مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک حقیقت ایک فسانہ ||گلزار احمد

اس روز بہت سے وزراء اور اعلی حکام گلزاری لال نندہ کے پاس پہنچے اور اس سے درخواست کی کہ وہ سرکاری رہائش گاہ میں رہے مگر اس نے کہا اس بڑھاپے میں سرکاری رہائش گاہ رہنے کا کچھ فاعدہ نہیں۔ اتنے زیادہ وزراء اور حکام کو دیکھکر مالک مکان بھی گلزاری لال نندہ کے پاٶں پڑ گیا اور معافی مانگی۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک 94 سال کے بوڑھے شخص کو مالک مکان نے اس لیے گھر سے باہر نکال دیا کہ وہ مکان کا کرایہ ادا نہیں کر سکا تھا۔اس بوڑھے شخص کے پاس ایک پرانا بستر۔ایلومینیم کے کچھ برتن۔پلاسٹک کے بالٹی اور ایک چاے پینے کا مگ وغیرہ تھا۔ پڑوسیوں نے رحم کھا کر مالک مکان کو راضی کیا کہ بوڑھا شخص جلد کراۓ ادا کر دے گا اور اس کا سامان اندر رکھنے لگے۔ادھر سے ایک صحافی گزر رہا تھا اس نے یہ واقعہ دیکھا تو بوڑھے کرایہ دار اور مکان کی کچھ تصاویر لے لیں تاکہ مظلوم بوڑھے کراۓ دار کی خبر لگا دے۔ جب وہ تصاویر لے کر اخبار کے دفتر پہنچا تو اخبار کا ایڈیٹر تصاویر دیکھکر حیران ہوا اور صحافی سے پوچھا تم اس بوڑھے کو جانتے ہو؟ مگر صحافی نے انکار کیا۔خیر دوسرے دن اخبار کی بڑی سرخی یہ تھی۔
بھارت کا سابق وزیراعظم گلزاری لال نندہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اور مزید یہ بتایا گیا کہ بھارت کا دو دفعہ وزیراعظم اور لمبے عرصے یونین منسٹر رہنے والے گلزارلال نندہ کو کرایہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں کیسے مکان سے نکالا گیا اور اس کا سامان گلی میں پھینکا گیا۔
دراصل اس وقت گلزاری لال نندہ کو صرف 500 روپے ماہانہ ملتے تھے جس سے وہ کرایہ ادا کرتا اور خرچہ چلاتا۔
اس روز بہت سے وزراء اور اعلی حکام گلزاری لال نندہ کے پاس پہنچے اور اس سے درخواست کی کہ وہ سرکاری رہائش گاہ میں رہے مگر اس نے کہا اس بڑھاپے میں سرکاری رہائش گاہ رہنے کا کچھ فاعدہ نہیں۔ اتنے زیادہ وزراء اور حکام کو دیکھکر مالک مکان بھی گلزاری لال نندہ کے پاٶں پڑ گیا اور معافی مانگی۔
1997۔میں گلزاری لال نندہ کو ۔۔بھارت رتنا ۔۔ایوارڈ دیا گیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے
ہمارے زمانے ہمارے حکمرانوں اور سربراھوں میں ایسی مثالیں کیوں نہیں ملتیں ؟۔۔۔ہر دوسرے دن یہاں کے ریٹائرڈ سیاستدان ۔بیوروکریٹ باہر کے ملکوں جا کر بڑے بڑے مکانات اور جائیدادوں میں آباد ہو رہے ہیں اور 22 کروڑ عوام قرضوں کے بوجھ تلے بلک رہے ہیں۔؎
مِلیں کیا اس لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں؟
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں ۔

%d bloggers like this: