اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں!||عفت حسن رضوی

بیربل نے وزیر کو حکمت کی بات بتائی کہ ''بادشاہ، آمر یا وزیراعظم ملک کا حاکم کوئی بھی ہو، پیچھےنفسیات ایک ہی کارفرما ہوتی ہے۔ حاکم کو اپنی ناکامی کا ادراک سہی مگر امور مملکت کی ٹوہ لینے والے اچھے نہیں لگتے، اداروں کی کارکردگی پہ تنقید کرنے والے پسند نہیں ہوتے ۔‘‘

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہنشاہ اکبر اور ان کے دست راست بیربل ملکِ عدم میں شطرنج کی بساط بچھائے بیٹھے تھے کہ ایسے میں نیچے اِس دنیا کی ایک سلطنت خداداد سے ایک وزیر کی کال آ گئی

گھبرایا ہوا وزیر کہنے لگا، ”ڈیئر بیربل ایک مشکل آن پڑی ہے، مشورہ درکار ہے، ہمارے بادشاہ کو کچھ نہیں سوجھ رہا، ہماری کم بختی آئی ہوئی ہے۔‘‘

بیربل نے پوچھا کہ وزراء و مشیران کی فوج ظفر موج میں بھلا حکمت کی کیا ضرورت لیکن مسئلہ کیا ہے؟

وزیر بولا، ”بادشاہ کو رات نیند نہیں، دن کو چین نہیں۔ اسے عجیب شور سنائی دیتے ہیں، وہ مہنگائی سے بدحال رعایا دیکھ کر کشمکش میں پڑ جاتا ہے کہ مشیر اطلاعات نے تو بتایا تھا مملکت میں دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں پھر یہ بھوکے کون ہیں؟ چور ڈاکووں اور لٹیروں کے خلاف اس کا غیض و غضب دیدنی ہے لیکن وہ کچھ کر نہیں پاتا۔ وہ سلطنت کا خالی خزانہ دیکھ مشیر سے جواب مانگتا ہے مگر کچھ کر نہیں پاتا۔‘‘

وزیر نے فون کی دوسری طرف ایک لمبی سی آہ بھری اور پھر گویا ہوا، ”مسئلہ یہ ہے کہ ان مسائل کا حل بادشاہ کے بس کا روگ نہیں، حبیب سے طبیب تک سب آزما لیے لیکن مملکت کے کرائسسز اور بادشاہ دونوں لاعلاج لگتے ہیں۔ مملکت کا قاضی، وزیر، مشیر، سپہ سالار، خزانچی، ایلچی کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں۔ اوپر سے انا کا بھی مارا ہے، ناکامی ماننے کو تیار نہیں، بادشاہ جو ہوا۔‘‘

بیربل کے منہ سے بے اختیار نکلا، ”اجی بادشاہ کو مملکت کے مسائل بتاتے کیوں ہیں؟ کسی باغ کی سیر کرایے۔‘‘

 وزیر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا، ”آپ کا وقت اور تھا جب بادشاہ کو لونڈیاں اور محلاتی سازشیں مصروف رکھتی تھیں اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ باغ ہو یا حرم سرا، بادشاہ کی جیب میں پڑا موبائل فون فساد کی جڑ ہے، بس دو چار خبریں پڑھنے اور ویڈیو دیکھنے کی دیر ہے کہ کپکپی چھوٹ جاتی ہے، دیوان خاص میں لگا ٹی وی اختلاج قلب بڑھاتا ہے، دیوان عام میں سرکش رعایا کا سامنا ہو جاتا ہے۔ مشیران اور وزراء کی ملاقاتوں میں کوئی نہ کوئی شرارت کر جاتا ہے، جو بادشاہ کو آئینہ دکھاتا ہے اُدھر شاہی ایوان میں ہلچل مچ جاتی ہے۔‘‘

 بیربل نے وزیر کو حکمت کی بات بتائی کہ ”بادشاہ، آمر یا وزیراعظم ملک کا حاکم کوئی بھی ہو، پیچھےنفسیات ایک ہی کارفرما ہوتی ہے۔ حاکم کو اپنی ناکامی کا ادراک سہی مگر امور مملکت کی ٹوہ لینے والے اچھے نہیں لگتے، اداروں کی کارکردگی پہ تنقید کرنے والے پسند نہیں ہوتے ۔‘‘

 پھر کچھ توقف کے بعد بیربل گویا ہوا، ”سلطنت کے اس خرابے کا علاج تو مرے پاس بھی نہیں، کیوں نہ بادشاہ، اس کے حواریوں، سلطنت کے اداروں کے حوالے سے ہر تنقید فیک نیوز قرار دی جائے، فیکا قانون کیسا رہے گا ؟‘‘

وزیر نے چہک کہ کہا  ”واہ! فیک نیوز سے فیکا، بس اسی لیے تو عرضی آپ کے پاس لائے ہیں ۔‘‘

بیربل نے وزیر کو ‘فیکا قانون‘ کی مندرجات لکھوانے شروع کیے۔

  • سچ اور جھوٹ کے تعین کا اختیار صرف سلطنت کے پاس ہے۔ سلطنت کے مفاد اور وقار کے لیے کس بات کو سچ ماننا ہو گا، اس کا تعین صرف بادشاہ کے حواری کریں گے۔
  • سچ اور جھوٹ کے تعین کے لیے سلطنت کے خاص نمائندے مقرر کیے جائیں گے۔ ہر چوک چوبارے، روایتی اور سوشل میڈیا پہ انفارمیشن کنٹرول کا دستہ مقرر ہو گا، جو عام افراد اور صحافیوں کی زبانوں پہ کان دھرے گا، یہ دستے چھاپہ مار کارروائی کر سکیں گے۔
  •  ہر وہ خبر، بات، ٹویٹ، بلاگ، تجزیہ، رائے جو بادشاہ، بادشاہ کے اہل خانہ، بادشاہ کے دوست احباب، بادشاہ کے وزراء یا مشیران، بادشاہ کے ساتھی، حواری اور سلطنت کے اعلیٰ افسران کی طبعیت میں گرانی کا سبب بنے ‘فیک نیوز‘ تصور ہو گی۔
  • بادشاہ، سلطنت یا امور مملکت پہ رائے، طنز یا طعنہ چاہے مطبوعہ شکل میں ہو یا غیر مطبوعہ ہر دونوں صورتوں میں قابل گرفت ہو گا۔ جس کا اطلاق محلے کے تھڑوں، چائے کے ہوٹلوں سے لے کر نیوز رومز، یوٹیوب، اخبار اور  ٹی وی تک ہو گا۔ سات پردوں میں کی جانے والی سرگوشی بھی اگر بادشاہ یا ان کے حواریوں کے متعلق ہوئی تو لائق گرفت ہو گی۔
  • رعایا دن کی مصروفیت کا آغاز سلطنت کی ترقی اور بادشاہ کی عظمت کے گیت گا کر کرے گی۔ اخبارکے صفحہ اول پہ بادشاہ کی مسکراتی تصویر، ٹی وی نشریات میں بادشاہ کی اہل خانہ کے ہمراہ مصروفیت، شاندار ایوان، عسکری قوت، وزراء کی شبانہ روز محنت، کِھلتے پھول، بھرے بازار، چمکتی گاڑیاں، اونچی عمارتیں، جدید مشینیں، کھیلتے کھلاڑی، کھاتے پیتے بچے، ہنستی عورتیں اور خوشحالی کا پھل کھاتے مرد لازمی دکھانے ہوں گے۔
  • نیوز میڈیا کو اپنی خبریں بند کرنا ہوں گی، انفارمیشن کنٹرول کے دستے یقینی بنائیں گے کہ تمام صحافتی ادارے صرف پریس ریلیز شائع کریں۔
  • عالمی نشریاتی اداروں کے لیے سلطنت الگ دفتر قائم کرے گی، غیر ملکی صحافیوں کو سلطنت کا نمائندہ دارلخلافے کے دلکش باغات کی سیر اور جنگلوں میں شکار کرائے گا، عوام سے ملاقات ممنوع ہو گی۔
  • دیوان عام بند ہو گا۔ مملکت کی ترقی کا نظارہ بذریعہ ہیلی کاپٹر ہو گا اور جلسوں میں عوام کا خصوصی دیدار کرایا جائے گا، جہاں مرد و زن کا خوشی سے محو رقص ہونا لازمی قرار پائے گا۔
  • پرنٹ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، نجی محفلوں، یہاں تک کہ گھریلو گفتگو میں بھی بادشاہ کے نام سے ساتھ ظل ِ الٰہی لگایا جائے گا، یہ کہتے ہوئے سر کو نِگوں رکھنا ہو گا۔
  • سلطنت کے جاری کردہ ‘فیکا قانون‘ پہ عمل نہ کرنے والوں کو دیوار میں چنوا دیا جائے گا۔

 بیربل کے دس نکات ختم ہوئے تو وزیر گھگیاتے ہوئے کہنے لگا،  ”جان کی امان پاؤں تو عرض کروں! اور تو سب ٹھیک ہے مگر دیوار میں چنوانا شروع کیا تو سلطنت میں صرف بادشاہ، اس کے حواری اور چُنی ہوئی دیواریں ہی بچیں گی۔‘‘

یہ بلاگ  ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: