نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنسی ہراسانی کے ملزمان کی رہائی انصاف کا قتل یا شواہد کی کمزوری||فہمیدہ یوسفی

جنسی ہراسانی کا شکار کوئی بھی جنس ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا کوئی ذہنی معیار نہیں ہے، تاہم جنسی ہراسانی کے واقعات میں ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جس میں ذاتی مفاد یا لالچ کے تحت الزامات عاید کئے گئے جو بعد میں واپس لے لئے گئے یا جھوٹے ثابت ہوئے۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی پولیس نے جامعہ کراچی میں مبینہ ہراسانی کا مقدمہ درج کر کے چھ مشتبہ نو عمر لڑکوں کو گرفتار ی کے بعداکتوبر2020 کو جب گرفتار نوجوانوں کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیاتو عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیاتھا۔یہ مقدمہ طالب علم شہیر علی کی مدعیت میں ٹاؤن تھانے میں درج کیا گیا تھا جس میں جنسی ہراسانی، جان بوجھ کر کسی کی بے عزتی کرنا اور اشتعال انگیزی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔پولیس کا کہنا  تھا کہ گرفتار ملزمان نے واقعے سے لاعلمی کا اظہا کیا جبکہ یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج ڈاکٹر معیز خان کا کہنا تھا کہ یہ سارے کم عمر لڑکے ہیں جن کے والدین یونیورسٹی میں ملازم ہیں۔

کراچی یونیورسٹی ہراسانی کیس میں مبینہ چھ ملزمان کی ضمانت پر رہائی پانے والوں نے اپنا قانونی حق تو استعمال کرلیا اور عدالتوں سے ریلیف حاصل کرلیا لیکن کیا اس سے انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوسکیں گے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہراسانی کا شکار فریق کے لئے تلاش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا لگتا ہے۔ ملزمان پر لگایا جانا والا الزام کتنا سچا ثابت ہوگا یہ انصاف کے اداروں کے تعین کردہ اصولوں کے مطابق ہی ہوگا۔

 جنسی ہراسانی کا شکار کوئی بھی جنس ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا کوئی ذہنی معیار نہیں ہے، تاہم جنسی ہراسانی کے واقعات میں ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جس میں ذاتی مفاد یا لالچ کے تحت الزامات عاید کئے گئے جو بعد میں واپس لے لئے گئے یا جھوٹے ثابت ہوئے۔

لانڈھی جیل کراچی میں جنسی ہراسانی مقدمے میں گرفتار اور رہائی پانے والے بہادر آباد میں قائم ایک باربی کیو ریسورنٹ کے مالک  قاری کے نام سے معروف (فرضی نام محمد رحیم) سے ملاقات ہوئی۔ 2017 میں حافظ رحیم کو ش (شازیہ فرضی نام) کے ساتھ جنسی زیادتی و ہراسانی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کا مقدمہ ملیر کورٹ کے سیشن جج کے روبرو چل رہا تھا، قاری نام ملزم  لانڈھی جیل میں قائم مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔

جیل کی حالت زار کے حوالے سے سب بخوبی واقف ہیں کہ سفارش اور رشوت کے عوض مراعات مل جاتی ہیں، (ر) کی شرافت اور سادگی سے قریبا بیرک کے قیدی اور جیل انتظامیہ کافی مطمئن تھے، اندرونی نظم و نسق کے منتظم جیلر کامران بلوچ کی اجازت سے (ر) کو بیرک نمبر 2 کے سیاسی بلاک کے ساتھ منسلک راہدری میں منتقل کیا گیا تھا،

 کیونکہ ایک سیاسی جماعت کے اسیر قیدی کے ساتھ بہتر تعلقات کی وجہ سے (قاری) چاہتا تھا کہ وہ ایسے بیرک جائے جہاں اسے پانچ وقت کی نماز نہ پڑھانی پڑھے اور وہ خود کو جیل میں آزاد سمجھے، چونکہ جیل میں معروف سیاسی جماعتوں کے سیٹ اپ ہوتے ہیں جو سیاسی بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں تاکہ وہاں سیاسی مخالفین آپس میں لڑ جھگڑ کر ماحول خراب نہ کریں،

اس لئے کراچی کی لسانی تنظیموں (ایم کیو ایم پاکستان) مہاجر قومی موومنٹ حقیقی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قیدی بھی جدا رکھے جاتے تھے کیونکہ ان کے درمیان کسی لڑائی سے بچنے کے لئے بیرک الگ الگ بلاک میں بنائے گئے تھے۔

انہی جماعتوں میں ایک لسانی تنظیم کی سفارش پر غیر سیاسی شخص کو بیرک کی راہدی میں منتقل کیا گیا تھا۔ لانڈھی جیل میں دار القرآن ٹرسٹ اور اہل سنت  بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے دعوت اسلامی کے تعاون سے مدرسہ بنا ہوا ہے۔ جنسی زیادتی کے مقدمے میں نامزد ملزم قاری کو جب سیاسی بیرک کی راہدری میں منتقل کیا گیا تو کچھ دنوں بعد اس کے کرتوت سامنے آئے جب  ایک قیدی سید جان نے شکایت کی کہ قاری اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہا ہے۔

لسانی جماعت کے سیٹ اپ کے ذمے دار نے بتایا کہ اس پر جب یہ حقیقت منکشف ہوئی تو اُسے شدید غصہ آیا، اس نے جب تحقیق کرکے مکمل تسلی کرلی کہ قاری کی غلطی ہے تو جیل انتظامیہ کو آگاہ کیا اور اُسے بلاک 1کی راہدری بیرک سے پہلے بند وارڈ اور پھر دوسری بیرک میں منتقل کردیا۔

 جنسی زیادتی کے مبینہ ملزم نے اقرار کیا تھا کہ وہ مدرسے میں اُن قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا رہا ہے جو جیل میں رشوت یا سفارش نہیں رکھتے تھے۔ اس قاری کا یہ اعتراف بھی افسوس ناک سامنے آیا کہ اس پر قائم مقدمہ درست ہے، لیکن فریق سے صلح کی بات چل رہی ہے اور وہ جلد باہر ہوجائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا اور ضمانت کے بعد طویل پیشیاں اور پھر کمزور شواہد اور مدعی کی جانب سے پیروی نہ کرنے پر رہا ہوگیا اور وہ آج بھی کراچی کے پوش علاقے میں اپنا ریسٹورنٹ چلا رہا ہے۔

جنسی ہراسانی میں سزا نہ ملنے اور قانون اور انصاف کی سست رو چلن کی وجہ سے اُس نے مزید کتنے جرائم کئے ہوں گے، اس کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سیاسی جماعت کے ذمے دار کے مطابق وہ بھی جیل کی رہائی کے بعد جب اس قاری سے ملا تو اُسے اپنے حرکات پر وئی شرمندگی نہیں تھی۔

کراچی کی جیل لانڈھی میں ایک اور جنسی زیادتی کے مقدمے کے حوالے سے سٹی کورٹ کے حسنین مجاہد کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ملزم کتنا سچ اور جھوٹ کہہ رہا ہے لیکن ہر ملزم کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، انہوں نے ایک ایسے ٹیوشن ٹیچر کی رو داد شیئر کی، اس کے موکل جو جیل میں ماسٹر کے نام سے معروف تھا، اس پر ایک کم سن طالبہ نے جنسی ہراسانی کا مقدمہ گلشن حدید تھانے میں درج کرایا۔

 ایڈوکیٹ کے مطابق یہ کئی برس تک مقدمہ چلتا رہا، شواہد ملزم کے خلاف تھے تاہم رضا مندی کے لئے کوشش کی جا رہی تھی، اس کیس کا اہم پہلو یہ تھا کہ ماسٹر کی فیملی کو جب علم ہوا کہ اس نے مبینہ طور پر ایسی گھناؤنی حرکت کی ہے تو وہ پنجاب منتقل ہوگئے اور ملزم کے لئے کوئی وکیل تک نہیں کیا۔

 ماسٹر جیل میں بیرک انچارج بن کر پیسے جمع کرتا رہا اور پھر اپنے لئے ایک وکیل کرلیا۔ اپنے ایک دوست کے ذریعے گلشن حدید میں اپنی رہائش گاہ کو فروخت کردیا اوراپنے بچنے کی سبیل نکالتا رہا۔

 یہاں تک کہ جس لڑکی نے اُسے جنسی ہراسانی کے الزام میں بند کروایا تھا وہ عدالت کے طویل سماعت و تاریخوں پر جانے کے علاوہ اپنے علاقے میں نمایاں ہوچکی تھی، اس کے والدین اور لڑکی (ثمینہ فرضی نام) نے اس بات پر صلح کی حامی بھر لی کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرے گا تاکہ اس پر جو بد نامی کا داغ لگا ہے وہ مٹ سکے۔

اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں، جھٹ پٹ سارے قانونی معاملات طے ہوگئے اور عدالت سے جنسی ہراسانی کا مبینہ ملزم شواہد کے باوجود مدعی کی جانب سے عدم پیروی پر رہا ہوگیا۔ رہائی کے بعداس نے معاہدے کے مطابق ماسٹر سے شادی کرلی اور پھر اس کے ساتھ پنجاب منتقل ہوگئی، اب ماسٹر، اس کی فیملی اور وہ ہراسانی کا شکار لڑکی ایک ایسے محلے میں رہ رہے ہیں جو ان کے ماضی کے بارے میں نہیں جانتے۔

جنسی ہراسانی کا فعل متاثرہ فریق کی زندگی پر کتنا اثر ڈالتا ہے اس کا اندازہ صرف کیا جاسکتا ہے محسوس نہیں کیا جاسکتا، قیدیوں کو اپنے اہل خانہ سے ملاقات کرانے والے ایک پولیس اہلکار فہیم سولنگی نے بتایا کہ وہ ملاقات کرانے کے لئے اہل خانہ سے رشوت لیتے ہیں، کیونکہ یہ ایک جیل کا نظام ہے، کراٹین جیل کے اندر ایک ایسی بیرک ہوتی ہے جہاں نئے قیدی جب لائے جاتے ہیں تو ان سے بھاری رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اہل خانہ کو مجبور کرنے کے لئے جیل سے فون کرائے جاتے ہیں اور جب اہل خانہ کا کوئی فرد آتا ہے تو ان کے سامنے قیدی کو ہراساں کرکے رشوت مانگی جاتی ہے۔

 جو انہیں اگلے دن فراہم کرنا ہوتی ہے، اہلکار سولنگی نے بتایا کہ ایک ایسا ہی قیدی ملاقات روم میں لایا گیا تو اس کی دو بہنوں کو سامنے کرایا گیا ، اس قیدی پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ اس کو دیکھ کر اس کی بہنیں رونے لگیں۔

یہ خواتین کراچی کے علاقے لیاقت آباد کی رہائشی ہیں، انہوں نے کراٹین بیرک کے انچارج سے منت سماجت کی کہ ان کے پاس پیسے نہیں، انہیں مت ماریں لیکن بیرک انچارج کراٹین کی رشوت کی رقم آگے دیتا ہے اس لئے اس کو رحم بھی نہیں آتا، اہلکار نے بتایا کہ جب لڑکی کی فریاد بہت بڑھ گئی تو کراٹین انچارج نے ان لڑکیوں سے کہا کہ فلاں جگہ جا کر اپنا جسم بیچ دو مجھے رقم مل جائے، یہ سن کر اہلکار بھی لڑکیوں کے ساتھ سکتے میں آگیا اور اس نے کراٹین بیرک کے انچارج کو کہا کہ تمھاری رقم میں دے دوں گا، اسے مدرسے شفٹ کردو۔ خواتین ہوں یا مرد لڑکے، جنسی ہراسانی کا شکار رہتے ہیں۔

جنسی ہراسانی کے الزام میں زیادہ تر مقدمے میں زیادہ تر مقدمات اغوا کے بھی بنتے ہیں، جس میں لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام لگایا جاتا ہے۔

گلستان جوہر کے ایک خاندان کے رہائشی سلیم (فرضی نام) کو ایک لڑکی (فرزانہ) نے محبت کے جال میں پھنسایا اور اُس کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ گھر والوں نے کسی نہ کسی طرح لڑکی کو گھر بلالیا اور نوجوان طالب علم سلیم پر اغوا و زیادتی کا مقدمہ بنا ڈالا۔

اس نے لڑکے نے اپنی کئی فوٹیج و تصاویر بھی تفیشی افسران سے شیئر کی تھیں لیکن لڑکی کے گھر والے رسوخ رکھتے تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر جھوٹے کیس میں بند کرادیا اور 50لاکھ روپے کی ڈیمانڈ رکھی۔

نوجوان طالب علم نے اپنی رو داد شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے کسی نہ کسی طرح رقم کا بندوبست کرکے رہا کروایا اور آج بھی اپنی جذباتی غلطی کو یاد کرکے پچھتاتا ہوں کہ اس کی وجہ سے گھر والوں کو کتنی بدنامی اور پریشانی اٹھانا پڑی۔

 دسمبر2021میں وزارت انسانی حقوق نے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رکن اسمبلی ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو کے سوال پر تحریری جواب جمع کرادیا۔ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو نے وزارت انسانی حقوق سے پوچھا تھا کہ ملک میں 2018 سے ہونے والے ریپ کیسز کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور اس حوالے سے حکومتی اقدامات بھی بتائی جائیں۔

تحریری جواب میں کہا گیا کہ گزشتہ 4 برسوں میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور دفاتر میں ہراسانی کے مجموعی کیسز کی تعداد 16 ہزار 153 کیسز رپورٹ ہوئے۔

نیشنل پولیس بیورو سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر رواں برس کے صرف ابتدائی 6 ماہ (جنوری سے جون) کی تفصیلات دی گئی ہیں۔وزارت انسانی حقوق نے ان تفصیلات کو دو کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، جنسی تشدد اور دفاتر میں ہراسانی پر مشتمل ہیں، جنسی تشدد کو مزید دو ذیلی کٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں ریپ، گینگ ریپ، حراستی اور بے حیائی شامل ہے کے ماہ ستمبر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے انسدادِ ریپ بل 2021کی منظوری دے دی تھی جس کے تحت ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی جائیں گی

سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں قتل اور زیادتی کے تین مختلف کیسز میں ملزمان کو نامکمل اور کمزور شواہد کی بنیاد پر رہا یا سزائیں کم کرنے کا حکم دیا تھا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ ان جرائم میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کے لیے نہ صرف کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لانا ہوں گی بلکہ استغاثہ اور پولیس کا نظام بھی بدلنا ہو گا۔

 انسانی حقوق کی تنظیم ‘ساحل’ کے ترجمان ممتاز گوہر کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون تو موجود ہیں، لیکن عمل درآمد کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔

قانونی ماہر انیس جیلانی کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں اکثر ملزمان کو ریلیف صرف پراسیکیوشن کی کمزوریوں کی وجہ سے مل جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدالتوں نے ریلیف دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کئی سال کے بعد رہا ہوا ہے تو ان میں سے بعض کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے بھی کئی افراد سالوں تک جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔

اُن کے بقول ان افراد کی رہائی ایک اچھا قدم ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کا تفتیشی نظام نہیں جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔اُن کے بقول پاکستان میں ایسے مقدمات میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے تفتیشی نظام بہت ہی ناقص ہے۔

اس کے ساتھ لوگوں میں اس جرم کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے شواہد ضائع ہوتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادتی میں ملوث ملزمان کو سزا دلانے کے لیے قانون موجود ہے لیکن اس پر موثر عمل درآمد نہ ہونے سے مجرمانہ سوچ رکھنے والے افراد کو حوصلہ ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author