نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جعلی خبروں سے جعلی وعدوں تک ||مظہراقبال کھوکھر

مان لیتے ہیں کہ حکومت جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ سب کر رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس ملک میں جعلی نعروں اور جھوٹے وعدوں کے خلاف بھی کوئی قانون سازی ہوگی عوام کو گمراہ کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی آرڈیننس لایا جائے گا

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی دنوں کی غیر حاضری کے بعد "مظاہرقلم” حاضر ہے کچھ تو موسمی بخار نے نڈھال کئے رکھا اور کچھ ہم نے خود راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی۔ دفتر سے مسلسل فون آرہے تھے کہ کالم کی اتنے دنوں کی غیر حاضری مناسب نہیں اور میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔ سچ پوچھیں تو کبھی کبھی ایک اکتاہٹ سی ہوجاتی ہے سمجھ نہیں آتی کہ کیا لکھیں ایک عرصہ تک ہم دو جماعتی نظام اور باریوں کی سیاست کے خلاف کھل کر لکھتے رہے کیونکہ ہمارے پاس ایک امید تھی ہم تمام مسائل کا ذمہ دار کئی کئی سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے والی دونوں بڑی جماعتوں کو سمجھتے تھے اور تمام مسائل کا حل تیسری جماعت میں دیکھتے تھے اس لیے ہم ہمیشہ پر امید رہے اور لوگوں کو بھی امید دلاتے رہے کہ جب باریوں کی سیاست کرنے والی دونوں بڑی جماعتوں سے نجات مل جائے گی اور کوئی تیسری جماعت اقتدار میں آئے گی تو ملک میں ضرور بڑی تبدیلی آ جائے گی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے مگر آج جب پاکستان تحریک انصاف اپنے اقتدار کے چار سال مکمل کرنے جارہی ہے تو ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب ہم کئی کئی باریاں لینے والی سابقہ حکمران جماعتوں سے کوئی امید رکھیں یا اپنے اقتدار کے پہلے دورانئے میں ہی مایوسی سے دو  چار کر کے اب اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے پر تولنے والی پاکستان تحریک انصاف سے کوئی امید باندھیں ؟
گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ” سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے قانون کو بہتر کر لیں مگر یہ کہنا کہ قانون نہ ہو بے تکی بات ہے  یہ سیاسی نہیں سماجی معاملہ ہے سیاسی جماعتوں کو میڈیا اصلاحات کے لیے متحد ہونا چاہئے” گزشتہ ہفتے چھٹی کے روز پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پروینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ "پیکا” سے متعلق ترمیمی آرڈیننس جاری کیا اس قانون کی دفعہ 20 ہتک عزت کے تحت شکایت کے اندراج سے متعلق ہے۔ آرڈیننس آنے سے پہلے یہ جرم قابل ضمانت تھا تاہم آرڈیننس کے زریعے اسے ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے جبکہ ایف آئی اے کو بغیر وارنٹ گرفتاری کے اختیارات بھی دے دئے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسے فوجداری قوانین میں شامل کر کے اس کی سزا دو سال سے بڑھا کر پانچ سال تک مقرر کر دی ہے۔ اس آرڈیننس کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو پیکا قانون کی ترمیم شدہ شک دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا جب سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا ٹیمیں بناتی ہیں تو پھر اختلاف سے ڈرتی کیوں ہیں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں لگ ہی نہیں رہا کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں ہورہا ہے” جبکہ حکومتی وزراء کا اصرار ہے کہ قوانین میں یہ ترمیم سوشل میڈیا پر غلط خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی گئی تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص اور ادارے کو بدنام نہ کر سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت میں انہی ترامیم کو اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دینے والی پاکستان تحریک انصاف آخر کس بنیاد پر انہی ترامیم کے زریعے  میڈیا میں اصلاحات لانا چاہتی ہے؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا ٹرینڈنگ میں صحافیوں کا کیا رول ہوتا ہے جس کی بنیاد پر سوشل میڈیا اور میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے ؟
بدقسمتی سے ہر دور میں ہر حکومت نے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس طرح اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے ہر حکمران کی یہ خواہش رہی ہے کہ میڈیا وہ لکھے اور دکھائے جو ہم چاہتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں میں سچ سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا یہاں تنقید اور مخالفت کو ایک سمجھا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو مخالف سمجھا جاتا ہے جو تنقید کرے اور موجودہ حکومت بھی سوشل میڈیا کی آڑ میں میڈیا کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے مگر نہ تو پہلے ایسا ہوسکا اور نہ آئندہ ممکن ہے کیونکہ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے حکومت کس کس کی زبان بند کرے گی اور کس کس کا ہاتھ روکے گی۔ عرب سپرنگ سے بہت سے ممالک کی انتخابی مہم تک سوشل میڈیا کا ایک اہم کردار رہا ہے یہاں تک کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی سوشل میڈیا کو کوکھ سے جنم لیا اس کی کامیابی میں سوشل میڈیا کا ایک اہم رول ہے ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا کو مکمل کنٹرول نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بات درست ہے کہ سوشل میڈیا کے لیے بھی کوئی قانون اصول اور ضابطہ ہونا چاہئے مگر ایسی صورتحال میں یہ کس طرح ممکن ہے جب تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا ونگ بنا رکھے ہوں بلکہ باقاعدہ تنخواہ دار سوشل میڈیا ملازم رکھے ہوئے ہوں جن کے زریعے سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کے خلاف ٹرینڈنگ کرتی ہوں ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی ہو مخالفین کو رگیدا جاتا ہو اور  اخلاق باختہ ٹرینڈ چلائے جاتے ہوں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا پر حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتیں ایسے ایسے غیر اخلاقی ٹرینڈ چلاتی ہیں کہ جنہیں یہاں لکھنا بھی ممکن نہیں ایسی صورتحال میں پہلے تو سیاسی جماعتوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔

مان لیتے ہیں کہ حکومت جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ سب کر رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس ملک میں جعلی نعروں اور جھوٹے وعدوں کے خلاف بھی کوئی قانون سازی ہوگی عوام کو گمراہ کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی آرڈیننس لایا جائے گا عوام کو جھوٹے خواب دکھانے والوں کے لیے بھی کوئی سزا مقرر ہوگی  عوام کے ووٹوں کا تقدس پامال کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی ہتک عزت کا قانون لایا جاسکے گا۔ حکمران اگر واقعی اس ملک سے جعل سازی اور جھوٹ کا بازار بند کرنا چاہتے ہیں تو ہمت کریں اگے بڑھیں اور جعلی خبروں سے پہلے جعلی جعلی وعدے  ، جعلی دعوے  اور جعلی اعلانات کرنے والوں کے خلاف بھی قانون سازی کریں۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

About The Author