دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مرضی کا سانس لینا جرم۔۔۔||سارہ شمشاد

۔ برہان وانی یا سید علی گیلانی یا نانا کی لاش کے سامنے بیٹھا ایان لااِلٰہ جب بھی کہتے ہیں تو بھارتی ریاست خوف میں جکڑی نظر آتی ہے لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ تو اہل ایمان کبھی جھکے ہیں اور نہ ہی کبھی بکے ہیں نہ تو اہل ایمان کو تلواروں سے زیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بندوق کے زور پر انہیں کوئی لااِلٰہ کہنے سے روک سکتا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتہا پسند مودی کے بھارت میں مسلمانوں کے لئے تنگ نظری عروج پر پہنچ گئی ہے ک اب مسلمان خواتین کا حجاب پہننا بھی سزا بن گیا ہے۔ جمہوریت کے دعویدار ملک میں اپنی مرضی کا سانس لینا جرم ہے جس کا ثبوت مسلمان بہادر لڑکی مسکان کا نعرہ تکبیر کی آواز نے پوری دنیا میں گونج کر اقوام عالم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بھارت کو آج اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ مودی سرکار خود ہے جس سے جمہوریت کے چیمپئن کو تنگ نظری، انتہا پسندی جیسی برائیوں میں اس طرح دھکیل دیا ہے کہ اب تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کس کا کیا بنے گا کیونکہ بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتیں بھی جس انداز میں خود کو غیرمحفوظ تصور کررہی ہیں اس کی ماضی میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ بھارت چونکہ شروع سے ہی امریکہ کا لاڈلہ رہا ہے اسی لئے تو بڑی عالمی طاقتوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جبکہ دوسروں (پاکستان) کی آنکھ کا بال بھی نظر آجاتا ہے لیکن اب جس طرح بھارت کی اصلیت دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آرہی ہے تو اسے مکافات عمل کا نام ہی دیا جاسکتا ہے کہ اس نے معصوم کشمیریوں پر 5اگست 2019ء کے بعد جس طرح عرصہ حیات تنگ کرکے رکھ دیا ہے ایسے میں ان کی زندگی ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ عالمی برادری کی خاموشی نے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا لیکن لوگ یہ بھول گئے کہ ایک ذات اوپر بھی بیٹھی ہے او وہ اللہ کی ذات ہے جس کے بے رحم انصاف میں سب خس و خاشک کی طرح بہہ جاتا ہے اس لئے اگر مودی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اس کے اس ظلم و جبر کے سامنے کوئی آواز بلند نہیں کرے گا تو آفرین ہے اس نہتی بہادر مسلم خاتون پر جس نے انتہا پسندوں کے ساتھ تن تنہا نعرہ حق بلند کیا اور بنا ڈرے اس نے بہادری کے ساتھ بھارتی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
بھارت جیسا ظالم، جابر اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والا دوسرا کوئی ملک نہیں لیکن مودی سرکار شاید یہ بھول گئی ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور اس کا بہترین مظاہرہ اس نہتی لڑکی نے اس وقت کیا جب وہ کالج میں پڑھنے کے لئے آئی تو انتہا پسند پلے کارڈ اٹھائے اسے تنگ کیا اور نعرے لگائے مگر جس بہادری اور جرات کا مظاہرہ اس نہتی لڑکی نے کیا ہے وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ طاقتیں کدھر ہیں جو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد خواتین کی آزادی اور تعلیم بارے مختلف خدشات کا اظہار کرتی تھیں اب ان کی زبانیں گنگ کیوں ہیں۔ایسے لبرلز جن کو ہر وقت خواتین کے بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرنا تو یاد رہتا تھا اب وہ اس بارے کیا کہنا پسند کریں گے۔ حجاب ہر خاتون کا بنیادی حق ہے۔ اگر خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ بھاری مودی سرکار کے دور میں جس طرح ایک فاشسٹ سٹیٹ کے طور پر سامنے آیا ہے اس کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہیے لیکن بھارت کی بدترین انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی برادری کی خاموشی ہزار سوالوں کو تو جنم دے ہی رہی ہے وہیں عالمی برادری کا دہرا معیار بھی اس کا عکاس ہے کہ افغانستان میں تو یورپی قوتوں کو خواتین کے بنیادی حقوق کا درد ہے لیکن بھارت میں کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت کا طوفان کئی دہائیوں سے وہاں کی حکومت نے روا رکھا ہوا ہے اس بارے بھی کچھ کہنے کی کبھی عالمی طاقتیں جسارت کریں گی یا حسب رویات خاموشی ہی اختیار کریں گی۔
بھارت جیسے فاشسٹ ملک میں جس طرح ایک تنہا اور نہتی لڑکی نے مزاحمت کی ہے اس کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور وہ ان تمام لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو خاموشی سے ظلم سہتے ہیں اگرچہ بھارت میں پچھلے کچھ عرصے سے پھیلی بے چینی میں جس شدت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے وہ دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہیے کہ اب بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ بھارت جو خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار کہلوانا پسند کرتا ہے، میں گٹھن، تنگ نظری اور تعصب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہاں پر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز شخص اگر مسلمان ہے تو اسے بھی انتہا پسندوں کے تعصب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مودی کے انتہا پسند بھارت میں مسلمانوں پر جس تیزی کے ساتھ زمین تنگ کی جارہی ہے وہ عالمی برادری کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ باحجاب مسلم خواتین کا جینا جس طرح بھارتی انتہا پسند دشوار بنارہے ہیں اس کا ثبوت کرناٹک کالج میں ہندو انتہا پسندوں کا حجاب پہننے پر طالبہ کو گھیرے میں لینا ہے، آفرین ہے اس ببر شیرنی پر جو غنڈوں کے سامنے ڈٹ گئی اور دوسروں بالخصوص دیگر خواتین کو ایک واضح پیغام دے گئی۔ یاد رہے کہ جب مسلم خواتین نے کالج کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تو انتہا پسندوں نے پتھرائو کیا۔ جمعیت علمائے ہند نے طالبہ کے لئے انعام کا اعلان بھی کیا۔ بہادر مسکان کا کہنا ہے کہ ہندو انتہا پسند حجاب کی آڑ میں مسلم لڑکیوں سے تعلیم کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر سے مسکان کے نام تعریفی پیغامات بھیجے جارہے ہیں۔
اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ کسی کو بھی اپنی پسند کا لباس پہننے سے روکا نہیں جاسکتا۔ لڑکیوں کو حجاب پہن کر سکول جانے سے روکنے کے عمل کو نوبل پرائز یافتہ ملالہ نے خوفناک قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جب کوئی مسلم لااِلٓہ کہتا ہے تو بھارت کی ریاست کانپ جاتی ہے جس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ڈرتے ہیں انتہا پسند ایک حجابی لڑکی سے۔ برہان وانی یا سید علی گیلانی یا نانا کی لاش کے سامنے بیٹھا ایان لااِلٰہ جب بھی کہتے ہیں تو بھارتی ریاست خوف میں جکڑی نظر آتی ہے لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ تو اہل ایمان کبھی جھکے ہیں اور نہ ہی کبھی بکے ہیں نہ تو اہل ایمان کو تلواروں سے زیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بندوق کے زور پر انہیں کوئی لااِلٰہ کہنے سے روک سکتا ہے۔ دنیا کرناٹک جیسے واقعات رہتی دنیا تک دیکھتی رہے گی کہ جب ایک نہتی لڑکی کس طرح دہشت گردوں، انتہا پسندوں، بلوائیوں اور جتھے کے سامنے ڈٹ گئی۔ سینکڑوں انتہا پسند ایک نہتی لڑکی کو زیر نہیں کرسکے اسے حجاب ہٹانے پر مجبور نہیں کرسکے۔ انتہا پسندوں کے سامنے کھڑی ہونے والی مسکان کو ہم سلام پیش کرتے ہیںاور بطور مسلمان ہم سب کو ایک مرتبہ پھر فخریہ انداز میں یہ کہنے کا موقع دیا کہ ا سلام کے نام پر مسلمان کی جان بھی قربان ہے۔ یاد رہے کہ حجاب پر پابندی کا معاملہ بھارتی عدالت میں زیربحث ہے لیکن حجاب مسلم خواتین کا بنیادی حق ہے جس کو کوئی طاقت نہیں چھین سکتی اس لئے ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف فوراً میدان میں آئے وگرنہ یہ تو دیوار پر لکھا جاچکا ہے کہ بھارت کو اب کوئی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے نہیں روک پائے گی۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author