مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مشتعل ہجوم کی مقدس کپکپی اور سارتر کی معزز فاحشہ|| وجاہت مسعود

سرکار، ماضی کو بھول جانے والے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کا اقرار اور ادراک کیے بغیر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ہم نے سیکھا ہے کہ مذہبی جذبات کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنانے والے نہ تاریخ مذہب جانتے ہیں اور نہ عقیدے کی نفسیات سمجھتے ہیں۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

15 فروری کو کالم نہیں لکھ سکا۔ پھیپھڑوں میں سوزش ایک سبب تھا لیکن اصل مشکل وہی تھی جو ایمل زولا نے اپنے ناول Germinal (نطفہ) میں بیان کی تھی۔ ”Blow the candle out۔ I don ’t need to see what my thoughts look like۔“ لکھنے والے کی مجبوری یہ ہے کہ اپنے معروض سے نجات نہیں اور معروض کی حقیقتوں سے اتفاق کرنا اپنی ذات، شعور اور عزت نفس کی نفی کے مترادف ہے۔ ایک ہی ہفتے میں تلے اوپر دو خبریں آئیں، ذرائع ابلاغ میں جن کا بیان معمول کا ایسا رنگ لئے تھا جسے محسوس کر کے جھرجھری آتی تھی۔
اتوار کے روز میاں چنوں میں‘ مشتعل ہجوم ’نے ایک اجنبی شخص کو اجتماعی تشدد کر کے مار ڈالا اور مظلوم کی لاش درخت سے لٹکا کر اس پر سنگ باری کی مشق کرتے رہے۔ اس درندگی کی تفصیل کیا بیان کی جائے، مقتول مشتاق کے بھائی کا یہ درد ناک جملہ شاید کچھ بتا سکے، ‘ تدفین کے دوران معلوم ہوا کہ وحشی ہجوم نے مقتول کی تمام انگلیاں ٹوکے سے کاٹ ڈالی تھیں ’۔ یاد کیجئے، اپریل 2017 میں ولی خان یونیورسٹی مردان میں جنونی گروہ کے ظلم کا شکار ہونے والے مشال خان کی ماں نے جوان مرگ کے ہاتھ چومنا چاہے تو معلوم ہوا کہ تمام انگلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔
3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پرینتھا کمارا کی پوسٹ مارٹم میں لکھا تھا کہ سوختہ جان کے جسم کی کوئی ہڈی سلامت نہیں تھی۔ برخود غلط پارسائی کی چادر میں چھپے قاتل ہجوم کی نفسیات پر کچھ بات کرنے سے پہلے وہ دوسری خبر بھی سن لیجیے جو ذہنی برہنگی کے اظہار میں کسی فرد کا نہیں، قوم کے اجتماعی امکان کے قتل کا سرعام اعتراف تھا۔ 15 فروری کو مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے فرمایا کہ‘ ان کی جماعت حکومت کی اتحادی نہیں، ان کا معاہدہ تو ’ریاست‘ سے ہے۔ جب تک ریاست کہے گی، حکومت کی حمایت جاری رکھی جائے گی ’۔ اس بیان میں‘ ریاست ’کا مطلب سب سمجھتے ہیں۔
عشروں سے منتخب ایوانوں میں‘ جمہور ’کی نمائندگی کرنے والے کامل علی آغا کی ذاتی اور جماعتی سیاست کسی انکشاف کی محتاج نہیں۔ مقام ماتم تو یہ ہے کہ گزشتہ برس پنجاب میں پرویز رشید اور خیبر پختونخوا سے فرحت اللہ بابر ایوان بالا تک نہیں پہنچ سکے۔ کامل علی آغا اور پلواشہ خان کو رفعت نصیب ہوئی۔ بے شک‘ ریاست ’معاہدہ کرنے والوں کو حصار عافیت فراہم کرنے میں کوتاہی نہیں کرتی۔ البتہ ریاست سے عوام کا حق جمہور مانگنے والوں کی پتے بازیوں سے اشارہ ملتا ہے کہ‘ مجھ پہ آئی کہاں ٹلی ہے ابھی ’۔ میاں چنوں کے سانحے اور پارلیمانی تماشے میں فرق صرف یہ ہے کہ کہیں سنگ زنی کا شور ہے تو کہیں سازش کی سرگوشی۔ یہ میرا دامن صد چاک، یہ ردائے بہار۔

90 ءکی دہائی میں طالبان سے ہماری محبت دراصل اس ریاستی پالیسی کی توسیع تھی جس کے مطابق مذہبی قوتیں جمہوریت سے اپنے نظری نفور کے باعث ریاست کے غیر جمہوری عزائم میں فطری حلیف تھیں۔ ڈیورنڈ لائن کے پار تو یہ آشنائی 70 ءکی دہائی میں شروع ہوئی، ہم 1949 اور 1953 سے اس چراغ بے روغن میں پھونکیں مار رہے تھے۔ 1970 کے انتخاب سے کوئی سبق سیکھے بغیر یہ پالیسی جاری رہی۔ جس کا کل مآل یہ تھا کہ جمہوریت، صوبائی حقوق، آزادی صحافت اور شہری آزادیاں مانگنے والے افترا پرداز ہیں جب کہ حسب خواہش مذہبی لغت میں نچڑتا بیانیہ دینے والے ریاست کے حقیقی دوست ہیں۔

فہرست سازی سے کیا حاصل، درجنوں کتابیں اس اجتماعی جرم کی شہادت میں لکھی جا چکیں۔ روز افزوں بڑھتی آبادی، غیر معیاری تعلیم اور کتاب قانون میں شہری کی بے دست و پائی سے اصحاب جبہ و دستار کی قوت بڑھتی ہے اور اہل حکم کے اختیار میں تاحد نظر توسیع کی ضمانت ملتی ہے۔ مارچ 2016 ءمیں ایک نئے متشدد گروہ کی نمود اسی پالیسی کا شاخسانہ تھی۔ آج کل ہمارے مہربانوں کا فرمان امروز ہے کہ ہم ماضی کو بھول جائیں اور مثبت انداز میں آگے کی طرف دیکھیں۔

سرکار، ماضی کو بھول جانے والے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کا اقرار اور ادراک کیے بغیر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ہم نے سیکھا ہے کہ مذہبی جذبات کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنانے والے نہ تاریخ مذہب جانتے ہیں اور نہ عقیدے کی نفسیات سمجھتے ہیں۔ مذہبی تشدد کی حالیہ لہر اپنی نوعیت میں طالبان کی دہشت گردی سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔ طالبان کے بیرونی ڈانڈے، منضبط تنظیمی ڈھانچہ اور علانیہ اہداف کی بیخ کنی مشکل تھی، ناممکن نہیں۔

یہاں سیاسی ہدف کی تصریح کیے بغیر ایک جذباتی کیفیت کو ہوا دی گئی ہے جو کسی بھی وقت اور کہیں بھی بھڑک سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بوجوہ مفلوج ہوں گے۔ اشتعال کا نشانہ بننے والے غیر معروف اور کمزور شہری ہوں گے۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے ہجوم میں متعین مجرم کی نشاندہی ناممکن ہو گی۔ قدرتی ماحول میں جانوروں کے رویے کا مطالعہ کرنے والے نوبل انعام یافتہ سائنسدان کانرڈ لورنز (Konrad Lorenz) نے 1966 میں ایک کتاب لکھی تھی، (On Aggression) ۔

ایک جملہ ملاحظہ کیجئے، ’ہجوم کی شکل میں ایک طے شدہ ہدف پر حملہ آور ہونے والے افراد کی ریڑھ کی ہڈی اور بازوؤں پر ایک کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر اور برسوں سے سیکھی ہوئی امتناعی اخلاقیات سے یکسر بے نیاز مشتعل ہجوم بدترین درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیکی کے بے پناہ احساس میں شرابور ہو جاتا ہے‘ ۔ 1865 ءسے 1970 تک امریکہ میں نسلی برتری کی بنیاد پر قائم کو کلکس کلاں (Ku Klux Klan) اسی طرح اپنے کشتگان ظلم کو ہلاک کر کے جلاتی اور درختوں سے لٹکاتی رہی۔ کالم میں ایسی تفصیل کی گنجائش کہاں، طالب علمانہ درخواست ہے کہ ژاں پال سارتر کا مختصر ڈرامہ (A Respectful Prostitute) پڑھ لیجیے۔ انیس ناگی نے ’معزز فاحشہ‘ کے عنوان سے اردو ترجمہ بھی کر رکھا ہے۔ آپ کو آج کے پاکستان میں بہت سے ہجومی درندے اور قابل احترام سینیٹر پہچاننے میں سہولت ہو جائے گی۔

بشکریہ : ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: