حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"317”نفوس پر مشتمل تاریخ ساز سندھ بچائو لانگ مارچ کے آغاز پر مرشد نے ارشاد فرمایا سندھ کو ڈاکو راج سے نجات دلانے کے لئے آئے ہیں، یہ بھی فرمایا ہم پندرہ سال کا حساب لیں گے۔ فقیر راحموں نے کہا شاہ جی ان پندرہ سالوں میں وہ سوا چار سال بھی شامل ہوں گے جب مرشد ڈاکو راج پارٹی کے وزیر خارجہ تھے؟ بڑی مشکل سے اسے سمجھایا کہ ایسی باتیں نہیں پوچھا کرتے۔ مرشد جو بھی کہیں مرشد کو حق ہے۔
مرشد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پیپلزپارٹی والے اپنے لانگ مارچ میں شریک افراد کو تیس ہزار روپے فی کس دے رہے ہیں۔ بڑے ظالم ہیں یہ پیپلزپارٹی والے کم از کم فقیر راحموں سے ہی پوچھ لیتے آج کل مہنگائی اور مندہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ تیس ہزار روپے فی کس دینے تھے تو فقیر بھی اپنے چار خلفا اور تین مریدوں سمیت لانگ مارچ میں شرکت کرتا سیر کی سیر ہوجاتی اور آمدنی کی آمدنی۔
مگر افسوس یہ پیپلزپارٹی والوں کو کبھی عقل نہیں آئے گی "سچے "حامیوں کو چھوڑ کر دیہاڑی داروں پر پیسے لٹاتے ہیں اور یہ دیہاڑی دار وقت آنے پر پارٹی بدل کر اسے کوس رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے مرشد بھی خیر وکھری قسم کی چیز ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر پاشا گیری کے جھانسے میں آکر بھٹو بننے نکل کھڑے ہوئے تھے پھر کسی نے بتایا کہ بھٹو بننے کے لئے پھانسی پر جھولنا پڑتا ہے یا سڑک پر گولی کھانا پڑتی ہے۔ بولے، نہ بابا جان ہے تو جہان ہے۔ پیروں کی یہی عادت اچھی ہے ’’قربانیاں‘‘ دینے کے لئے وافر مقدار میں مرید دستیاب رہتے ہیں۔ پیسہ بھی مریدوں کا ہی ہوتا ہے۔ مرید کے گھر میں مٹی کا دیا ہونہ ہو پیر کا گھر روشن رہتا ہے۔
ہمارے دوست بچل آغا کہتے ہیں مرشد کی خانقاہی جماعت نے سندھ بچاو لانگ مارچ کو ’’جنت مارچ‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیا مطلب فقیر راحموں نے پوچھا؟ بچل آغاز بولے، سائیں جماعت غوثیہ والے کہہ رہے ہیں مرشد کے لانگ مارچ میں شرکت زیارت ملتان کے ساتھ جنت پکی۔ خیر مرشد جانے مرید ہمیں کیا، اپنی روزی روٹی تو اس قلم مزدوری سے قائم ہے۔
کاش اماں سے دم درود ہی سیکھ لیتے۔ اب کاش میں بھی کیا رکھا ہے۔ گزرے وقت کے غلط فیصلوں کا بوجھ اٹھائے باقی ماندہ سفر حیات تو طے کرنا ہی ہے۔ رو کر طے کریں یا ہنس کر۔
مرشد کی تقریریں ویسے سننے والی ہوتی ہیں۔ انداز دلیپ کمار کا، تاثرات مظہر شاہ مرحوم والے، کبھی کبھی تو مصطفی قریشی کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ویسے ایک بات ہے اگر سیاستدانوں کے لئے آسکر ایوارڈ ہوتا تو مرشد ہر سال آسکر ایوارڈ کا میلہ لوٹتے۔
مرشد نے گھوٹکی سے شکار پور تک پھٹے توڑ خطابات میں سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کو چھلنی چھلنی کرکے رکھ دیا ہے۔
فقیر راحموں کو مرشد کے سندھ بچائو لانگ مارچ کو دیکھ کر پتہ نہیں محمد بن قاسم کیوں یاد آرہے ہیں۔ آتے ہیں تو آتے رہیں اپنے مرشد اور قاسم دونوں سے اچھے مراسم نہیں رہے۔ یہ سیاست بھی بڑی عجیب چیز ہے جس پارٹی اور قیادت کے آج آپ گیت گارہے ہوتے ہیں کل دونوں کا پوسٹ مارٹم کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
سندھ "تباہ دے”، بس مرشد کا لانگ مارچ بحالی سندھ کا منصوبہ ہے۔ فقیر ر احموں چوک دولت گیٹ بارے کچھ بتارہے ہیں لیکن اس جیسے شرپسند شخص کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں۔
پچھلی شب بچل آغا کہہ رہے تھے، مرشد ہیں کمال کے شخص، عرض کیا سارے مرشد کمال کے ہی ہوتے ہیں، کمال بنا بندہ مرشد بھی تو نہیں بن پاتا۔ سندھ بچائو لانگ مارچ کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ سندھ "تباہ دے "۔ مرشد سندھ کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں۔
بالکل ایسے جیسے چوک دولت گیٹ ترقی یافتہ ہے۔ خیر وزیر خارجہ کا یہ کام تو نہیں نہ کہ وہ گلی محلوں کے ترقیاتی منصوبے کرواتا پھرے۔ یہ تو عالمی سفارتکاری کی وزارت ہے سارے جہاں کا درد ہمارے دل میں ہے والا معاملہ ہوتا ہے۔
یہ پیپلزپارٹی والے بلاوجہ ہی ہمارے مرشد پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اب دیکھیں نہ کل انہوں نے خبر اڑادی کہ مرشد لانگ مارچ میں لوگوں کی کم تعداد سے مایوس ہوکر ہیلی کاپٹر پر واپس چلے گئے۔ اچھا اس پروپیگنڈہ کی وجہ یہ ہے کہ پی پی پی والے اپنے لانگ مارچ کی الیکٹرانک میڈیا پر کوریج نہ ہونے کی وجہ سے گھبرائے ہوئے ہیں۔
البتہ مجھے ایک سرکاری محکمہ پر حیرانی ہے جس کے افسران گزشتہ روز اخبارات کے دفاتر میں فون کرکے کہتے رہے کہ سندھ بچائو لانگ مارچ کی جو تصاویر ہم بھجوائیں وہ لگائی جائیں لیکن بُرا ہو اس سوشل میڈیا کا جس نے سرکاری تصویروں کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوڑدیا۔
خیر چھوڑیئے یہ کچھ زیادہ نہیں ہوگیا سندھ بچائو لانگ مارچ کا تذکرہ، اتنے تو بندے نہیں اس لانگ مارچ میں جتنے الفاظ لکھ ڈالے اب تک۔ سچ پوچھئے تو ہم خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ مرشد بھی محمد بن قاسم کی طرح سندھ کو فتح کرہی لیں۔
لیکن ان کے میمنہ و میسرہ کے سالاروں کی حالت بہت پتلی ہے۔ اب نام نہ پوچھ لیجئے گا۔ اچھے ویسے بالفرض اگر سندھ فتح ہو بھی جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ سادہ سا جواب ہے کہ کچھ بھی نہیں، 18ویں ترمیم کو رول بیک کرانے کا خواب دیکھنے والوں کی آرزو پوری نہیں ہوتی دیکھائی دے رہی
ایک بات اور ہے وہ یہ کہ کیا باقی ماندہ پاکستان میں تعمیروترقی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں کیا؟ مرشد نے خود پچھلے ساڑھے تین سال میں ملتان میں کتنے کالج اور ہسپتال بنوائے؟مرشد سیانے آدمی ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہسپتال بنائے جائیں تو دم درود کا کاروبار مندے کا شکار ہوسکتا ہے۔ کالج بنتے ہیں تو تعلیم آتی ہے ویسے یہ کالجوں کی تعلیم بگاڑ بناکچھ نہیں پاتی، لکیر کا فقیر ہی بناتی ہے۔
مرشد کے سندھ بچائو لانگ مارچ نے سکھر سے شکار پور کا راستہ اختیار کیا ہے اندرون سندھ کے ان علاقوں سے ہوتا ہوا کراچی پہنچنے گا جہاں مریدوں کی کچھ تعداد مقیم ہے۔ آپ اس مارچ کو زیارت عام مارچ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ پیر کون سا روز روز گھروں سے نکلتے ہیں پتھر ایک جگہ پڑا ہی وزنی ہوتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا پر مرشد کے لانگ مارچ کی ’’لہریں بہریں‘‘ ہیں۔ کیوں نہ ہوں ہم ان دوستوں سے متفق نہیں ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ سندھ بچائو لانگ مارچ تحریک عدم اعتماد کی گھبراہٹ کو دور کرنے کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ گھبراہٹ کیسی، حکومت مضبوط ہے۔
یقین نہ ہو تو آپ شیخ رشید اور فواد چودھری کے بیانات پڑھ لیجئے۔ مزید تسلی کے لئے مراد سعید کی طرف سے ریحام خان کو بھجوایا گیا قانونی نوٹس پڑھ لیں۔
کل مرشد نے یوکرائن کے وزیر خارجہ کو فون کرکے وظیفہ بھی بتایا ہے۔ امید ہے کہ اگر یوکرائن کے وزیر خارجہ نے 9دن وہ وظیفہ پڑھا تو روس کو دانتوں پسینہ آجائے گا۔ آپ بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔
کالم یہاں تک لکھ چکنے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ مرشد کواس قدر محبت سے یاد کرنے کی وجہ آخر کیا ہے۔ بہت غور کرنے پر ایک ہی بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ مرشد ہمارے ملتانی بھائی ہیں۔ یقین کیجئے دعاگو ہوں کہ سندھ بچائو لانگ مارچ کامیاب ہو کیونکہ پیر سئیں کا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ ویسے تو لانگ مارچ پیپلزپارٹی کا بھی کل اتوار کی دوپہر میں کراچی سے روانہ ہوچکا یہ لانگ مارچ جانے اور پپلزپارٹی،
ہاں اگر مرشد کے ارشاد کے مطابق پیپلزپارٹی ہمیں بھی فی کس 30ہزار روپے دیتی تو اس لانگ مارچ کے حق میں کالم لکھ ہی سکتے تھے نہیں دیئے اس نے پیسے تو اب بھگتے، ہم اپنے ملتانی مرشد کے لانگ مارچ پر کالم لکھ رہے ہیں۔
آپ یقین کیجئے کہ ہم اپنے ہمزاد فقیر راحموں کی اس بات سے بالکل بھی متفق نہیں کہ سندھ بچائو لانگ مارچ کی کامیابی کا اشارہ استخارے میں مل گیا تھا۔ یہ فقیر راحموں دل ہی دل میں یوسف رضا گیلانی کا حامی ہے اس لئے مرشد کی سیاست میں سے کیڑے نکالتا رہتا ہے۔ خیر باقی باتیں پھر سہی آج کے کالم میں اتنی ہی بہت ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر