مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہماری ریاست ورجینیا میں برفانی طوفان آیا۔ برف ہر سال پڑتی ہے اس لیے انتظامات ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی ان فور سین ایونٹ یعنی ان دیکھا یا تیاریوں سے بالا واقعہ ہوجاتا ہے۔
تو یہ ہوا کہ ہمارے گھر کے بالکل قریب انٹر اسٹیٹ ہائی وے پر برف گرنے کے دوران ایک دو ٹرالر پھسل کر ٹکرا گئے۔ چار پانچ لین اور دونوں جانب شولڈرز والی ہائی وے بند ہوگئی۔ پیچھے آنے والی گاڑیاں پھنس گئیں۔
یہ ٹریفک جام چوبیس گھنٹے جاری رہا۔
اس میں ورجینیا کے سینیٹر ٹم کین بھی پھنس گئے۔ انھوں نے ٹوئیٹ کیے اور حال بیان کیا۔ وہ معمول کے مطابق رچمنڈ سے واشنگٹن ڈی سی جارہے تھے جہاں چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے کا سال مکمل ہونے کے ایونٹ اور اس معاملے میں کارروائی ہورہی تھی۔
سینیٹر کین وہی ہیں جو ہلیری کلنٹن کے ساتھ صدارتی الیکشن لڑے تھے۔ ہلیری جیت جاتیں تو وہ نائب صدر ہوتے۔
ضمنی بات یہ کہ ان کا مجھ پر براہ راست احسان ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکا میں میری بحالی میں مدد کی تھی۔
سینیٹر کین انیس یا بائیس یا چوبیس گھنٹے وہیں پھنسے رہے۔ ان کے لیے ہیلی کاپٹر آسکتا تھا۔ کوئی اور خاص انتظام کیا جاسکتا تھا۔ ہائی وے کے دائیں بائیں مجھ جیسے مداحوں کے گھر تھے۔ وہ گاڑی چھوڑ کر کہیں جا بھی سکتے تھے۔
لیکن وہ وہیں موجود رہے۔ حکومت اور عوام کو صورتحال بتاتے رہے۔ ریڈیو ٹی وی کو ٹیلی فونک انٹرویو دیتے رہے۔
امریکا میں صدر نائب صدر کے بعد سب سے اہم پوزیشن سینیٹر کی ہوتی ہے۔ سینیٹ میں ہر ریاست کے صرف دو ارکان ہوتے ہیں۔ پورے امریکا میں صرف سو سینیٹر ہیں۔ ہزاروں گاڑیوں میں موجود لوگ صبر سے رہے کہ جب ہمارا سینیٹر ہماری طرح پھنسا ہوا ہے تو ہم کون سے انوکھے ہیں کہ شور مچائیں۔ احتجاج کریں۔
سینیٹر کین نے بتایا کہ رش میں پھنسی ایک گاڑی کے ڈرائیور کے پاس بہت سے مالٹے تھے۔ وہ اس نے پڑوسی گاڑیوں میں بانٹے۔ انھیں بھی دیے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس برفانی طوفان میں چوبیس گھنٹے کے ٹریفک جام میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے؟ کتنے زخمی یا بیمار ہوئے؟
ایک بھی نہیں۔
آپ کہیں گے کہ امریکا امیر ملک ہے۔ پاکستان غریب ہے۔
یہ امیری غریبی کی بات نہیں۔ تعلیم یافتہ اور پسماندہ سماج کا فرق ہے۔
امریکا میں بھی حادثے ہوتے ہیں۔ قدرتی آفتیں آتی ہیں۔ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ حکومت پر تنقید ہوتی ہے۔ احتجاج ہوتا ہے۔
لیکن پھر معاملہ بھلا نہیں دیا جاتا۔ غلطی سے سبق سیکھا جاتا ہے۔ وہ سبق صرف ایک آبادی، شہر، ریاست کے لیے نہیں ہوتا، پورا ملک سیکھتا ہے اور خرابی کو ٹھیک کرتا ہے۔
آپ امریکا کی کسی بھی ریاست میں چلے جائیں، جہاں سگنل نہیں ہوگا، وہاں سڑک یا گلی کے اختتام پر اسٹاپ کا نشان لگا ہوا ہوگا۔ ہر گاڑی وہاں بریک لگائے گی۔ رات کے پچھلے پہر اندھیرے اور سناٹے میں تنہا ڈرائیور بھی اس نشان پر بریک لگاتا ہے۔ گورے کالے امریکی امیگرنٹ مسیحی مسلمان سب پابندی کرتے ہیں۔
یہ فقط قانون کی پابندی کی بات نہیں، سماج کے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت ہے۔
گزشتہ ہفتے کے برفانی طوفان کے چند روز بعد پھر برف باری ہوئی۔ آج صبح بھی سلیٹ کا خطرہ تھا۔ میں اوبر چلاتا ہوں۔ سڑکوں پر گھومتا رہتا ہوں۔ نظر آیا کہ ریاستی حکومت نے کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود ہائی وے ٹریفک جام سے سبق سیکھا ہے۔
دوبارہ برف پڑی تو کوئی سڑک بند نہیں ہوئی۔ ایسا جادو سے نہیں ہوا۔ کام کرنے والے سڑکوں پر موجود تھے۔
اسی برفانی طوفان سے متعلق ایک اور بات بتانا ضروری ہے۔ ایک شخص نے اوبر منگوائی اور ہائی وے پر سفر کیا۔ ٹریفک جام میں وہ گاڑی بھی پھنسی۔ میٹر چلتا رہا اور بل چھ سو ڈالر بن گیا۔
میں نے اس شخص کا انٹرویو ریڈیو پر سنا۔ اوبر نے اسے پورے چھ سو ڈالر واپس کردیے۔ جو کرایہ بنتا تھا، وہ بھی نہیں لیا کہ آپ کو زحمت ہوئی۔ لیکن ڈرائیور کو نقصان نہیں ہونے دیا۔ اس نے جو کمایا، وہ اس کا حق تھا۔ اس میں ایک سینٹ کمی نہیں ہوئی۔
میں امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے بارہ چودہ ملکوں کے درجنوں تفریحی اور زائرین کے مقامات پر جاچکا ہوں۔ مری بھی گیا ہوں۔ فرق بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ہر شخص جو مری جاچکا ہے، وہ جانتا ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔
برے انتظامات پر حکومت کو برا بھلا کہا جاسکتا ہے اور کہا جانا بھی چاہیے لیکن سماج کے پسماندہ ہونے اور پسماندہ رہنے کی ذمے دار چند سال کے لیے آنے والی حکومت نہیں، ریاست ہوتی ہے۔
اور پاکستان میں پسماندہ سماج کی ذمے دار وہی مافیا ہے، جو خود کو ریاست کہتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ