نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ کہاں ، ہم کہاں||ڈاکٹر مجاہد مرزا

کہاں ان کی جمہوریت کہاں ہماری ٹوٹی پھوٹی جمہوریت؟ کہاں ہماری پسماندہ معیشت ویسے ہی جیسے ہماری اچھل کر باہر آتی فضلہ بھری بدرووں کا پانی، کہاں ان کے ہاں گند دکھائی ہی نہ دے جیسی شائستہ اور مستعد معیشت؟ بھائی وہ کہاں، ہم کہاں؟

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپیس ایکس کے مالک انجنیر اور بزنس مین ایلن مسک نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ 2050 تک دس لاکھ افراد کو مریخ بھجوا دیں گے۔ ان کے پروٹو ٹائپ خلائی جہاز کی ہر روز تین پروازیں روانہ ہونگی جس میں ایک سو افراد اور سات سکول کی بسوں بمع بچوں اور ان کے بستوں کے اوزان کے برابر سامان جیسے کہ اشیائے خورونوش، تعمیراتی مادے وغیرہ وغیرہ بھیجے جائیں گے۔ ہر 26 ماہ کے بعد ایک ایسا موقع آتا ہے جب ایک ماہ کے لیے زمین اور مریخ کا فاصلہ کم ترین ہوتا ہے۔ انسانوں اور اشیاء کی ترسیل انہیں ایام میں کی جائے گی۔ ان کے مطابق مریخ پر بہت سی ملازمتوں کے مواقع ہونگے۔ یہ کہ جن کے پاس جانے کی خاطررقم نہیں ہوگی انہیں قرض کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
اسی طرح سائنسدانوں کے مطابق جسے ہم خلاء خیال کرتے ہیں وہ یکسر خلاء نہیں ہے بلکہ اس میں بھی معمولی سے رگڑ موجود ہوتی ہے۔ اس رگڑ کی مقدار ماپنے کی خاطر دنیا میں سب سے زیادہ متحرک شے بنائی گئی ہے جس کی رفتار 300 ارب یعنی تین کھرب گھماؤ فی منٹ ہے۔ اس کا مطلب ہوا پانچ ارب گھماؤ فی سیکنڈ۔ یہ کیا چیز ہے جو اس سرعت سے گھومتی ہے یہ silica یعنی ریت کا ایک مہین ترین ذرہ ہے جس کا حجم ایک نینو ملی میٹر ہے یعنی سنٹی میٹر کے دسویں حصے کا بھی ہزارواں حصہ اور اس مہین ترین ذرے کو مصنوعی خلاء میں معلق کرکے ایک خاص لیزر شعاع کی مدد سے گھمایا گیا ہے۔
پھر روس میں ایک لیبارٹری میں مختلف ملکوں کے ستر انسانوں کی لاشیں انتہائی سرد کنٹینرز میں محفوظ رکھی گئی ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ جیسے ہی انسان موت پر قابو پا لے گا تو انہیں پھر سے زندہ کر لیا جائے گا۔ ایک شخص اپنی ماں کو محفوظ کروانا چاہتا تھا۔ اس کے پاس دینے کو تیس ہزار ڈالر نہیں تھے۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ رعایت ہو سکتی ہے اگر وہ اپنی والدہ کا صرف دماغ محفوظ کروا لے۔ اس نے استفسار کیا کہ اس کا کیا فائدہ ہوگا تو بتایا گیا کہ تب تک تو ایسے جسم بھی بنا لیے جائیں گے جو زندہ انسانوں کے تمام اعمال سرانجام دے سکیں گے، اس پر تمہاری والدہ کا دماغ فٹ کر دیا جائے گا۔ ایک خاتون کو اپنی بلی اتنی عزیز تھی کہ اس نے اپنے ساتھ اپنی بلی بھی اس سرد ترین کنٹینر میں محفوظ کروا لی کیونکہ وہ اپنے ساتھ اپنی بلی کو بھی زندہ دیکھنے کی خواہاں تھی۔
ہم انٹرنیٹ پر دوسرے ملکوں میں موجود دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ وڈیو کالز کرنے کے باوجود ان سب باتوں کو ناممکن اور بعض اوقات کفر تصور کریں گے۔ کہا جاتا تھا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے بچہ یا بچی اس کا علم صرف خدا کو ہو سکتا ہے اب ایک معمولی سی ایجاد یعنی الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے کوئی بھی ماں کے بطن میں پلتے بچے کی جنس کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ کسی زمانے میں اگر کوئی کہتا کہ وہ چند گھنٹوں میں لاہور سے نیویارک یا سڈنی جا سکتا ہے اور وہ بھی فضا میں معلق رہ کر تو لوگ اسے دیوانہ سمجھتے مگر آج یہ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ بس ٹکٹ لینا ہوتا ہے اور وہ بھی آن لائن کسی بھی ٹکٹ ایسی چیز کے بغیر۔
ہماری سوچ ان سب سے مختلف اور پسماندہ کیوں نہ ہو کیونکہ جن ملکوں میں یہ سب ترقیاتی اعمال یعنی طیارہ سازی سے انٹرنیٹ کی فی الحال اعلٰی ترین شکل تک انجام دیے گئے اور دیے جا رہے ہیں وہاں انسانوں کے لیے صحت و صفائی، بہتر خورونوش سے متمدن طرز حیات تک، اعلٰی تعلیم اور بہتر روزگار کے مواقع سے لے کر سیروتفریح کے لطف لینے تک کے وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ وہاں ٹریفک قوانین کے مطابق رواں دواں رہتی ہے۔ وہاں راکٹ کی رفتار سے چلنے والی بسیں بس سے باہر موجود ہر ذی روح اور بس کے اندر موجود اونگھتے ہوئے مسافروں کے کان پھاڑ دینے والی آواز والے پریشر ہارن بجاتے ہوئے، سڑک کی تیز رفتار دو لینز پر اڑیل ٹٹو کی طرح جمے رہ کر چلتے ٹرکوں کو رانگ سائیڈ سے کراس نہیں کرتیں۔
وہاں جیسے بلوچستان ہائیکورٹ کے باہر برف میں ایک پانچ سال کا بچہ جوتا پالش کرنے کو دو برش رکھ کے سر کو چادر سے ڈھانپے بار بار چادر سرکا کے نہیں دیکھتا کہ اس کے ننھے ہاتھوں سے پالش کروانے کوئی گاہک آتا دکھائی دیتا ہے یا نہیں۔ اتنے چھوٹے بچے سے کوئی پالش کروائے گا بھی کیوں؟ ناتواں اور ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ کیا خاک بوٹ چمکائیں گے۔ وڈیو وائرل ہونے پر اسے وہاں کا کوئی گورنر تلاش کرکے فوٹو سیشن بھی نہیں کرواتا اور بچہ حیرت سے چھت پر جگمگاتے فانوس کو بھی نہیں دیکھتا۔ ہمارے ہاں ایسے شاید لاکھوں بچے ہوں مگر سب کی وڈیو تو نہیں بنتی نا۔
ان ملکوں میں جہاں کی باتیں بتائی گئی ہیں آٹے گندم کا بحران پیدا نہیں ہوتا۔ ثروت مند افراد انتخابات پر صرف کی گئی اپنی دولت سے دو، تین گنا عوام سے واپس لینے کی خاطر بزنس کارٹل کے زریعے اشیائے خورو نوش اور اجناس کی مصنوعی قلت پیدا نہیں کرواتے۔ وہاں ایسی بیہودہ پالیسیاں نہیں ہوتیں کہ گندم اضافی ہے تو اسے برآمد کردو یا مرغیوں کی فیڈ میں ڈال دو۔ تیس روپے کلو کے حساب سے برآمد کی تھی اب کمی ہو گئی چنانچہ ستر روپے کلو کے حساب سے مزید گندم درآمد کر لو۔ وہاں ریٹائرڈ جرنیل نجومیوں کی طرح پیشگوئی نہیں کرتے کہ دشمن ملک کی اگلی چال کسی طیارے کی ہائی جیکنگ ہوگی ایسے جیسے جنرل صاحب دشمن کا ذہن پڑھ سکتے ہوں یا دشمن انہیں خود سے مطلع کر دیتا ہو تاکہ آپ سدباب کر لیں۔ چاہیں تو اپنے سننے والے عام لوگوں کو گمراہ کر لیں۔
کہاں ان کی جمہوریت کہاں ہماری ٹوٹی پھوٹی جمہوریت؟ کہاں ہماری پسماندہ معیشت ویسے ہی جیسے ہماری اچھل کر باہر آتی فضلہ بھری بدرووں کا پانی، کہاں ان کے ہاں گند دکھائی ہی نہ دے جیسی شائستہ اور مستعد معیشت؟ بھائی وہ کہاں، ہم کہاں؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author