حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیزی سے تبدیل ہوتے دن رات میں ستم اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ ٹوٹ رہے ہیں ہر نیا دن گزرے دن سے زیادہ سخت بلکہ مصیبت بھرا ہے اور ہر روز سال 2006 کے اس فیصلے پر ملال ہوتا ہے جب مٹی اور اپنوں کی محبت میں امریکی شہریت ملنے پر اہلیہ اور بڑی بیٹی کے ہمراہ جانے کی بجائے چھوٹی صاحبزادی فاطمہ کے ساتھ یہیں رہ گیا تھا
ہم سے سادہ دیہاتی اب بھی فیصلوں کے نفع نقصان پر غور کرنے کی زحمت کی بجائے اللہ کی مرضی اور محبتوں کی اوہٹ میں پناہ لیتے ہیں حالانکہ ہمیں معروضی حالات کی روشنی میں تجزیہ کرنا اور ضرورتوں کو سمجھنا چاہئے ،
چلیں اصل موضوع پر بات کرتے ہیں ، سفید پوش اور کمزور طبقات کے لئے ہر نیادن پچھلے دن کے مقابلہ میں سخت تر ہوتا جارہا ہے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے دووقت کی روٹی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے
دوسری طرف وعدے ہیں یا پچھلے حکمرانوں کو کوسنے جبکہ انہیں اپنی نا تجربہ کاری اور دوسری کمزریوں کا اعتراف کرنا چاہئے ۔ پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ اصلاح احوال کی صورتیں بھی رائیگاں جائیں گی
اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربوں کے "شوقینوں” کا شوق ماند نہیں پڑا بہرحال سچ یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں اور پریشانی محرومی میں تبدیل ہورہی ہے حکومت کچھ سوچنے کو تیار نہیں اس پر ستم یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی کُند تلوار ایک بار پھر عوام کے گلوں پر چلادی گئی ہے
حالانکہ ابھی پندرہ دن قبل وفاقی وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ وزیراعظم نے قیمتوں میں اضافے کی سمری یہ کہہ کر مسترد کردی ہے کہ عوام مہنگائی کے بوجھ سے پہلے ہی پریشان ہیں اس لئے ان پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔ گزشتہ روز بھی ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ یہ تاثر دیتا رہا کہ وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کردی تھی مگر بعدازاں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول 159 روپے 86پیسے لٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل 154روپے 15 پیسے، لائٹ ڈیزل 123روپے 97پیسے، مٹی کا تیل 126روپے 56پیسے لٹر ہوگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا دعویٰ ہے کہ نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن روکنا ممکن ہی نہیں تھا۔ تیل کے فی بیرل عالمی نرخ بڑھے ہیں جبکہ وزارت خزانہ کے مطابق صفر سیلز ٹیکس اور کم لیوی کی وجہ سے حکومت 35ارب روپے کا بوجھ اٹھارہی ہے
خالص منافع وصول کرنے والی حکومت بوجھ اٹھا رہی ہے یہ تو لطیفہ ہی ہوا پھر ۔ وزیر اطلاعات جس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ بتارہے تھے اس وقت تیل کی فی بیرل قیمت میں 4فیصد کمی ہوچکی تھی۔ اس کمی کے باوجود قیمتوں میں اضافہ اعدادوشمار کا ایسا گورکھ دھندہ ہے جو عام صارف کو کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز بھی اپنے اس موقف کو دہرایا کہ پوری دنیا میں مہنگائی اور غربت بڑھی ہے مگر پاکستان میں ان میں کمی ہونا بڑی کامیابی ہے۔ ایک ہزار روپے کی ماہانہ امداد کے حصول کے لئے 4 کروڑ خاندانوں کا خود کو احساس پروگرام کے اشیائے خورونوش فنڈ میں رجسٹر کروانا یقیناً غربت میں کمی کی نشاندہی کرتا ہوگا ورنہ وزیراعظم یہ بات نہ کہتے وزارت خزانہ نے کم لیوی (پٹرولیم پر خالص حکومتی آمدنی) کا دعویٰ کیسے کردیا جبکہ پچھلے سال نومبر میں اسے ازسرنو متعین کیا گیا ہے؟
پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے بعد مہنگائی کی نئی لہر کا آنا لازمی امر ہے۔ پیداواری لاگت، ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور دیگر اخراجات میں اضافے کا بوجھ صنعت کار، اسٹاکسٹ اور دوسرے کاروباری حلقے صارف پر ہی منتقل کریں گے۔
کم آمدنی اور زائد اخراجات کے عدم توازن نے سفید پوش اور کمزور طبقات کا جس طرح بھرکس نکالا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ بجلی کی قیمت میں تقریباً ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافہ کرکے حکومت صارفین سے 26سے 30 ارب روپے وصول کرتی ہے۔
موسم سرما میں بجلی کی کھپت کم ہونے کی وجہ سے صارف پر جو اضافی بوجھ پڑتا ہے موسم گرما میں یہ ایک سو سے ایک سو پچاس فیصد زیادہ ہوگا۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے مطابق جولائی میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تبدیلی کرتے ہوئے 4روپے فی یونٹ قیمت بڑھائی جائے گی۔
قبل ازیں حکومت 3سو یونٹ بجلی استعمال کرنے پر خاص رعایت (سبسڈی) دیتی تھی اس میں بتدریج کمی سے اب یہ سبسڈی 50 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین تک محدود کردی گئی ہے۔
حکومت خود اس امر کا اعتراف کرتی ہے کہ کورونا وبا کی اوپر نیچے آنے والی لہروں اور دوسرے مسائل سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
گزشتہ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے اعتراف کیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے 2کروڑ 20لاکھ افراد بیروزگار ہوئے ان میں سے ایک کروڑ 80لاکھ افراد کو روزگار ملا 40لاکھ بیروزگار ہیں۔ اس اعتراف کےبعد کورونا کی 2نئی لہریں آئیں کیا ارباب اختیار نے اس عرصہ میں بیروزگار ہونے اور دوبارہ روزگار ملنے کے اعدادوشمار مرتب کئے؟
حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق کورونا وبا نے ملک کے 40فیصد خاندانوں کو معاشی ابتری سے دوچار کیا۔ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور کسی بھی سطح پر عوام کی دادرسی نہیں ہورہی۔
صنعت کار، بڑے تاجر (اسٹاکسٹ) اور پرچون فروشوں میں سے کوئی بھی اپنا خالص منافع کم کرنے کو تیار نہیں اس کی تازہ مثال جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ سے آنے والی مہنگائی کی لہر ہے۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگا اس کا بوجھ عوام پر دو طرح پڑے گا اولاً پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے سے ثانیاً روزمرہ ضرورت کی اشیاء کے نرخوں میں اضافے سے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کم آمدنی والے افراد کو ریلیف دلانا چاہتے ہیں۔
یہ ریلیف کیسے دلوایا جائے گا یہ بذات خود سوال ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اورغربت میں ہوتے مسلسل اضافے کی وجہ سے طبقاتی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ محض دلکش اعلانات اور وعدے اصلاح احوال کی صورت نہیں ہوتے نہ ہی احساس پروگرام کے ذریعے ہزار پانچ سو روپے کی امدادی رقوم کی تقسیم سے مداوا ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ کا یہ کہنا کہ حکومت پٹرولیم کی مد میں 35ارب روپے کا بوجھ برداشت کررہی ہے۔
اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ حکومت نے اپنی خالص آمدنی اور ڈیلرز کے منافع میں کب کمی کی؟ عالمی قیمتیں بڑھیں، کا جواز بھی عجیب ہے بالفرض اسے مان بھی لیا جائے تو پچھلے برس جب پٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈی میں قیمت آج کے مقابلہ میں تقریباً نصف تھی تو اس وقت حکومت نے عوام کو سوفیصد ریلیف کیوں نہ دیا؟
یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ مہنگائی کا جو نیا سونامی برپا ہوگا عوام تو اس سے بری طرح متاثر ہوں گے ہی خود حکومت کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ خصوصاً اس طور کے اپوزیشن کے دو گروپ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم رواں ماہ اور اگلے ماہ لانگ مارچ کرنے جارہے ہیں ان حالات میں مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کی ہمدردیاں اس احتجاجی تحریک کو ہی ملیں گی ، ویسے خود اہل اقتدار کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں بیوروکریسی کے اندر موجود ایک خاص حلقہ جان بوجھ کر حکومت کے لئے مشکلات تو نہیں پیدا کروانا چاہتا ۔
ہمزاد فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ حکومت سوچنے سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتی ہے اس لئے تم بھی اب کوئی کام دھندہ تلاش کرو مفت میں قلم مزدوری کی روٹیاں توڑتے ہو ، سچ یہی ہے کہ اب قلم مزدوری کے ساتھ کچھ اور بھی کرنا چاہئے کیا اس بارے سوچتے ہیں۔
ہم سے سادہ دیہاتی اب بھی فیصلوں کے نفع نقصان پر غور کرنے کی زحمت کی بجائے اللہ کی مرضی اور محبتوں کی اوہٹ میں پناہ لیتے ہیں حالانکہ ہمیں معروضی حالات کی روشنی میں تجزیہ کرنا اور ضرورتوں کو سمجھنا چاہئے ،
چلیں اصل موضوع پر بات کرتے ہیں ، سفید پوش اور کمزور طبقات کے لئے ہر نیادن پچھلے دن کے مقابلہ میں سخت تر ہوتا جارہا ہے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے دووقت کی روٹی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے
دوسری طرف وعدے ہیں یا پچھلے حکمرانوں کو کوسنے جبکہ انہیں اپنی نا تجربہ کاری اور دوسری کمزریوں کا اعتراف کرنا چاہئے ۔ پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ اصلاح احوال کی صورتیں بھی رائیگاں جائیں گی
اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربوں کے "شوقینوں” کا شوق ماند نہیں پڑا بہرحال سچ یہ ہے کہ لوگ پریشان ہیں اور پریشانی محرومی میں تبدیل ہورہی ہے حکومت کچھ سوچنے کو تیار نہیں اس پر ستم یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی کُند تلوار ایک بار پھر عوام کے گلوں پر چلادی گئی ہے
حالانکہ ابھی پندرہ دن قبل وفاقی وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ وزیراعظم نے قیمتوں میں اضافے کی سمری یہ کہہ کر مسترد کردی ہے کہ عوام مہنگائی کے بوجھ سے پہلے ہی پریشان ہیں اس لئے ان پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔ گزشتہ روز بھی ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ یہ تاثر دیتا رہا کہ وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کردی تھی مگر بعدازاں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول 159 روپے 86پیسے لٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل 154روپے 15 پیسے، لائٹ ڈیزل 123روپے 97پیسے، مٹی کا تیل 126روپے 56پیسے لٹر ہوگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا دعویٰ ہے کہ نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن روکنا ممکن ہی نہیں تھا۔ تیل کے فی بیرل عالمی نرخ بڑھے ہیں جبکہ وزارت خزانہ کے مطابق صفر سیلز ٹیکس اور کم لیوی کی وجہ سے حکومت 35ارب روپے کا بوجھ اٹھارہی ہے
خالص منافع وصول کرنے والی حکومت بوجھ اٹھا رہی ہے یہ تو لطیفہ ہی ہوا پھر ۔ وزیر اطلاعات جس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ بتارہے تھے اس وقت تیل کی فی بیرل قیمت میں 4فیصد کمی ہوچکی تھی۔ اس کمی کے باوجود قیمتوں میں اضافہ اعدادوشمار کا ایسا گورکھ دھندہ ہے جو عام صارف کو کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز بھی اپنے اس موقف کو دہرایا کہ پوری دنیا میں مہنگائی اور غربت بڑھی ہے مگر پاکستان میں ان میں کمی ہونا بڑی کامیابی ہے۔ ایک ہزار روپے کی ماہانہ امداد کے حصول کے لئے 4 کروڑ خاندانوں کا خود کو احساس پروگرام کے اشیائے خورونوش فنڈ میں رجسٹر کروانا یقیناً غربت میں کمی کی نشاندہی کرتا ہوگا ورنہ وزیراعظم یہ بات نہ کہتے وزارت خزانہ نے کم لیوی (پٹرولیم پر خالص حکومتی آمدنی) کا دعویٰ کیسے کردیا جبکہ پچھلے سال نومبر میں اسے ازسرنو متعین کیا گیا ہے؟
پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے بعد مہنگائی کی نئی لہر کا آنا لازمی امر ہے۔ پیداواری لاگت، ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور دیگر اخراجات میں اضافے کا بوجھ صنعت کار، اسٹاکسٹ اور دوسرے کاروباری حلقے صارف پر ہی منتقل کریں گے۔
کم آمدنی اور زائد اخراجات کے عدم توازن نے سفید پوش اور کمزور طبقات کا جس طرح بھرکس نکالا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ بجلی کی قیمت میں تقریباً ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافہ کرکے حکومت صارفین سے 26سے 30 ارب روپے وصول کرتی ہے۔
موسم سرما میں بجلی کی کھپت کم ہونے کی وجہ سے صارف پر جو اضافی بوجھ پڑتا ہے موسم گرما میں یہ ایک سو سے ایک سو پچاس فیصد زیادہ ہوگا۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے مطابق جولائی میں بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تبدیلی کرتے ہوئے 4روپے فی یونٹ قیمت بڑھائی جائے گی۔
قبل ازیں حکومت 3سو یونٹ بجلی استعمال کرنے پر خاص رعایت (سبسڈی) دیتی تھی اس میں بتدریج کمی سے اب یہ سبسڈی 50 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین تک محدود کردی گئی ہے۔
حکومت خود اس امر کا اعتراف کرتی ہے کہ کورونا وبا کی اوپر نیچے آنے والی لہروں اور دوسرے مسائل سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
گزشتہ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے اعتراف کیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے 2کروڑ 20لاکھ افراد بیروزگار ہوئے ان میں سے ایک کروڑ 80لاکھ افراد کو روزگار ملا 40لاکھ بیروزگار ہیں۔ اس اعتراف کےبعد کورونا کی 2نئی لہریں آئیں کیا ارباب اختیار نے اس عرصہ میں بیروزگار ہونے اور دوبارہ روزگار ملنے کے اعدادوشمار مرتب کئے؟
حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق کورونا وبا نے ملک کے 40فیصد خاندانوں کو معاشی ابتری سے دوچار کیا۔ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور کسی بھی سطح پر عوام کی دادرسی نہیں ہورہی۔
صنعت کار، بڑے تاجر (اسٹاکسٹ) اور پرچون فروشوں میں سے کوئی بھی اپنا خالص منافع کم کرنے کو تیار نہیں اس کی تازہ مثال جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ سے آنے والی مہنگائی کی لہر ہے۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگا اس کا بوجھ عوام پر دو طرح پڑے گا اولاً پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے سے ثانیاً روزمرہ ضرورت کی اشیاء کے نرخوں میں اضافے سے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کم آمدنی والے افراد کو ریلیف دلانا چاہتے ہیں۔
یہ ریلیف کیسے دلوایا جائے گا یہ بذات خود سوال ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اورغربت میں ہوتے مسلسل اضافے کی وجہ سے طبقاتی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ محض دلکش اعلانات اور وعدے اصلاح احوال کی صورت نہیں ہوتے نہ ہی احساس پروگرام کے ذریعے ہزار پانچ سو روپے کی امدادی رقوم کی تقسیم سے مداوا ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ کا یہ کہنا کہ حکومت پٹرولیم کی مد میں 35ارب روپے کا بوجھ برداشت کررہی ہے۔
اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ حکومت نے اپنی خالص آمدنی اور ڈیلرز کے منافع میں کب کمی کی؟ عالمی قیمتیں بڑھیں، کا جواز بھی عجیب ہے بالفرض اسے مان بھی لیا جائے تو پچھلے برس جب پٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈی میں قیمت آج کے مقابلہ میں تقریباً نصف تھی تو اس وقت حکومت نے عوام کو سوفیصد ریلیف کیوں نہ دیا؟
یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ مہنگائی کا جو نیا سونامی برپا ہوگا عوام تو اس سے بری طرح متاثر ہوں گے ہی خود حکومت کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ خصوصاً اس طور کے اپوزیشن کے دو گروپ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم رواں ماہ اور اگلے ماہ لانگ مارچ کرنے جارہے ہیں ان حالات میں مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کی ہمدردیاں اس احتجاجی تحریک کو ہی ملیں گی ، ویسے خود اہل اقتدار کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں بیوروکریسی کے اندر موجود ایک خاص حلقہ جان بوجھ کر حکومت کے لئے مشکلات تو نہیں پیدا کروانا چاہتا ۔
ہمزاد فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ حکومت سوچنے سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتی ہے اس لئے تم بھی اب کوئی کام دھندہ تلاش کرو مفت میں قلم مزدوری کی روٹیاں توڑتے ہو ، سچ یہی ہے کہ اب قلم مزدوری کے ساتھ کچھ اور بھی کرنا چاہئے کیا اس بارے سوچتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر