نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چین بدلا تو دنیا بدلی||رسول بخش رئیس

منصوبہ بندی‘ دور بینی‘ خلوص‘ لگن اور جذبۂ خدمت تو سب کہتے ہیں‘ مگر حکمرانی کی صلاحیت اور تنظیمی شعبوں میں چین نے ہر سطح پر جو قیادت فراہم کی ہے‘ اس کی مثال ترقی پذیر ممالک میں نہیں ملتی۔ ہم سب بھی معترف ہیں‘ مگر اپنے ہمسایہ اور قریبی دوست کی مثال سے سیکھنے کے لیے نہ وقت ہے‘ نہ ہی ہوش۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عقل دنگ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے چین ترقی کے ہر میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ صرف ہم نہیں‘ مغربی دنیا‘ ایشیائی ممالک اور ارد گرد کے ہمسائے‘ سبھی حیران رہ گئے۔ صدیوں کا سفر فقط چالیس سالوں میں طے کر ڈالا۔ طالب علمی کے زمانے میں درویش کی تحقیقی دلچسپی کا محور کمیونسٹ چین تھا۔ جو کچھ کتابوں اور رسالوں کی صورت میں میسر تھا‘ سب پڑھ ڈالا۔ نظریاتی طور پر ہم مائوزے تنگ کی سرخ کتاب کے گرویدہ ہو چکے تھے‘ کبھی جیب میں تو کبھی سرہانے۔ ہم مطالعاتی اجلاس چھوٹے حلقوں کی صورت میں منعقد کرتے‘ چیئرمین مائو کے علاوہ دیگر انقلابی رہنمائوں کی تصانیف اور افکار پر بحثیں ہوتیں۔ اس کے ساتھ تاریخ اور فلسفہ‘ مغربی اور مشرقی‘ بھی ہماری طالب علمانہ گفتگو کا موضوع رہتے۔ دوسرے سال میں چین اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں تحقیقی مقالہ لکھنے کی اجازت ملی‘ تو لاہور کے کئی کتب خانوں میں کتابیں تلاش کیں۔ پاک چین دوستی کا چرچا کرنے والے سفارت کاروں اور سیاسی لوگوں سے انٹرویو کرتے‘ اور کچھ لکھتے رہتے۔ بعد میں ا پنے خرچ پر کتابی صورت میں چھپوا بھی بیٹھے‘ مگر آج کونے میں کہیں پڑی اس کتاب کو کبھی دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ مائو کی محبت میں بہت مبالغہ آمیزی سے کام لیا۔ چین کے ثقافتی انقلاب کی تعریف کے پل باندھے اور چین کی ترقی‘جو انیس سو بہتّر‘ تہتر میں نہ ہونے کے برابر تھی‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ عجیب بات لگتی ہے‘ تب مجھے یقین تھا کہ جو کچھ میں نے نصف صدی قبل لکھا تھا‘ وہ درست تھا۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ درویش حقائق اور پروپیگنڈا میں تمیز کرنے میں خاصا کمزور تھا۔ میری چین میں دل چسپی دیکھتے ہوئے‘ امریکہ میں میری یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات نے ایک چینی نژاد پروفیسر کا معاون تعینات کر دیا۔ پڑھاتے وہ اور ٹیوٹوریلز اور گریڈنگ میرے ذمے تھی۔ پروفیسر ‘آلن لُو‘ کا تعلق تائیوان سے تھا اور چین سے ان کا سخت نظریاتی بُعد تھا‘ جبکہ ہم اس وقت یعنی انیس سو اٹھہتر میں بھی چین کے نظام کے حامی تھے۔ وہ کبھی کبھار کلاس میں ”چین باتصویر‘‘ لاتے جو ایک سرکاری رسالہ تھا۔ تصویریں دکھاتے تو ساتھ یہ بھی کہتے کہ بالکل جھوٹ اور پروپیگنڈا ہے‘ چین میں کچھ بھی ایسا نہیں۔ ہم سن لیتے اور خاموش ہو جاتے‘ مگر ٹیوٹوریل لیتے تو نوجوانوں‘ طالب علموں کے سامنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ”چین باتصویر‘‘ کو ‘حقائق کا ترجمان‘ بلاغت کے ساتھ پیش کرتے۔ انقلابی بخار اترنے اور ہوش میں آنے میں دیر لگی۔
ہمارے باہر جانے سے پہلے ہی انیس سو چھہتر میں مائو آنجہانی ہو چکے تھے۔ علالت کے دوران انہوں نے ہوا گوفنگ کو اپنا جانشین نامزد کر دیا تھا۔ مائو کی اہلیہ اور ان کے تین ساتھیوں نے اقتدار کی جنگ میں گروہ بنا لیا‘ جسے چینی ”گینگ آف فور‘‘ کہتے تھے۔ ہوا گوفنگ نے گینگ کو گرفتار کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی‘ مگر دو سال کے اندر ڈنگ ژائو پنگ‘ جو مائو کے عہد میں کہیں نظر بند تھے‘ ایسے ابھرے کہ مائو کے جانشین کو چلتا کیا۔ یہ انیس سو اٹھہتر کا سال تھا۔ مائو کو آج بھی چینی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اور ہم بھی‘ مگر جس رہنما نے چین کو بدلا‘ وہ انقلابی نہیں اصلاحی‘ ڈنگ ژائو پنگ تھے۔ انہوں نے چین کے چار قومی شعبوں میں جدت لانے کا منشور پیش کیا۔ یہ وہ منشور نہ تھا اور اس کی حالت وہ نہ ہوئی جو وطن عزیز میں ہمارے رہنما نسل در نسل کرتے آئے ہیں۔ سادہ سی بات تھی کہ چین کو زراعت‘ صنعت‘ دفاع اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں زمانۂ حال سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ مجدد کے نظریے کو چینیوں نے ایسے پلے سے باندھا کہ صرف چار دہائیوں میں چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے درجے پر لے آئے اور کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پیچھے رہ گئے جاپان‘ جرمنی‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک۔ امریکہ میں بے چینی ہے کہ چین کہیں اس سے آگے نہ نکل جائے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے‘ مگر ان کی پریشانی کا یہ حال ہے کہ دوسری سرد جنگ کی تیاریوں میں چین کے خلاف حصار کھڑا کرنے کی سفارتی کاوشوں میں مصروف ہیں۔
یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ امریکہ نے چین کو سہولتیں فراہم کیں‘ کمپنیوں کو اجازت دی کہ وہ چین میں کھل کر سرمایہ کاری کریں‘ صنعتیں لگائیں‘ مال تیار کریں‘ دنیا میں بیچیں۔ اپنی منڈی بھی چین کے لیے کھلی رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ چین کو عالمی معیشت کے دھارے میں لایا جائے۔ آج بھی امریکہ چین کی برآمدات کے لیے بہت بڑی منڈی ہے۔ دو ہزار بیس میں چین نے چار سو باون ارب ڈالرز مالیت کی اشیا اور خدمات امریکہ میں فروخت کیں۔ ایسے ہی تو امریکی نہیں چیختے کہ چین بیچتا بہت زیادہ اور خرید کم کرتا ہے۔ یہی حال ہمارے اور دنیا کے دیگر ممالک کا ہے۔ جذباتی ہونے کے بجائے اس کی وجہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چینی حکومت نے صنعتوں کو رعایات کی عنایات کے علاوہ بجلی‘ پانی‘ گیس اور دیگر مداخل کو ارزاں رکھا ہے۔ دوسرے‘ آج کا چینی مزدور نسبتاً سستا ہے؛ اگرچہ معیارِ زندگی بلند ہونے کے ساتھ تنخواہوں کا گراف اوپر کی طرف جا رہا ہے۔ پندرہ سولہ سال قبل چین کے کچھ صوبوں کا مفصل دورہ کیا تھا۔ ایک اعلیٰ وفد میں شامل تھا۔ ہم کئی شہروں میں مہمان رہے‘ صنعتیں دیکھیں‘ مقامی حکومتوں کو کام کرتے دیکھا اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داروں کے علاوہ دوسری صف کے چینی حکام سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہاں کے سرکاری تھنک ٹینکوں کے ساتھ تبادلہ خیال بھی رہا اور اس کے بعد کے دو تین دوروں کے دوران بھی۔ چین میں تبدیلی کا سہرا کمیونسٹ پارٹی کے سر جاتا ہے۔ یہ ہے تو وہی پارٹی جس کے ہم کچی دانشوری کے زمانے میں معترف تھے‘ مگر اس کا اقتصادی نظریہ سرمایہ داری نظام ہے۔ کمیونزم کو ڈنگ ژائو پنگ نے مائو کے پہلو میں ہی کہیں دفن کر دیا تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے آئین بدلا‘ قوانین بدلے‘ حکومت کے طور طریقے بدلے اور ایسا پُرامن ماحول پیدا کیا کہ دنیا بھر سے سرمایہ کار سرپٹ دوڑتے آئے اور آنکھیں بند کر کے صنعتیں لگاتے رہے۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے‘ حکومت کے محصولات میں اضافہ ہوا‘ اور پارٹی مسلسل آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کرتی‘ اہداف پورے کرتی‘ ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف رواں دواں رہی۔
منصوبہ بندی‘ دور بینی‘ خلوص‘ لگن اور جذبۂ خدمت تو سب کہتے ہیں‘ مگر حکمرانی کی صلاحیت اور تنظیمی شعبوں میں چین نے ہر سطح پر جو قیادت فراہم کی ہے‘ اس کی مثال ترقی پذیر ممالک میں نہیں ملتی۔ ہم سب بھی معترف ہیں‘ مگر اپنے ہمسایہ اور قریبی دوست کی مثال سے سیکھنے کے لیے نہ وقت ہے‘ نہ ہی ہوش۔ وہ بھی تو وقت تھا جب ہماری ترقی کی رفتار چین سے کہیں زیادہ تھی۔ ان کے رہنما ہماری صنعتوں‘ عمارتوں اور شہروں کو دیکھتے تو کہتے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ مجھے یاد ہے کہ جب اگست انیس سو اٹھہتر میں پین ایم کی پرواز براستہ تہران‘ روم اور نیو یارک گئی تو چند چینی بھی سفرکر رہے تھے۔ وہ کراچی پی آئی اے کے ذریعے آتے اور آگے کسی یورپی ملک کو جاتے۔ قوموں کی تقدیریں ایسے ہی بدلتی ہیں جیسے چین میں۔ کل کے کروڑوں مفلس آج متوسط طبقے میں ہیں اور چینی ارب پتیوں کی تعداد امریکہ کے بعد اب دوسرے نمبر پر ہے اور اس میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پڑھتے تو رہتے ہیں‘ وہاں جا کر دیکھنے میں کیا حرج ہے کہ انقلاب کیسے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author