حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روس کے یوکرائن پر حملہ کے بعد پوری دنیا کے الیکٹرانک و پرنٹ اور سوشل میڈیا پر تجزیوں کا "ہڑ” (سیلاب) آیا ہوا ہے۔ پاکستان بھی ظاہر ہے کہ اس کرہ ارض پر ہی قائم ہے کسی الگ "گولے” پر نہیں سو ظاہر ہے ہمارے یہاں بھی اس پر سنجیدہ بحث و تجزیوں کے ساتھ "ٹچخرے ” بھی اچھالے جارہے ہیں۔ روس یوکرائن تنازع کے بیچوں بیچ ہمارے سمارٹ وزیراعظم کا دورہ روس بھی زیربحث رہا اور مقامی مزاج کے مطابق اس کی بٙھد بھی اڑائی جاتی رہی، کچھ لوگ امتحان سے بھی دوچار ہیں اولاً وہ انقلابی جن کا محبوب ملک سیاسی طور پر روس کے کیمپ میں ہے ان کی روس کے لئے ہمدردی کی وجہ یہی ہے کہ روس چین سیاسی اتحاد نے شام کے بحران پر امریکہ کے مدِ مقابل الائنس کا کھل کر ساتھ دیا تھا اس لئے ضروری ہے کہ اب روس کا ساتھ دیا جائے۔
مرگ بر روسیا و مرگ بر امریکہ کے نعرے میں سے روس کب کا نکالا جاچکا۔ باقی باتیں آپ چار اور کے حالات اور لوگوں کے خیالات سے سمجھ لیجئے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے خیال میں روس امریکی سامراج کے سامنے ڈٹ گیا ہے۔ انہیں روس کی شکل میں وارث سوویت یونین دیکھائی دیتا ہے۔ امریکی سامراج کا مخالف ہمارا دوست کی سوچ والے بھی ہیں۔ عمران خان کے دورہ روس پر تابڑ توڑ حملے کرنے والے بھی۔
اب کیا کریں "پیارے” کی خواہش پر روسی دورے کی دعوت ملی تھی۔ دورہ کا شیڈول اور دوسرے معاملات راتوں رات تو طے نہیں ہوئے۔ التواء سے یہ تاثر ابھرتا کہ ہم نے امریکہ بہادر کی خوشنودی کے لئے دورہ ملتوی یا منسوخ کیا ہے ظاہر ہے کہ اس کے اثرات روس سے بہتر ہوتے تعلقات پر منفی مرتب ہوتے۔
اصولی طور پر "پیارے” نے کفر نہیں کمایا۔ دورہ روس کرکے، طے شدہ دورہ کے حوالے سے اچھے اصول اور اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ رہا سوال یہ کہ اس دورہ سے حاصل وصول کیا ہوا یا ہوگا؟ ارباب حکومت کے دعوے بڑے بلند اور امیدیں فروخت کرنے کا جذبہ عروج پر ہے۔
پیوٹن سے پیارے کی ملاقات کہتے ہیں تین گھنٹے جاری رہی۔ ڈیڑھ گھنٹہ وفود کی سطح پر اور ڈیڑھ گھنٹہ ون ٹو ون۔ ون ٹو ون ملاقات میں پیارے اور پیوٹن نے یقیناً تجربات و مشاہدات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہوگا۔ کرکٹ پر تو ظاہر ہے گفتگو نہیں ہوئی ہوگی نہ ہی پیارے نے یہ کہا ہوگا کہ میں روس کو عالی جناب سے بہتر جانتا ہوں۔
کیا اس دورہ سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوں گے۔ میرا نہیں خیال کہ متاثر ہوں اس کی درجنوں وجوہات ہیں اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ہم امریکی گھڑے کی مچھلی ہیں۔ سیاسی، اقتصادی اور چند دوسری وجوہات کی بنا پر ہماری شہ رگ امریکہ کی چھری تلے ہے۔
روس یوکرائن تنازع میں (اب تو جنگ جاری ہے) پاکستان کو روس کا ساتھ دینا چاہیے یا مغرب و امریکہ کا؟ ہماری رائے میں امن و اخوت کا نغمہ الاپنے سے زیادہ زحمت "ہماری صحت” کے لئے مناسب نہیں رہے گی اس لئے عزیز میاں قوال کی مشہور زمانہ قوالی "اللہ ہی جانے کون بشر ہے” کے ساتھ نصرت فتح علی خان مرحوم کی قوالی "تم اک گورکھ دھندہ ہو” سے جی بہلانے کی ضرورت ہے۔
اس دورے کے فوری سیاسی و معاشی فوائد اس لئے نہیں مل سکیں گے کہ فی الوقت روس عالمی پابندیوں کی زد میں ہے۔ ساعت بھر کے لئے رکئے، حیرانی اس بات پر ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک بشارالاسد کے خلاف امریکہ و یورپی برادری جمع قطر کے بنائے مسلح گروپ اور داعش کی بغاوت درست تھی اور یمن کے خلاف عرب اتحاد کی جنگ بھی درست ہے وہ یوکرائن پر روس کے حملے کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔
ثانیاً یہ اگر مسلم شدت پسند حلقوں کو خلافت الٰہیہ کی نشاۃ ثانیہ کیلئے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کا حق ہے تو پھر روس کو بھی ماضی کے مقام کی بحالی کا حق حاصل ہے۔ پرائی باراتوں میں دھمال ڈالنے کی عادت کبھی کبھی سروں کے ساتھ بھی نہیں جاتی۔
یوکرائن کی روس نواز حکومت کے خلاف امریکہ وغیرہ کی مدد سے ہوئی بغاوت کے نتیجہ میں قائم حکومت سے روس کی شکایات کو محض سوویت یونین کے ماضی کے کردار کی بنا پر مسترد نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایٹمی اثاثے سوویت یونین کے تھے اس کی تحلیل کے بعد یوکرائن اور روس نے باہمی رضامندی سے ان کا فیصلہ کیا تب امریکی بھی یہ کہہ رہے تھے کہ یوکرائن کے دفاع کے ہم ذمہ دار ہیں ایک عدد دفاعی معاہدہ بھی امریکہ اور یوکرائن کے درمیان ہوا تھا۔
اس معاہدہ کو روس یوکرائن جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی جمہوریت، انسانی حقوق اور اقوام کی خودمختاری کے "حاضر و ناظر باوا وملجا” امریکہ نے ختم کردیا اور بس اتنا کہا ہتھیاروں کی سپلائی جاری رہے گی یعنی جنگ لڑسکو تو ہم اسلحہ فروخت کرنے کے لئے حاضر ہیں ہمارا تو کاروبار ہی یہی ہے۔
یوکرائن کے صدر (اس تحریر کے لکھے جانے تک) زیلنسکی نے گزشتہ شام کہا "ہماری ویڈیوز بناکر دنیا کو دیکھانے والوں نے جنگ کے ماحول میں ہمیں تنہا چھوڑدیا ہے”۔ زیلنسکی کے اس بیان میں سمجھنے والوں کے لئے درجن بھر سے زائد نشانیاں ہیں اگر سمجھنا چاہیں۔
اس تنازع اور جنگ (روس اور چین اسے آپریشن کہہ رہے ہیں) کے ماحول میں روس کی سیاسی و سفارتی حمایت ایران، چین اور شام نے کی ہے اسی وجہ سے ہمارے فقہی انقلابی بھی روس کے ساتھ ہیں۔ فی الوقت صورت یہ ہے کہ چرنوبل کے بدنام زمانہ ایٹمی پلانٹ سمیت یوکرائن کی اہم تنصیبات پر روسی فوج کنٹرول سنبھال چکی اور پیش قدمی جاری ہے۔
کیا روس یوکرائن کو روسی وحدت کا حصہ بنانے کے لئے یہ سب کررہا ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ روس ایسا نہیں کرے گا بلکہ لگ یہ رہا ہے کہ وہ امریکہ نواز حکومت کی جگہ اپنے پرانے ساتھیوں کو اقتدار دلاکر دو پرانے معاہدوں اولاً 30فیصد روسی بولنے والی آبادی کے مفادات کا تحفظ اور ثانیاً روس کے خلاف یورپی اتحادی نہ بننے کی ضمانت (یعنی نیٹو سے دور رہنا) لے کر واپس پلٹ جائے گا۔
اس ساری صورتحال کے دوران صدر پیوٹن نے ایک اہم بات کہی وہ یہ کہ کیا امریکہ برداشت کرے گا کہ ہم (روس) وینزویلا، کیوبا یا دوسری کسی لاطینی امریکی ریاست میں میزائل نصب کریں؟ پھر ہم کیسے برداشت کریں گے کہ امریکہ یوکرائن یا کسی دوسری سابق سوویت یونین کا حصہ ریاست میں میزائل نصب کرے۔ جنگ کے پس منظر اور وجوہات کو الگ سے بھی اٹھارکھیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ روس نے اصل میں اپنے خلاف منظم ہونے والے امریکہ یورپ اتحاد کو چیلنج کیا ہے۔
درست یا غلط پر بحث یا فیصلہ کیا صادر کیا جائے بڑی طاقتوں کے جھگڑوں میں ٹانگ پھنسانے کی بجائے "کینڈے” میں رہنا صحت کے لئے مفید ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں غیرجانبداری زیادہ بہتر ہوگی کسی قسم کی طبلہ نواز سنگت کا حصہ بننے سے۔
پیارے کے دورہ روس کی صرف اس کے ناقد یا مخالف کے طور پر بھد اڑانے یا اس بات کی تکرار کی ضرورت نہیں کہ چونکہ ہم طویل عرصہ سے امریکہ کے اتحادی شمار ہوتے ہیں اس لئے روس نہ جاتے تو اچھا تھا۔ ہم خود کو امریکہ کا اتحادی سمجھتے تھے امریکی ہمیں کرائے کے سپاہی سے زیادہ کچھ نہیں۔ معاف کیجئے گا ویسے ہمارا کردار کرائے کے سپاہی کا ہی رہا، اتحادیوں والا ہرگز نہیں۔ کیا
"پیارا” اس پوزیشن میں ہے کہ وہ خارجہ امور پر آزادانہ فیصلہ کرسکے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی منتخب ایوان میں بنتی ہے نہ وہاں اس پر بحث ہوتی ہے۔ یہ ڈے ٹو ڈے کے امکانات پر رواں دواں ہے اور اس میں کبھی بھی 22کروڑ لوگوں کے مفادات کی اہمیت نہیں رہی۔
غلاموں کے مفادات نہیں ہوتے وہ بس روٹی پانی کے چکر میں گھن چکر بنتے ہیں۔ ہم بن ہی رہے ہیں بس مانتے نہیں اس تلخ حقیقت کو۔ بہرطور بکھیڑوں میں مغز کھپانے کی بجائے اچھی موسیقی سن کر جی بہلائیں۔ کوئی کتاب پڑھیں یا ٹی وی چینلوں پر شام کے اوقات میں ہوئے ملاکھڑے دیکھیں۔ سامراج سے فیشنی یا حقیقی نفرت ہر دو کا رانجھا راضی کرنے کے لئے دیسی اور فقہی انقلابیوں کی طرح مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگاتے رہیں۔
پچھلی شب ہم نے فقیر راحموں سے روس یوکرائن جنگ پر تجزیہ چاہا تو جواب ملا "شاہ جی روس اور یوکرائن کی جنگ میں یمن کے ساتھ ہوں "۔ اس جواب پر غور کیجئے کوئی بات سمجھ میں آئے تو ہمیں بھی بتادیجئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر