گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماچہ یا بڑی چارپائی ہمارے چونک اور حجرے کی بنیادی ضرورت ہے۔اس پر بیٹھ کے محفل جمتی ہے قومی و بین الاقوامی سیاست ڈسکس ہوتی ہے اسی ماچے پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا ہے۔یوں سمجھیں ماچہ ہمارے دیہات کا صوفہ سیٹ ۔بیڈ روم ۔ ڈائننگ ٹیبل اور میٹنگ روم ہے۔عام طور پر چونک کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی جاتی ہے جہاں پانچ وقت نماز کا اہتمام ہوتا ہے۔ سلطان باہو ؒ نے کہا تھا۔
؎
دل دریا سمندروں ڈونگھے ، کون دلاں دیاں جانے ہُو۔۔۔
وچے بیڑے وچے جھیڑے ،وچے وانجھ مہانے ہُو ۔۔۔۔۔
نوٹ ۔میری اس پوسٹ کے کمنٹس میں ممتاز ماہر تعلیم ۔مصنف اور دانشور جناب ریاض انجم صاحب نے اپنی ماچے پر بیٹھ کے چائے پینے کی تصویر بھیجی تو وہ بھی ان کے شکریے کے ساتھ پوسٹ میں لگا دی۔
ڈیرہ والوں کے خواب ۔۔
پارٹیشن سے پہلے ڈیرہ میں ہندو کافی تعداد میں رہتے تھے جو تعلیم ۔بزنس اور دولت میں سب سے آگے تھے۔ ان لوگوں نے ڈیرہ کی تعمیر و ترقی میں بڑا کام کیا۔سکولز ۔کالج۔ہسپتال اور فلاحی ادارے کھڑے کیے۔
شھر کی صفائ ستھرائ کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کے جانے کے بعد سارا انتظام خود ہمارے ہاتھوں آ گیا۔ ہم نے بنے بناۓ اداروں کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
75 سال سے ڈیرہ وال آنکھوں میں خواب سجاۓ گھوم رہے ہیں کہ یہاں امن ہو ۔دھشت گردی و ہڑتالیں نہ ہوں ۔بازار سکول کالجز یونیورسٹی کھلے ہوں۔عدالتیں انصاف دیں دفتروں میں کرپشن نہ ہو ۔دھاڑی دار مزدور رہڑی رکشے والے گھر خالی ہاتھ نہ لوٹیں۔ ویلڈرز۔فوٹو کاپی پینافلیکس والے یہ دعا کر کے گھر سے نکلتے ہیں کہ شالا بجلی نہ جاۓ اور ان کے بچے بھوکے نہ سوئیں ۔
غریب عوام کے یہ خواب کون پورے کرے گا؟
چمن کو مالی نے کیا اس لیے خوں سے سینچا تھا؟
کہ اس کی اپنی نگاہ کرم بہار کو ترسے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر