ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے تمام سیاسی، سماجی اور تہذیبی نقائص کے باوجود اپنا وطن مولد کیوں اچھا لگتا ہے؟ اس کا جواب کوئی یہ کہہ کے دے کہ حب الوطنی کے سبب اور کیا، تو وہ مجھے یا تو معصوم لگے گا یا روایتی پروپیگنڈائی نعرہ بازی سے متاثر فرد۔ جہاں آپ پیدا ہوئے ہوں وہ ویسے تو ایک کمرہ ہوگا جو کسی ایک گھر یا ہسپتال میں ہوگا بلکہ اس گھر کی ایک چارپائی یا اس ہسپتال کی ایک میز مگر یہ گھر یا ہسپتال کسی شہر میں ہوگا اور یہ شہر کسی ایک ملک میں، اس گھر یا ہسپتال والے شہر میں تو آپ چونکہ پل بڑھ کر بڑے ہوئے ہونگے تبھی وہ گھر، وہ محلہ یا علاقہ اور وہ شہر آپ کو اچھے لگیں گے چونکہ وہ شہر ایک خاص ملک میں ہوگا تو وہ ملک بھی آپ کو اس لیے اچھا لگے گا کیونکہ آپ کو مسلسل بتایا جاتا رہے گا کہ یہ آپ کا ملک ہے۔ اس سے پیار کیا جانا حب الوطنی کہلاتا ہے اور جو اس سے پیار نہیں کرے گا وہ غدار کہلائے جانے کا مستحق ہوگا، ایسے شخص کی کم سے کم سزا اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا اور زیادہ سے زیادہ سزا موت ہوگی چنانچہ آپ اس ملک سے پیار نہ کرنے کا تصور ہی کرنے سے قاصر ہونگے، چنانچہ آپ کو اس ملک سے بھی پیار کرنا ہی ہوگا۔ جی ہاں بیشتر اوقات پیار کرنا مجبوری ہوتی ہے، نفسیاتی، سماجی اور قانوننی مجبوری۔
مگر جس ملک کو آپ جینے کے قابل نہیں بنا سکتے، جس ملک کے قوانین سے آپ ہمہ وقت شاکی ہوں یا جس ملک کے قوانین آپ کو ہمہ نوع تحفظ دینے میں ناکام رہیں، جس ملک کو آپ کسی دور یا نزدیک کے ملک کے ساتھ نفرت یا دشمنی کی بنیاد پر جیسا ہے سو چلنے دو کے اصول پر قائم کیے رکھیں تو ایسی محبت کو کیا برحق خیال کیا جا سکتا ہے؟ نہیں نا۔ یہ بھی کبھی سوچیے کہ آپ اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر واقع ممالک سے پیار کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا حب الوطنی محض ملکیت کے تصور سے وابستہ ہے جبکہ درحقیقت آپ کے اس ملک پہ آپ کا تصرف محض اتنا ہے کہ آپ کو وہاں کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ آپ اس ملک میں رہ کے کما کھا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
میں بھی کن ٹامک ٹوئیوں میں پھنس کرکے رہ گیا ہوں۔ بات تو یہ کرنی ہے کہ ناقص انتظامات اور ناقص رویوں میں پھنسے لوگوں کے اس ملک سے آپ پیار کیوں کرتے ہیں جس میں آپ پیدا ہونے کے سزاوار ہوئے تھے؟ جہاں لوگوں کے لیے مناسب یا متنساب زندگی بسر کرنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوں۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں بھی تناسب کوئی درست نہیں ہے کہ ایک جانب بل گیٹس، مارک ذکربرگ اور جیف بیزوس جیسے روپوں میں کھرب پتی ہیں تو دوسری جانب تنخواہوں اور قرضوں پر جینے والے لوگ۔ مگر وہ عدم تناسب اس قدر کھلتا ہوا نہیں جیسا پاکستان، ہندوستان، افغانستان، ایتھیوپیا وغیرہ میں ہے۔
دیکھیے میں سولہ ماہ کے بعد کل صبح ہی اپنے وطن مولد پہنچا ہوں۔ مجھے اپنے فون کا بیلنس کروانا تھا چنانچہ میں جیسے یہاں رواج ہے گرچہ ہے بہت نادرست، گھر کے چپل گھسیٹتا اور گھر میں پہنے شلوار قمیص کے ساتھ ہی باہر نکل لیا۔ ایک گلی کی چھوٹی چھوٹی دکانوں میں پانچ پانچ سات سات آدمی گھسے ہوئے، کسی نے بھی ماسک نہیں پہنا ہوا تھا، لوگوں کے کپڑے میرے کپڑوں ہی کی طرح نامناسب۔ کوئی پان چبا رہا ہے تو کوئی کھڑا کینو چھیل کے چھلکے راستے پہ ہی پھینک کے کھڑا کھڑا کھا رہا ہے۔ یہاں کے رواج کے مطابق ہر شخص چچا یا انکل کہہ کرکے تعظیمی رشتہ داری گانٹھ رہا ہے۔ رکشا ٹانگوں میں گھس رہا ہے، موٹر سائیکل قریب چھو کے گذر رہا ہے، ریڑھی والا راستہ مانگے بن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میں بھنا کے رہ گیا۔ اگر میں کار میں بیٹھا ہوتا تو اس سب سے محفوظ تو رہتا مگر آنکھیں تو نہیں موندی جا سکتی ناں۔ ذہن میں تو یہ سب جمع تقسیم ہو کرلاشعور کو پراگندہ کر ہی رہا ہوتا۔
گھر لوٹ آیا۔ گلہ کیا۔ اس بارے میں سٹیٹس فیس بک پہ آویزاں کیا۔ بیٹھا اور سوچا تو بھی دل سے صدا آئی کہ مجھے یہاں کی ہر چیز بری تو لگتی ہے مگر مجھے اس ملک سے اور اس ملک کی بیچارہ آبادی سے پیار ہے۔ مگر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ یہاں سب وہی زبان بولتے ہیں جو میری زبان ہے، یہ سب پہننے اور کھانے میں آزاد محض ہیں۔ یہاں سڑک پہ گالیاں بھی بکی جا سکتی ہیں اور غالب، اقبال اور فیض سے وابستہ غلط اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہاں وہی کھانے کھائے جاتے ہیں جو مجھے مرغوب ہیں کیونکہ میں بچپن سے ویسے ہی پکوان کھانے کا عادی رہا تھا۔ یہاں میرے بہن بھائی ہیں۔ یہاں میرے عزیز اقارب ہیں۔ یہاں تہوار وہی ہیں جن سے میں شعوری عمر کو پہنچتے ہی آشنا ہونا شروع ہوا تھا۔ یہاں بہت سے لوگوں سے دوستی ہے۔ یہاں کا ادب اور شاعری میری سمجھ میں آتے ہیں۔ یہاں کے سیاست دان مجھے اپنے لگتے ہیں۔
البتہ دل دکھتا ہے۔ میں چونکہ تین دہائیوں سے زیادہ روس میں رہا ہوں جہاں ہر شے صاف ستھری ہے۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ انسانوں کے لیے ہے، انسانوں کے روپ میں بھیڑ بکریوں کے لیے نہیں۔ جہاں کورونا کے دور میں زیر زمین ریلوے سٹیشنوں کے داخلے اور راہداریوں میں اینٹی سیپٹک مفت فراہم کرنے والی سینکڑوں خود کار مشینیں نصب ہیں۔ جہاں حصول تعلیم اور علاج معالجہ سب کا حق اور بلا تخصیص مفت ہے۔ جہاں لوگ نہ سڑک پر گالیاں بکتے ہیں اور نہ کچھ کھاتے ہیں۔ جہاں لوگ مناسب لباس میں ہی باہر نکلتے ہیں۔ جہاں باہر جاتے ہوئے پہنے جوتے گھر کی دہلیز پر اتارے جاتے ہیں اور جہاں باہر پہنا لباس لیے آپ کسی کے تو کیا اپنے بستر پہ بھی نہیں بیٹھتے، تو ایسا میرے وطن مولد میں کیوں نہ ہو سکا اور کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس سوال کے جواب میں سب ایک دوسرے کو ملزم ٹھہرانے لگ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر