مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر کی وفات||ظہور دھریجہ

گلوکار طلعت محمود نے کہا تھا کہ ہماری فلمی صنعت کی لتا جی واحد ہستی ہیں جس کی سب تعظیم کرتے ہیں۔ نور جہاں نے لتا کی آواز سننے کے بعد 1945ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ لتامنگیشکر ہندوستان کی عظیم گلوکارہ بنے گی۔ لتامنگیشکر کو ماں کی دعائیں حاصل تھیں ،ان کی ماں مائی منگیشکر نے کہا تھا کہ لتا نے جتنی تکلیفیں برداشت کیں اس کا فن اتنا نکھر کر سامنے آیا۔

آواز کی دنیا میں پون صدی راج کرنے والی سُر وںکی ملکہ لتا منگیشکرکاممبئی میں انتقال ہو گیا ، لتا منگیشکرآواز کی دنیا کا ایسا نام ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ، ان کو سُر وںکی ملکہ اور سُر کی دیوی کہا گیا۔بلاشبہ جو بھی نام دیا جائے وہ ان کے مقام کے مقابلے میں کم ہے ، لتا منگیشکر نے مہدی حسن کے بارے میں کہا تھا کہ ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے ۔

دراصل یہ بات خود لتا پر بھی صادق آتی ہے ، بلاشبہ لتا کی وفات سے آواز کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ صدیوں تک پُر نہ ہو سکے گا کہ وہ صدیوں کی فنکارہ تھی اور ایسے ہی فنکاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔لتا منگیشکر کی وفات سے آواز کی دنیا کے ایک عہد کا اختتام ہوا ہے ، یہ ٹھیک ہے کہ لتا کی بہن آشا بھوسلے بڑی فنکارہ ہے اور لتا کے انداز میں گانے والی سینکڑوں سنگرز برصغیر میں موجود ہیں مگر لتا منگیشکر کا کوئی ثانی نہیں ۔

لتا کی آواز کے بچن سے دیوانے تھے ، دھریجہ نگر میں ریڈیو سننے والوں کے گروپ بنے ہوئے تھے کوئی رفیع کو پسند کرتا تھا ، کوئی نورجہاںاور کچھ عنایت حسین بھٹی کے چاہنے والے بھی تھے،ہمارا گروپ مہدی حسن اور لتا والا تھا ۔ قیس فریدی بہت بڑے شاعرہونے کے ساتھ موسیقی کی سوجھ بوجھ بھی رکھتے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ مجھے انڈیا بالکل پسند نہیں اورنہ ہی میں وہاں جانا پسند کرتا ہوں مگر کچھ عرصے کیلئے لتا کی خدمت کا موقع مل جائے تو بخوشی چلا جائوں گا۔

مہدی حسن کے شاگرد اُستاد سجاد رسول جو ہمارے علاقے کے تھے اور ہمارے ساتھ جھوک میں رہتے تھے ان کی زبانی فنکاروں کے تذکرے اکثر سننے کو ملتے ، وہ بتاتے تھے کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے مہدی حسن جیسے عظیم گائیک کی تیس سال خدمت کی اور مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ میں اپنے استاد کے ہمراہ لتا منگیشکر اور انڈیا کے دیگر فنکاروں سے ملا۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے لتا کو سب سے زیادہ منسکر المزاج پایا اور وہ مہدی حسن کو اس طرح جھک کرملیں جیسے کوئی مرید اپنے پیر کی تعظیم کرتا ہے ۔ لتا نے اپنے والد سے بھی موسیقی کی تعلیم حاصل کی ، اساتذہ میں ایک نام پنڈت تُلسی داس شرما کا بھی آتا ہے مگر دیگر تمام اساتذہ مسلمان تھے ان میں اُستاد امان خان بھنڈی بازار والے ، استاد امانت خان، ماسٹر غلام حیدر اور استاد بڑے غلام علی خان صاحب کے نام شامل ہیں۔

لتا نے1936ء میں محض 7سال کی عمر میں شعلہ پور کے مقام پر پرفارم کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا،لتا منگیشکر ہندی زبان کی سنگر تھی اور انہوں نے اپنی آواز کے ذریعے ہندی زبان کو بہت شہرت دی ،معمولی فرق کے ساتھ ہندی سے اُردو وجود میں آئی تو لتا منگیشکر کی آواز سے اُردو کو بھی شہرت ملی ۔ 1945ء میں لتا منگیشکر نے جس ہندی فلم کے لئے گانا گایا اس میں ملکہ ترنم نو رجہاں بطور ہیروئن تھیں۔

لتا منگیشکر بچپن سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں، انہوں نے بہت کامیابیاں حاصل کیں مگر 1949ء کو ان کی کامیابی کا سال قرار دیا جاتا ہے کہ اس سال اس کی 25 فلموں کے گانے بہت مقبول ہوئے ، کہا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر ان کے ہندی گانوں اور دوگانوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے ۔

لتا منگیشکرہندی کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گانے گا چکی ہیں ۔وہ 1974ء سے 1991ء تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ریکارڈ ہولڈر کے طور پر شامل رہیں۔ بک کے مطابق وہ دنیا میں سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کرانے والی گلوکارہ ہیں۔ لتا منگیشکرکو بے شمار ایوارڈز ملے،خود ان کا کہنا تھا کہ ان کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کا پیار ہے، ان کے پاس بھارت کا سب سے بڑا سویلین اعزاز بھارت رتنا بھی ہے، وہ بھارت کی دوسری گلوکارہ تھیں،جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔

اس کے علاوہ انہیں پدما بھوشن (تیسرا بڑا سول ایوارڈ) اور پدما وی بھوشن (دوسرے بڑے سول ایوارڈ) سے بھی نوازا گیا، 1974ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ان کا نام دنیا میں سب سے زیادہ گانے گانے والی گلوکارہ کے طور پر آیا۔ لتامنگیشکر نے نصف صدی سے زائد عرصہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری پر راج کیا ، سنگر کے علاوہ چند کے فلموں میں وہ پروڈیوسر اور موسیکارہ کے طور پر بھی سامنے آئیں، ان کو شہرت کے آسمان تک پہنچانے میں موسیقار لکشمی کند پیارے لال ، آر ڈی برمن ، کلیان جی آنند جی ، مدن موہن ، نوشاد ، ایس ڈی برمن ، موسیقار استاد غلام محمد و دیگر کا بہت ہاتھ ہے۔

لتامنگیشکر نے بہت سے فنکاروں کے ساتھ دوگانے گائے ان میں محمد رفیع، کشور کمار ، مکیش، منا ڈے ، طلعت محمود ، آشا بھوسلے ، اوشامنگیشکر ، شمشاد بیگم ، ثمن کلیان پور و دیگر کے نام شامل ہیں۔ کلاسیکل گائیک استاد امیر خان نے لتامنگیشکر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تاج محل دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے تو لتامنگیشکر آٹھواں عجوبہ ہے، سرود نواز استاد علی اکبر خان کا کہنا تھا کہ ہم کلاسیکل گوئیے جو تین گھنٹے میں کرتے ہیں لتامنگیشکر تین منٹ میں کر دیتی ہے، استاد امجد علی خان نے کاکہنا تھا کہ لتامنگیشکر کی آواز نے ہماری موسیقی کو آسمان تک پہنچایا ۔ لتا کی آواز سوز و گداز سے معمور ہے۔

ماضی کی معروف اداکارہ نرگس نے کہا تھا کہ لتامنگیشکر کے اُداس گانوں پر اداکاری کرنے کیلئے مجھے گلیسرین استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، لتامنگیشکر موسیقی کے ساتھ ساتھ شاعری کو بھی سمجھتی تھیں ، ان کی گائیکی میں درست الفاظ کا برتائو سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔معروف شاعر مجروح سلطان پوری نے کا کہنا تھا کہ لتا جی واحد گلوکارہ ہیں جسے میں نے شاعری میں ترمیم کی اجازت دی ہے ، لتا نے طویل عمر پائی ، کہا جاتا ہے کہ ان کی طویل عمری میں ان کی سادہ طبیعت اور سادہ غذائوں کا بہت ہاتھ ہے ، ان کو سادگی اور عاجزی کی وجہ سے بہت احترام حاصل تھا ۔

گلوکار طلعت محمود نے کہا تھا کہ ہماری فلمی صنعت کی لتا جی واحد ہستی ہیں جس کی سب تعظیم کرتے ہیں۔ نور جہاں نے لتا کی آواز سننے کے بعد 1945ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ لتامنگیشکر ہندوستان کی عظیم گلوکارہ بنے گی۔ لتامنگیشکر کو ماں کی دعائیں حاصل تھیں ،ان کی ماں مائی منگیشکر نے کہا تھا کہ لتا نے جتنی تکلیفیں برداشت کیں اس کا فن اتنا نکھر کر سامنے آیا۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: