نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قندیل بلوچ قتل کے ملزم کی رہائی||ظہور دھریجہ

غیرت کے نام پر قندیل کا قتل باعثِ شرم اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اب اس روش کو ختم ہونا چاہئے۔ عورت کے قتل میں گھر کا ہی فرد ملوث ہوتا ہے اور دوسرا مدعی بن کر کچھ عرصہ بعد قاتل کو معاف کر دیتا ہے،اس بارے میں قانون سازی ، اس سے بڑھ کر قانون پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ظہور دھریجہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے قندل بلوچ کیس کے مرکزی ملزم وسیم کی عمر قید کی سزا ختم کرتے ہوئے اسے بری کر دیا۔ جب قندیل بلوچ کا قتل ہوا تو تجزیہ نگاروں نے یہی بات کی تھی کہ مقتولہ کے وارث ملزم کو خود ہی چھڑوا دیں گے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے مگر ایسا ہوا کہ قندیل بلوچ کے والد عظیم نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا ہے لہٰذا عدالت بھی انہیں معاف کر دے۔ عدالت نے ملزم وسیم کو راضی نامے کی بنیاد اور گواہوں کے بیانات سے منحرف ہونے پربری کر دیا۔ ملزم وسیم مقتولہ قندیل کا بھائی ہے۔ قندیل کو 15جولائی 2016ء کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا، ملزم وسیم کو 27 ستمبر 2019ء کو ماڈل کورٹ ملتان نے عمر قید سنائی تھی ۔
سب سے پہلی بات جو میں بتانا چاہتا ہوں گا وہ یہ ہے کہ قندیل نہ تو قندیل تھی اور نہ ہی بلوچ ۔ اس کا نام فوزیہ تھا اور والد کا نام محمد عظیم۔ یہ یکم مارچ 1990ء کو ڈیرہ غازی خان کے قصبے شاہ صدر دین کی بستی ماہڑہ میں پیدا ہوئی ۔ قندیل بلوچ اس کا فرضی نام تھا، اسی طرح اس کو قتل کرنے والے ’’ غیرت مند ‘‘ بھائی وسیم نے بھی غلط بیانی سے کام لیا کہ ’’ وہ بلوچ ہے اور اس نے غیرت میں آکر اپنی بہن کا قتل کیا ‘‘ ۔ نہ وہ بلوچ ہے اور نہ ہی کوئی غیرت کا سوال کہ قندیل دو مرتبہ گھر سے گئی۔ اس وقت غیرت کہاں تھی ؟ پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ سب لوگ اس سے پیسے لیتے رہے اور آج اپنے طور پر غیرت مند بن گئے ۔
غیرت کے نام پر قندیل کا قتل باعثِ شرم اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اب اس روش کو ختم ہونا چاہئے۔ عورت کے قتل میں گھر کا ہی فرد ملوث ہوتا ہے اور دوسرا مدعی بن کر کچھ عرصہ بعد قاتل کو معاف کر دیتا ہے،اس بارے میں قانون سازی ، اس سے بڑھ کر قانون پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ عورت ہر جگہ مظلوم ہے ‘ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ عالمی سرائیکی کانفرنس نئی دہلی کے موقع پر مجھے ایک سرائیکی بولنے والے ہندو بتا رہے تھے کہ ہم کسی جانور یا پرندے کا ماس تو کیا انڈہ کھانے کے بھی روادار نہیں کہ ہمارا مذہب کسی بھی ذی روح کو مارنے کا قائل نہیں اور قتل چاہے انسان کا ہو ، جانور کا ہو یا کسی پرندے کا ، پاپ ہے۔
میں نے کہا کہ یہ تو آپ کہہ رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھئے کہ کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو آپ کے مذہب میں اسے ’’ ستی ‘‘ قرار دیکر کچھ انتہاء پسند آگ کے الاؤ میں زندہ جلا دیتے ہیں۔ تو کیا اس عورت کو آپ ’’ ذی روح ‘‘ شمار نہیں کرتے؟ وہ خاموش ہو گیا۔ تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قتل بہت بڑا ظلم ہے اور اسلام میں بھی بد کاری کی سزا سنگساری ہے اور اس بد کاری کے ثبوت کیلئے جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس لحاظ سے تو جرم ثابت ہونا بہت مشکل ہے ۔
سخت معیار کا مطلب بھی یہی ہے کہ نا حق کسی کو سزا نہ ملے۔ قندیل کے قتل میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ بننے والی سیلفیوں اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہونے والی ویڈیوز کا بھی ہاتھ تھا ۔ میں اس قتل کا ذمہ دار میڈیا کو بھی سمجھتا ہوں جس نے اس ایشو کو ضرورت سے زیادہ اچھالا ۔وسیب میں پینے کا پانی نہیں ، چولستان میں لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں ، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے خود کشیاں ہو رہی ہیں ۔
سوشل میڈیا نے وسیب کے ان حقیقی مسائل کو کبھی اجاگر نہیں کیا ، اسے وسیب کی محرومی ، غربت اور پسماندگی نظر نہیں آتی ، اگر کوئی چیز نظر آتی ہے تومختارا ں مائی کا واقعہ ہے یا پھر قندیل بلوچ کا قتل ۔وسیب میں آج بھی محرومیاں ہیں۔ ویسے تو پوری دنیا میں میل شاؤنزم ہے لیکن یورپ نے بہت حد تک عورت کو جزوی احترام دیدیا ہے لیکن ترقی پذیر دنیا میں آج بھی عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی کالا کالی کے ہر آئے روز واقعات ہوتے ہیں ۔ کالا کالی کے نام پر عورت کو قتل کیا جاتا ہے ۔
’’ کالا کالی ‘‘ کی رسم کو کسی علاقے کیلئے قانون یا کسی قوم میں ثقافتی وراثت قرار دینا تو درست نہیں ، مگر بد قسمتی سے پاکستان کے کچھ حصوں میں اس گندی رسم کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس رسم کو مختلف علاقوں میں کس علاقے میں کون سے نام سے بلایا جاتا ہے اور اس کا دائرہ پاکستان کے کس کس علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس رسم کو بلوچی زبان میں ’’ سیاہ کاری ‘‘ ، سندھی زبان میں ’’ کاروکاری ‘‘ اور سرائیکی میں ’’ کالا کالی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ پنجابی ، پشتواور پوٹھوہاری زبان میں اس رسم کیلئے کوئی لفظ نہیں کیونکہ پنجاب، پشتو اور پوٹھوہاری علاقے میں اس رسم کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔
بات یہ نہیں کہ ان علاقوں میں ایسے واقعات یا ان کے نتیجے میں قتل نہیں ہوتے ، یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر ’’ کالا کالی ‘‘ رسم یا قانون کے طور پر ڈیل نہیں کیا جاتا۔ کالا کالی رسم یا قانون کی ابتدا آج سے نہیں صدیوں پہلے بلوچستان سے ہوئی تھی ، بلوچ ’’ جرگے ‘‘ میں اس رسم کو باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل ہے، بلوچستان میں اگر کوئی شخص غیرت میں آ کر ’’ کالا کالی ‘‘ کو قتل کر دے تو بلوچ قانون میں نہ صرف یہ کہ کوئی سزا نہیں بلکہ قاتل کو انعام کے ساتھ ساتھ ’’ غیرت مند ‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ سرائیکی خطے اور سندھ میں اس رسم کو قانونی حیثیت تو حاصل نہیں لیکن کسی نہ کسی شکل میں اس رسم کا وجود باقی ہے۔ نام نہاد ’’ سردارانِ قوم ‘‘ اس کالے قانون یا ظالمانہ رسم کا نفاذ اپنے ذاتی عزائم اور مقاصد کیلئے کرتے رہتے ہیںجسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author