نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو بھی نہیں معلوم کہ صحت رکارڈ کے نام پر رکھے جانے والے قوم کے 450 ارب روپے کا کیا حشر ہوتا ہے ؟ مگر سابق صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر سندھ میں قائم کیئے گئے بڑے بڑے صحت کے ادارے سیاسی اور غیر سیاسی اندھوں کو راستہ دکھانے کیلئے کافی ہیں مگر بغض ،تعصب اور نفرت کی موروثی بیماری نے ان کے شعور کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
در اصل سندھ میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر این آئی سی وی ڈی جہاں دل اور دیگر امراض کا مفت علاج ہوتا ہے جس سے انسانی صحت کا کاروبار کرنے والوں کا مالی نقصان ہو رہا ہے کیونکہ این آئی سی وی ڈی جدید طرز کے ادارے ہیں جو بڑے نجی ہسپتالوں سے کم نہیں ہیں بلکہ بہتر ہیں، این آئی سی وی ڈی میں دل کا مفت آپریشن اور علاج ہوتا ہے وہاں مریض کے جیب پر نہیں مریض کی زندگی بچانے پر توجہ دی جاتی ہے ، این آئی سی وی ڈی میں
ڈاکٹر مریض کی جلد صحتیابی کیلئے محنت کرتے ہیں تاکہ آنے والے
مریضوں پر توجہ دی جائے ، اس طرح سندھ کے ایک شہر گمبٹ جو
خیرپور میرس کی تحصیل ہے کے گمبٹ انسی ٹیوٹ نے انسانی خدمت میں بے مثال نام پیدا کیا ہے ، چند برس قبل امیر اور صاحب ثروت لوگ جگر کی پیوند کاری کیلئے لندن اور امریکہ جاتے تھے ، بھارت میں بھی جگر کی پیوند کاری پر 50 لاکھ روپے خرچ آتا ہے مگر گمبٹ میں جگر کی پیوند کاری بلکل مفت ہوتی ہے ، پروفیسر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کے زیر نگرانی یہ ادارہ طبی میدان میں ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے ، ہمارے مایہ ناز قومی گلوکار شوکت علی بھی گمبٹ ہسپتال میں زیر علاج رہے انہیں جگر کا عارضہ لاحق تھا ، چیئرمین پیپلزپارٹی جناب بلاول بھٹو کی خاص ہدایت پر انہیں علاج کیلئے یہاں لایا گیا تھا ،گلوکار شوکت علی صحت یاب ہو ہی رہے تھے تو ایک خاص سوچ رکھنے والوں نے اپنی توہین سمجھ کر گلوکار شوکت علی کے علاج کا ذمہ لے لیا اور لاھور منتقل کردیا، سندھ سے نفرت کے مرض میں مبتلا سوچ رکھنے والوں کیلئے بری مگر غریب عوام کیلئے خبر یہ ہے کہ گمبٹ میں سماعت سے محروم بچوں بچوں جن کو گونگا اور بہرا کہا جاتا ہے کا کامیاب علاج جاری ہے بیرون ملک اس علاج پر 34 لاکھ خرچ آتا ہے مگر گمبٹ انسی ٹیوٹ میں مفت علاج ہوتا ہے ابھی تک درجنوں بچے شفایاب ہو چکے ہیں، گمبٹ ہسپتال میں دائمی کٹے ہوئے ہونٹ کی سرجری بھی ہو رہی ہے ،درویش صفت مسیحا پروفیسر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی خلق خدا کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں ، سندھ پر اللہ پاک ذیادہ ہی مہربان ہیں اس لیئے تو اس نے یہاں ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے مسیحا پیدا کیئے ہیں جو گردوں کی بیماری کے مایا ناز ڈاکٹر ہیں یہ کہنا ہر گز غلط نہیں ہوگا کہ وہ غریب اور نادار انسانوں کے مسیحا ہیں ان کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ نہ کسی کی سفارش مانتے ہیں نہ ہی حکمرانوں کے رعب میں آتے ہیں بس ایسے انسانوں کے ہمدرد ہیں جن کے پاس علاج کیلئے پیسے نہیں ہوتے ۔
ہم واپس آتے ہیں این آئی سی وی ڈی کی طرف جہاں دل اور دیگر امراض کیلئے بالکل مفت علاج ہوتا ہے موجودہ حکومت میں زیر عتاب ہے اس کے نگران ڈاکٹر ندیم قمر بھی زیر احتساب ہیں، در اصل نیب انسانی صحت کے تاجروں کے مفادات کا طرفدار بن کر این آئی سی وی ڈی کے خلاف سرگرم رہا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیب شوکت خانم ٹرسٹ کو مخیر حضرات کی طرف سے دیئے جانے والے چندے کو پی ٹی آئی کے نام چیک والے کے خلاف کارروائی کرتا ۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی طرف سے خیرات ،صدقات، فطرانہ اور ذکوات اور قربانی کی کھالیں سے ملنے کے باجود شوکت خانم ہسپتال خالص خیراتی ہسپتال بننے کی بجائے تجارت کا ذریعہ کیسے بن گیا ؟
سچی بات یہ ہے کہ لالچی میڈیا سے کوئی شکوہ نہیں ہے اور نہ ہی دیہاڑی دار کالم نویسوں سے جنہوں نے سندھ تو دیکھا نہیں ہے مگر سندھ کی تصویر کشی کر رہے ہیں،مگر انہوں نے سندھ دیکھا ہی نہیں ہے ۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ