مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ساری جاتی دیکھ کے آدھی دیجیو چھوڑ ۔۔۔۔۔۔||ملک سراج احمد

فلاحی ریاست بنانے کے دعویدار میرے ہینڈسم کپتان کے رواں عہد حکومت میں ترقی کی شرح میں کمی ہوئی ، افراط زر میں اضافہ ہوا،گردشی قرضے دوگنا ہوگئے ، بیرونی قرضوں میں تاریخی اضافہ ہوا۔مہنگائی کی شرح میں اضافہ نے کمر توڑ دی ۔

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موجودہ حکومت نے باربار بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کیا جب اس اضافہ پر عوام نے شور مچایا تو حکومتی ترجمانوں کی فوج نے میڈیا پر بیان دئیے کہ وطن عزیز اس وقت بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے ۔عوام جب خاموش نہیں ہوئی تو یورپ اور امریکہ اور ہمسایہ ممالک کے اعدادوشمار پیش کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی اور پٹرول کے نرخوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا۔مگر مجال ہے جو میرے حاکم کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔صرف یہی نہیں بلکہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو پر لگ گئے مگر کپتان ڈٹا رہا اور ٹس سے مس نہیں ہوا۔
گندم کی کاشت کے وقت ڈی اے پی اور یوریا کی قیمت دوگنا سے بھی بڑھ گئی غریب کاشتکار کنٹرول ریٹ پر کھاد کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا مگر کپتان امور مملکت میں اس قدر مصروف تھا کہ اس کو خبر ہی نا ہوئی کہ کسان لٹ رہے ہیں زراعت تباہ ہورہی ہے مہنگی کھاد کے سبب گندم کی کاشت تاخیرکا شکار ہورہی ہے ۔میرے کپتان کو کوئی خبر کرئے کہ دس ہزار کی ڈی اے پی اور تین ہزار کی یوریا خریدنے والے کسان جب کنٹرول ریٹ پر گندم فروخت کرئے گا تو اس کو سوائے خسارے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
مگر یہ تو کھیل کا اصول ہے کہ وہ کپتان ہی کیا جو تماشائیوں کی طرف توجہ دے ۔مگر سیاست میں کپتان نے تو کوچ کی بھی نہیں سنی اگر سنی ہے تو صرف ان کی جو دل کے بہت قریب تھے ۔انسانی زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں تین سو گنا تک اضافہ ہوا ۔علاج عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا حالت یہ ہوئی کہ ادویات خریدیں یا پھر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں۔ ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی بند ہوگئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے جنت ثابت ہونے والی مارکیٹ عام آدمی کے لیے کسی دوزخ سے بھی بدتر ہوگئی۔مگر کپتان پختہ ارادے کے ساتھ ڈٹا رہا۔
فلاحی ریاست بنانے کے دعویدار میرے ہینڈسم کپتان کے رواں عہد حکومت میں ترقی کی شرح میں کمی ہوئی ، افراط زر میں اضافہ ہوا،گردشی قرضے دوگنا ہوگئے ، بیرونی قرضوں میں تاریخی اضافہ ہوا۔مہنگائی کی شرح میں اضافہ نے کمر توڑ دی ۔جبکہ حکومتی اعداد وشمار ترقی کی نوید دے رہے ہیں سب کچھ بہتر ہورہا ہے اگر ایسا ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ رہے قرضے کیوں لیئے جارہے ہیں عام آدمی کی حالت کیوں بہتر نہیں ہورہی ۔وہ خوشحالی کہاں ہے جس کا کنٹینر پر کھڑے ہوکر اعلان کیا گیا تھا۔حالت تو یہ ہے کہ صادق وامین ک عہد میں ٹرانسپریسی انٹرنشینل کے مطابق کرپشن میں اضافہ ہوا ہے بقول مرزا نوشہ کے حیراں ہوں ،دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں ۔
کپتان کو بخوبی علم تھا کہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بے روزگارہے اس لیئے کپتان کی انتخابی مہم کا سب سے پرکشش نعرہ ایک کروڑ نوکریوں کا تھا ۔نوجوان اس نعرے پر خوشی سے ناچ اٹھے کہ چلو کسی نے تو سوچا ان کے متعلق اور بلاشبہ بے روزگاروں کے لیے یہ نعرہ ایک لائف لائن کی حیثیت اختیار کرگیا۔مگر ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ شرمندہ تعبیر کیا ہونا تھا الٹا اس عہد زریں میں تو ریلوئے ، ریڈیو پاکستان ، پی آئی اے اور کراچی اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔جس نجی سیکٹر میں نوکریاں پیدا کرنی تھیں وہاں کی حالت ایسی ابتر ہوئی کہ کئی سالوں سے کام کرنے والے ملازمین خراب معاشی صورتحال کے سبب جبری طورپر گھروں کو بھیج دئیے گئے ۔
مدعا یہ کہ کپتان کے جو جی میں آئی کپتان بولتا گیا کنٹینر پر کھڑے ہو کر وعدے کرتا گیا سہانے خوابوں کے اعلان کرتا گیا یہ بھی نہیں سوچا کہ کنٹینر سے نیچے بھی اترنا ہے ۔ڈی چوک سے باہر بھی ایک دنیا ہے اور تبدیلی کی خواہش میں ناچتے ہوے مجمع سے ہٹ کر بھی انسانوں کا ایک ہجوم ہے جو ایک مشکل زندگی گذار رہا ہے ۔یہ حالات کے مارے کپتان کی باتوں پر یقین کرگئے اعتبارتو جنوبی پنجاب کے لوگ بھی کرگئےتھے کہ 90 دنوں میں ان کا صوبہ بن جائے گا۔مگر زمینی حقائق کچھ اور تھے لہذا کوئی کام پورا نا ہوسکا کوئی وعدہ وفا نا ہوسکا ۔
المیہ تو یہ ہے کہ پہلے چھ ماہ میں نظام عدل کو بہتر بنانے کا دعویدار قوم سے خطاب کے دوران کہتا ہے کہ دو سال سے اس کو انصاف نہیں مل رہا۔قوم کو نا گھبرانے کی تلقین کرنے والا اپوزیشن کے مطابق پیپلزپارٹی کے رواں لانگ مارچ اور پھر جماعت اسلامی اور پھر پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے گھبرا رہا ہے ۔سستا ترین ملک کا دعویٰ کرنے والا حاکم پٹرول ، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان خداجانے کیوں کررہا ہے۔نوجوانوں کو انٹرن شپ دینے کا خیال اس وقت کیوں آیا جب سندھ سے ایک احتجاجی قافلہ روانہ ہوچکا ہے اور بلاول بھٹو حالیہ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں کی کمی کو مسترد کرچکا ہے۔

میرے کپتان کیا پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد حالیہ معمولی کمی عوام کو مطمئن کرسکے گی۔اے خوش لباس و ہینڈسم حاکم کیا عوام کنٹینر سے کیئے گئے وعدوں کو بھول جائے گی ۔اے صادق وامین کیا عوام آٹا ، چینی ، رنگ روڈ اسکینڈل ،توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کیس پر سوال نہیں کرئے گی ۔بیوروکریسی میں مداخلت نا کرنے کے اعلان کے بعد پے درپے افسران کی تبدیلی کے باوجود حالات کیوں بہتر نہیں ہوئے اس کا جواب توبہرحال دینا پڑے گا۔میرے کپتان کیا اس لیئے آدھی چھوڑنے کو تیار ہوے ہیں کہ کہیں پوری نا چلی جائے ۔میرے مصروف حاکم کوکوئی خبر کرئے کہ ضمنی انتخابات اور کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں آدھی سیاسی جمع پونجی پہلے ہی لٹ چکی ہے باقی ماندہ آدھی آئندہ عام انتخابات میں لٹنے جارہی ہے بشرطیکہ اگر انتخابات فری اینڈ فیئر ہوگئے ۔

————————————————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: