک کو دوسرے کی عبادت کے انداز اور رسوم و عقائد اگر غلط نہ بھی لگیں تو عجیب ضرور لگتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہندووں کی بوزنہ پرستی، گاو پرستی ، مار پرستی اور جانوروں کے سروں والے دیوتاوں کی پرستش عجیب لگتی ہے اور دیگراں کا مسلمانوں کے سجدے میں جسم کا انداز عجیب اور قابل اعتراض لگتا ہے۔ پرستش اور عبادات انسانی اعمال کے عموم سے ہٹ کر اور مختلف طرح کی حرکات اور عمل ہوتے ہیں اس لیے وہ نا آشنا لوگوں کو اور طرح کے لگتے ہیں پھر اور طرح کی چیز ویسے ہی عجیب ہوتی ہے۔
میں چونکہ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوا اس لیے میرا مسلمان ہونا میرا کمال نہیں مگر عقیدے کے حساب سے اللہ کا کرم ضرور ہے۔ مجھے چونکہ عبادات کے اور انداز آتے ہی نہیں اس لیے میں وہی اور اسی طرح کی عبادات کرنے کی سعی کرتا ہوں جو باقی مسلمان کرتے ہیں۔
نو برس پہلے میں حج کرنے گیا تھا۔ مختلف تجربات ہوئے تھے میں نے اپنے مشاہدات اور خیالات کو مفصل رپورتاژ ” ماسکو سے مکہ ” کے نام سے تحریر کی تھی جو آپ بہت سوں کی نظروں سے گذری تھی۔
2019 میں ماسکو سے پاکستان پہنچا اور خلاف معمول لاہور اترنے کی بجائے کراچی اترا جہاں میرا چھوٹا بھائی مقیم ہے۔ ارادہ تھا کہ سات روز کراچی میں قیام کے بعد 31 جنوری کو لاہور چلا جاوں گا مگر یہ معلوم ہونے پر کہ بھائی اپنے کنبے کے ہمراہ 7 فروری کو عمرہ کے لیے جا رہا ہے، میں نے بھی جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بھائی نے مجھ سے پاسپورٹ لے کر بھتیجے کو تھمایا اور کہا معلوم کرو کہ کیا ویزا لگ جائے گا۔ خلاف معمول روس سے ویزا لگوانے کی ہدایت نہ ہوئی اور ویزا لگ گیا۔
مدینہ پہنچے۔ اب ایجنٹوں، عربوں، ہوٹل والوں کا گلہ کیا کرنا وہ تو کمانے کے چکر میں ہوتے ہیں ۔ ہم چھ افراد یعنی چار خواتین اور دو مردوں کو دو افراد کے کمرے میں رکھا گیا ہے اور یہ تخصیصی نہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ البتہ ایسے بھی پیکیج ہوتے ہونگے جو ہزاروں ڈالر فی فرد کے حساب سے ہوں اور عبادت کے ساتھ آسائش کا امتزاج بھی ہوں۔
مگر عام طور پر عمرے کا یہ دورہ نیند کی کمی، استراحت کے فقدان اور تکان کا موجب بنتا ہے۔ رات کو گیارہ بجے بھی سوئیں تو چار بجے جاگنا ہوگا تاکہ سب تیار ہو کر کم از کم پانچ بجے حرم پہنچ سکیں کیونکہ بعد میں جگہ ملنا دشوار ہو جاتا ہے۔
مسجد نبوی کے باہر کا احاطہ جو بہت بڑا ہے اور جہاں دیدہ زیب اور خوبصورت بڑے بڑے چھتر نصب ہیں وہ بیشتر مقامی لوگوں کے لیے سیر، تفریح تا حتی پکنک کا مقام بھی ہے۔ البتہ اندرونی حصہ خالصتا” عبادت کے لیے ہے۔
پانچ برس پیشتر کی نسبت اس بار مجھے مسجد نبوی کے اندر کے قالین کم صاف لگے اگرچہ عزیزم جہانزیب منہاس نے بعد میں باور کرایا کہ اطراف میں مسلسل تعمیرات کی وجہ سے گرد اڑتی رہتی ہے جو صاف ہونے میں نہیں آتی۔
روضہ رسول کے آگے سے گزرنے اور ریاض الجنہ میں داخل ہونا پہلے ہی کی طرح مشکل رہا۔ بہت زیادہ دوستوں نے سلام پہنچانے کو کہا جو اجتماعی طور پر پہنچا دیے جبکہ پاکستان میں السلام علیک یا رسول اللہ کہنے والوں کو آپ بریلوی کہتے ہیں۔
جنت البقیع میں سے تمام صحابہ، دختران پیمبر اور امہات المومومنین کے مزاروں کی نشانیاں فرو کر دی گئی ہیں البتہ مسجد نبوی میں تین روضہ جات برقرار ہیں ۔ مجھے سعودی حکومت کا یہ اختلاف عمل سمجھ نہیں آیا۔ دوسری بات عراق سے درآمد کردہ کھجوروں، ترکی سے درآمد کردہ جائے نمازوں اور چین سے درآمد کردہ تسبیحوں کو تقدس کا مقام دے کر ان کی خریداری شاید مارکیٹنگ کی کامیابی قرار پاتا ہو۔
حج اور عمرہ کاروباری افراد جیسے ٹریول ایجنٹوں، ہوٹل والوں اور دوسری اشیاء بیچنے والوں اور خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے کمائی کا ذریعہ ہیں۔ اس کے ساتھ اور طرح طرح کے بے تحاشا لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ سب انسان ہیں ۔ آنے والے لوگ ہر قبیل کے ہوتے ہیں جیسے دیہاتی ، شہری، کم آمدنی والے، مناسب آمدنی والے جن کا معیار زندگی مختلف ہوتا ہے۔ یوں کمانے والے افراد جہاں جیسا چل جائے چلاتے ہیں ۔
ہم مکہ پہنچے۔ ہوٹل سامان رکھا اور عمرہ ادا کرنے نکل گئے۔ ہمیں اپنی خواتین کا ڈیڑھ دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ جب وہ حرم سے نکلیں تو چاروں ننگے پاوں تھیں۔ ان سب کی جوتیاں غم ہو گئیں۔ اب چار جوڑے چپل والا تھیلا کسی اور کا ہونا یا تو عجیب اتفاق ہو سکتا ہے یا انتہائی بھلکڑ پن یا جان بوجھ کر اٹھا لینا یعنی چوری کر لینا۔
واپس پہنچے تو غور کیا کہ نہ کمبلوں تلے چادریں ہیں نہ تولیے۔ ہوٹل والوں سے چیزیں ہم بمشکل ایک بجے رات لے پائے۔ کاونٹی پر عرب نوجوان کچھ سننے کو تیار نہیں تھا پھر شفیق نامی ایک پاکستانی اہلکار کے ذمے لگا دیا۔ چالیس منٹ تک کچھ نہ پہنچا تو میں اور بھائی پھر سے چھٹی منزل سے اتر کاونٹر پہنچے۔ فون سے کھیلتے عرب نوجوان نے کہا شفیق سے پوچھو۔ شفیق تھا نہیں تب ایک خلیق نوجوان لابی سے اٹھ کر ہم تک پہنچا۔ سعد نامی وزیرستان کا یہ نوجوان سرائیکی، سندھی روانی سے بولتا ہے ۔ اردو فصیح مگر لہجہ پشتو۔ اس نے بہت جلد چادریں اور تولیے کمرے میں پہنچا دیے۔ اب اور لوگ ہوتے تو بیچارے گندے کمبل اوڑھ سو رہتے۔
میری بیٹی، جو کئی برس سے جدہ میں مقیم ہے ، کے بقول ہمیں یہاں آنے والوں اور یہاں رہنے والوں کو مافوق الفطرت سمجھ کے حج اور عمرہ کے اعمال کو عام انسانی عادات اور قباحتوں سے مبرا نہیں سمجھنا چاہیے یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کو بدعہ بدعہ اور حرام حرام پکارنے کے لیے اہلکار متعین کرنے پڑے ہیں ۔۔ کل تو کعبہ سے چند قدم کے فاصلے پر مطاف میں ایک بچے کا پاخانہ خطا ہو گیا۔ صفائی کے عملے کو احاطہ بنا کر اسے صاف کرنا اور فرش پاک کرنا پڑا۔
لوگ وفور ثواب کے شوق میں باقی لوگوں کے لیے تکلیف کا موجب بنتے ہیں جیسے کل عشاء کی نماز سے بیس پچیس منٹ پہلے ہی لوگوں نے کعبہ کے قریب صفیں بنا لیں یوں لوگوں کے لیے طواف کرنا مشکل ہو گیا جبکہ چاہیے یہ کہ نماز سے بہت پہلے اگر صفیں بنانی ہی ہیں تو کعبہ سے دور کے حلقوں میں بنائیں تاکہ لوگ آرام سے طواف کر سکیں۔
وفور ثواب و دعا کی طوالت کا شکار میں بھی رہا۔ چھوٹا بھائی دے نفل پر نفل پڑھتا ہے اور دعائیں تو جیسے منہ ہی منہ میں ” مسدس حالی ” پڑھ رہا ہو۔ کوئی آدھ گھنٹہ سے زیادہ دعا مانگتا ہے ۔ میں سعودی علماء کا سا بن دعا شخص تو نہیں ہوں البتہ دعا میں اختصار برتتا ہوں کیونکہ اللہ سب جانتا ہے۔
اب دیکھیے دن کے دس بجے ہیں اور میرے ساتھ والے سب سو رہے ہیں ۔۔ مجھے نیند نہیں آتی اس لیے آپ کے پڑھنے کو احوال لکھ دیا۔ چالیس منٹ بعد سب کواٹھ کر تیار ہونا ہوگا تاکہ ظہر پڑھنے حرم جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author