گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید حیا کے متعلق ایک خوبصورت واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس سے مسلمان عورت کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے گھر سے نکلے!!حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے، جو ﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ ایک مرتبہ سفر میں مدین پہنچے تو گرمی کا موسم تھا پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑچکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے وہاں بھیڑ لگی ھے کچھ نوجوان اپنی جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں اور اپنے جانوروں کو پانی پر جانے سے روک رہی ہیں۔ جب آپ نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کررہی ہیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے وہ اس قابل نہیں کہ چل پھرسکے اور وہ دونوں اپنی جانوروں کو پانی پلانے کے لئے آئی ہیں لیکن ہم اپنے جانوروں کو آگے کرتی ہیں تو یہ طاقتور لوگ انہیں پیچھے دھکیل دیتے ہیں اس لئیے جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے جائیں گے تو آخر میں ہم اپنی مویشیوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی بات سن کر جلال آ گیا اور وہ بھیڑ کو چیرتے ہوے آگے بڑھے اور تنہا ڈول کھینچ کر پانی نکالا اور جانوروں کو پلادیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کردیا۔ باپ خود بھی پیغمبر تھے فرمایا کہ جاؤ اس نوجوان کو بلاکر لاؤ تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی ، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز جوکہ شرم و حیا سے لبریز تھا اس طرح بیان کیا ہے:ترجمہ: ’’پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جو آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘(القصص ؍ ۲۵)حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی۔ شرم و حیا کا دامن نہیں چھوڑا نگاہ نیچے تھی۔بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔ﷲ تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بناکرحضرت محمد رسول اﷲﷺ پر نازل کردیا تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم و حیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھاکر نہ چلیں بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت اور حیا ان سے واضح نظر آئے۔ جس طرح شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی۔اور یہی بیٹی تھی جس کو حضرت موسیؐ کی بیوی بننے کا شرف حاصل ھوا۔ عملی اعتبار سے حیا کے تین شعبے ہیں:ﷲ تعالیٰ سے حیا۔۔۔لوگوں سے حیا۔۔۔ اپنے نفس سے حیا۔۔۔ﷲ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کو نہ توڑے۔ لوگوں سے حیا یہ کہ حقوق العباد کو ادا کرے،لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو معیوب اور برا سمجھا جاتا ہے،اُن کے اظہار سے بچے اور اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر برے اور قابل مذمت کام سے بچائے۔یہی وجہ ھے کہ حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔اب آپ ایک اور منظر دیکھیں۔۔۔۔
ایک گاٶوں میں این جی اوز کی کچھ
عورتیں گئیں ۔وہاں پر ایک سادہ سی عورت ان کو ایک گھر میں ملی۔انہوں نے عورت سے کئی سوالات کئے جس کے
اس سادہ عورت نے جوابات دئیے ۔ظاہر ھے وہ ایک ان پڑھ اور دنیا کے حالات سے بالکل بے خبر گھریو عورت تھی اس لئیے اس کے جوابات ان ماڈرن عورتوں کو اجڈ لگے اور وہ طنز کر کے ہنسنے لگیں۔ آخر میں ان ماڈرن عورتوں نے اس دیہاتی عورت کی گھر میں کھڑی گاۓ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تمھاری زندگی اس گاۓ کی طرح ھے ۔ تم ساری زندگی اس چار دیواری میں بند رہتی ہو تمھاری اپنی کوئی مرضی نہیں ھوتی!!!۔بچے پیدا کرتی ھو اور ان کو پالنے پوسنے پر ساری زندگی گزار دیتی ھو ۔بھلا یہ بھی کوئی زندگی ھے؟۔اس سادہ عورت نے جب یہ بات سنی تو گھر سے باھر کھڑی گدھی کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ او میری ماڈرن بہنو تمھاری مثال تو اس باھر کھڑی گدھی کی سی ھے جب جس کے دل میں آۓ اس کو کان سے پکڑ کر جھاں چاھے لے جاۓ کوئی پوچھنے والا نہیں!!!۔۔۔این جی او کی عورتیں اس سادہ عورت کی بات کا جواب نہ دے سکیں اور وہاں سے رفو چکر ھو گئیں۔۔۔ اب ایک اور منظر دیکھیں۔۔۔۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ماں کو گالیاں دیتا ھے۔ آپ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی سے بھری ھوئی مشک لائی جائے ،، پھر وہ مشک اس کے پیٹ پر خوب کس کر بندھوا دی اور اس کو کہا کہ اسے اسی مشک کے ساتھ چلنا پھرنا بھی ھے اور کھانا پینا بھی ھے اور سونا جاگنا بھی ھے۔ایک دن گزرا تو وہ بندہ بلبلاتا ھوا حاضر ھوا کہ اس کو معاف کر دیا جائے وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ آپؓ نے پانی آدھا کر دیا مگر مشک بدستور اس کے پیٹ پر بندھی رھنے دی۔ مزید ایک دن کے بعد وہ بندہ ماں کو بھی سفارشی بنا کر ساتھ لے آیا کہ اس کو معاف کر دیا جائے اور اس مشک کو ھٹا دیا جائے وہ دو دن سے نہ تو سو سکا ھے اور نہ ھی ٹھیک سے کھا سکا ھے۔آپ نے اس کی ماں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس نے تجھے پیٹ کے باھر نہیں بلکہ پیٹ کے اندر اتنے ھی وزن کے ساتھ 9 ماہ اٹھا کر رکھا ھے۔ نہ وہ ٹھیک سے سو سکتی تھی اور نہ ٹھیک سے کھا سکتی تھی ،پھر تو اسے موت کی سی اذیت دے کر پیدا ھوا اور 2 سال اس کا دودھ پیتا رھا ، اور جب اپنے پاؤں پر کھڑا ھوا تو اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے لئے تیرے منہ سے گالیاں نکلتی ھیں ،، اگر آئندہ یہ شکایت موصول ھوئی تو تجھے نشانِ عبرت بنا دونگا۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر