گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان پر کابل کے بادشاہ اپنے مقرر کردہ نوابوں اور حکمرانوں کے ذریعے حکومت کرتے تھے اور لگان وصول کرتے(1821-1781) ۔مگر تخت کابل پر بھی متحارب گروپ لڑتے رہتے اور قبضہ کرتے تو ڈیرہ میں بھی بغاوتیں اور لڑایاں شروع ہو جاتیں۔
جب کابل میں شاہ زمان کے خلاف بغاوت ہوئ اور شاہ محمود تخت پر بیٹھا تو شاہ محمود نے ڈیرہ اسماعیل خان کی حکومت کا پروانہ عبدالرحیم کو دیا۔عبدالرحیم خان مع لاٶ لشکر ڈیرہ آیا مگر نواب محمد خان سدوزئ جو شاہ زمان کا مقرر کردہ حکمران تھا سے شکست کھا کے لوٹ گیا اور پھر محمد خان نے اپنے لیے ڈیرہ کا پروانہ حکومت حاصل کر لیا۔ شاہ شجاع الملک والی کابل کے زمانے میر علی خان نورزئ نے بغاوت کی اور ڈیرہ کے محاذ پر سخت خونریز جنگ ہوئ اور نورزئ کو شکست ہوئ۔ پھر محمد خان سدوزئ نے سانگھڑ جو اب تونسہ کہلاتا ہے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور اس کا انٹظام اسد خان بلوچ کے حوالے کیا ۔اسد بلوچ کی ہمشیرہ سے نواب محمد خان نے شادی کر رکھی تھی۔
ایک موقع پر نواب حافظ احمد خان نے ٹانک کے جاگیردار سرور خان کٹی خیل سے لگان نہ دینے کے سلسلے میں لڑائ کی اور اس کے بیٹے کو یرغمال بنا لیا۔سرور خان نے بدلہ لینے کے لیے 1822ء میں اپنے بیٹے اللہ داد کی کمان میں ڈیرہ پر حملہ کر دیا جب پرانا ڈیرہ کی فصیل ۔ قلعےاور مکانات سیلاب سے مسمار ہو چکے تھے اور لوگ کھلے آسمان میں رہ رہے تھے۔ مگر اس موقع پر بھی ڈیرہ والوں نے ڈٹ کا مقابلہ کیا بہت لوگ مارے گیے اور الہ داد خان کو ایک ہاتھی اور تین توپیں چھوڑ کر واپس ٹانک لوٹنا پڑا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر