نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مائوں کی فریاد میں اپنی بھی||رسول بخش رئیس

ہمارا دل بھی پتا نہیں کس دھات کا بنا ہوا ہے‘ روزانہ ایسے دلخراش واقعات کا سن کر ٹوٹ جاتا ہے‘ بس ٹوٹتا ہی رہتا ہے‘ مگر اس کے دھڑکنے کی دھک دھک عالمِ افسردگی میں شور کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور احساسِ گناہ کے ملے جلے جذبات میں ہم غوطے لگاتے ہیں کہ کچھ کر نہیں سکے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ واقعات ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں اور وقت کا تیز بہتا ہوا دریا انہیں نہیں دھو سکتا‘ جب تک کہ ہم خود اس کی رو میں بہہ کر زیرِ خاک نہ چلے جائیں۔ انسانی لوحِ حیات کی ترکیب اور ساخت ہی ایسی ہے۔ کسی عورت کا قتل کہیں بھی ہو‘ میرا ذہن بہت سے ایسے نقوش کو یادداشت کے دبیز پردوں سے نکال کر سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ ایسے واقعات اردگرد بچپن سے دیکھتے رہے اور جب سرائیکی وسیاب سے تعلیم اور روزگارکی تلاش میں ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئے جہاں اب ہیں تو کچھ دور سے سنتے رہے‘ اور جب وہاں واپس گئے تو کئی کہانیاں سنیں۔ دل دہل جاتا‘ روح تڑپ اٹھتی‘ مگر آہوں اور افسوس کے سوا ہم کیا کر سکتے تھے؟ عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد اورقتل کے واقعات اس علاقے میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ والدہ محترمہ بقیدِ حیات تھیں تو ملنے کیلئے اسلام آباد تشریف لاتیں اور کئی ماہ ہمارے ساتھ رہتیں‘ یا میں ان کی خدمت میں گائوں حاضری دیتا تو ایک دفترکھول کر بیٹھ جاتیں۔ کوئی اور نہ ہوتا‘ رازداری سے اپنے بیٹے کے ساتھ سب باتیں کرتیں اور میں غور سے سنتا رہتا۔ عورتوں کے قتل کے ایسے دردناک واقعات کہ ان کو بیان کرنا تو دور کی بات‘ سوچ کر بھی ایسی افسردگی چھا جاتی ہے کہ کئی دن طاری رہتی ہے۔ انسان اپنے حالات‘ سماجی ماحول اور وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار ہوتا ہے۔ قاتل ہوں‘ معصوم مقتول لڑکیاں اور خواتین ہوں یا دیکھنے اور سننے والے‘ سب نظام کے جبرکے اسیر ہوتے ہیں۔ قبائلی نظام اوراس کے رسوم و رواج نے جنوبی پنجاب کے ہمارے علاقوں کو ابھی تک جکڑ رکھا ہے۔ ایسے ماحول میں عورتوں کی آزادی کا تصور کیا ہو سکتا ہے؟ اب کچھ تعلیم پھیلی ہے‘ کہیں کہیں خوشحالی بھی ہے‘ مگر کبھی اور کہیں ”کاروکاری‘‘ کا سلسلہ بند بھی ہو تو مشکوک مرد اورعورتوں کا قتل اپنے اوپر فرض کر لیتے ہیں۔ مرد اکثر علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں یا ہاتھ نہ لگیں تو عورت گھر میں ہی موجود ہوتی ہے۔ بپھرے ہوئے باپ‘ بھائیوں یا خاوند کے سامنے ماں‘ بہنیں یا کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔ بزدلی‘ ظلم‘ بربریت اور جہالت کو کیا کہیں؟ مائوں کو آنے والے کئی سالوں تک بے کسی کی تصویر بنے روتے دھوتے اور اس سماج پر نوحہ خوانی کرتے نہ جانے کتنی بار دیکھا۔
میری والدہ یہ واقعات مجھے سناتیں تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے نہیں‘ بلکہ اس لئے کہ میں ان ناحق قتل گاہوں میں بیدردی سے ذبح ہونے والی عورتوں کو انصاف دلا سکوں۔ یہ درویش ایک سرد آہ کے ساتھ کہتا‘ اماں‘ ظالموں کو ضرور سزا ملے گی۔ کم ہی ایسا ہوتا دیکھا کہ کاروکاری میں ملوث قاتلوں کو سزا ملی ہو‘ یا بعد میں انہیں ”معاف‘‘ نہ کر دیا گیا ہو۔ قندیل بلوچ کا پندرہ جولائی انیس سو سولہ کو جب اس کے بھائی وسیم نے ملتان میں گلا دبا کر قتل کیا تو وہ سیدھا اپنے گائوں شاہ صدر دین‘ ڈیرہ غازی خان گیا۔ وہاں اس نے دھوم دھام سے اعلان کیا کہ وہ قندیل کو قتل کرآیا ہے۔ اب اسے کوئی ”بے غیرت‘‘ نہیں کہے گا۔ چھبیس سالہ قندیل نے قبائلی روایات سے بغاوت کرکے اپنی زندگی اپنے انداز میں گزارنے کا آزاد راستہ چنا تو دیہات میں بسنے والے بھائیوں اوررشتے داروں کی ”غیرت‘‘ کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ ہمارے دوغلے پن کی تو مثال ہی نہیں ملتی کہ ہم مرد جو چاہیں کریں‘ مگر کہیں عورت کا نام آ جائے تو راست بازی کا نہ صرف اعلیٰ معیار ذہن میں تصور کرتے ہیں‘ بلکہ اس کے کردار کے منصف اور محتسب بھی بن جاتے ہیں۔ مردوں کی قبائلی دنیا میں عورتوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہمارے علاقوں میں رہا ہے۔ کسی کی جرأت ہے کہ ان روایات کے خلاف آواز اٹھا سکے؟ آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے لوگوں کو عورتوں کے کردار کے بارے میں باتیں کرتے۔ ایسے ہی باتیں پھیلتی اورافسانے حقیقتوں کا روپ دھارنے لگتے ہیں۔ اس سے زیادہ نیچ اور گھٹیا بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
جس دن قندیل بلوچ کے قتل کا واقعہ ہوا‘ تو کیمروں والے اس کے گھر اس کے والد اور والدہ‘ جو اس کے ساتھ کرائے کے مکان میں مقیم تھے‘ کا انٹرویو لینے پہنچ گئے۔ اشکبار تھے اور فریاد کناں کہ اس ظالم وسیم کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ بوڑھے ماں باپ کی کفالت قندیل ہی کرتی تھی۔ ساتھ بیٹھے کسی آدمی سے میں نے تب کہا تھا کہ سزا ہو بھی گئی تو یہی بوڑھے والدین عدالت پہنچ جائیں گے کہ معاف کرتے ہیں۔ پچیس سال کی سزا ہوئی۔ اپیلیں خارج ہوئیں۔ سب کچھ ہو گیا تو وہی ہوا جو رشتے دار عورتوں کے قتل کا آخری انجام ہوتا دیکھتے آئے ہیں۔ والد نے ”خدا کی رضا کے لئے‘‘ اپنے بیٹے کو معاف کردیا ہے‘ دوسرے گواہ بھی منحرف ہو چکے ہیں‘ یوں وہ رہا ہوگیا۔ یہ کھیل بار بار کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے‘ تو پھر عورتوں کے قتل کا سلسلہ کیونکر رک سکے گا؟ ذرا غورسے سن لیں‘ ہو کیا رہا ہے۔ ایسے واقعات میں وارث والد‘ بھائی یا اور کوئی نہ ہو تو چچا‘ ماموں کو بنا دیا جاتا ہے۔ وہی تعین کرتا ہے کہ گواہ کون ہوں گے۔ وہ بھی اپنے قابل اعتماد رشتے دار ہی ہوتے ہیں۔ سب جعلی کام ہوتا ہے۔ وقت آنے پر وہ منحرف بھی ہو جاتے ہیں‘ اور اکثر ڈرامے بازی کیلئے ٹرائل کورٹ کی حد تک گواہ بیان کی ”صداقت‘‘ کا بھرم رکھتے ہیں۔ اس کے بعدکچھ بھی ہو سکتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے یہ ضابطہ بنا تھا کہ قاتلوں کو ورثا خدا کی رضا کے لئے معاف کر سکتے ہیں۔ اگرمعاملہ خاندان کے اندرکا ہو ‘ جس طرح قندیل بلوچ کا ہے تو عورتوں کا قتل گھر کی بات ہی سمجھ لیں۔ بھئی انگریزوں کا زمانہ تو کل کی بات ہے‘ یہ تو صدیوں سے فساد فی الارض کا معاملہ ہے۔ ایک اور اصول مالی معاوضے پہ قتل معافی کا طے ہوا۔ غالباً اس حکومت کے دورمیں قانون میں ترمیم ہوئی ہے کہ اگر قاتل اور مقتول کے ورثا کے مابین معافی نامہ پر اتفاق ہو جائے تو جج صاحبان کا فیصلہ آخری ہو گا‘ وہ نامنظور کرسکتے ہیں۔ کہاں تجدد اور روشن خیالی کے نظریات جو تحریکِ پاکستان کا فکری سرمایہ تھے‘ اور کہاں ہمارا بھٹکے راستوں پہ ملک کو ڈال کر حکومتیں چلانا۔ ایک اور قاتل کو جرم تسلیم کرنے کے باوجود آزاد دیکھ کر روح پھر سے بے چین ہے۔ سوچ میں پڑا ہوں کہ جو سترسال سے دیکھ رہا ہوں‘ وہی عورتوں کے ساتھ ہوتا رہے گا؟ کہیں کوئی احساس ہی نہیں رہا۔ لوٹ کھسوٹ ہو‘ اپنا الو سیدھا کرنے کی روایت ہو تو مظلوموں کی بات سنی ان سنی ہو جاتی ہے۔
ہمارا دل بھی پتا نہیں کس دھات کا بنا ہوا ہے‘ روزانہ ایسے دلخراش واقعات کا سن کر ٹوٹ جاتا ہے‘ بس ٹوٹتا ہی رہتا ہے‘ مگر اس کے دھڑکنے کی دھک دھک عالمِ افسردگی میں شور کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور احساسِ گناہ کے ملے جلے جذبات میں ہم غوطے لگاتے ہیں کہ کچھ کر نہیں سکے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہی گلا سڑا سماجی ڈھانچہ اور وہی بدبودار روایات کی حکمرانی۔ ہجرت تو کرڈالی‘ مگرزمین سے تعلق کیسے ختم ہو؟ دور رہیں اور کہیں اور بھی چلے جائیں‘ تو مظلوموں کی پرچھائیاں ہمارا ساتھ کب چھوڑیں گی۔ چلو سانس لیتے قبرستانوں میں مائوں کی فریاد میں اپنی بھی شامل کر دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author