دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رفعت عباس کا لونؕی شہر||وقاص بلوچ

۔ اس شہر میں نہ کوئی دن ہے نہ کوئی رات۔ اس لیے وہاں کوئی موت بھی نہیں ہے۔ یہاں کوئی علم الہامی نہیں یہ بس رفعت کا لونؕی شہر ہے۔ ایک جگہ پر رفعت صاحب خود فرماتے ہیں کہ وقت (کلاک) کالونیلزم کی بہت بڑی دین ہے کیوں کہ اس وقت کے ذریعے مقامی آدمی کو لندن کے وقت (GMT) کے ساتھ پابند کیا جاتا ہے۔

وقاص بلوچ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناول کا لونؕی شہر ایسی جگہ ہے جس میں تاریخ کی کروٹ اس تقویم سے بالکل الگ ہے۔ ایک ایسی جگہ جس میں نہ کوئی موت ہے، نہ وقت، نہ جنگ نہ ہتھیار۔ لونؕی کے مقامی جسے رفعت عباس نے جَنؕا کہا ہے، ان جَنؕوں کو موت کا ادراک نہیں۔ ہتھیار سے آگاہ نہیں ہیں۔ کسی دیوتا کا بوجھ ان کے اذہان میں نہیں ہے۔ ناول کی زبان فلسفیانہ ہے۔ ہر شبد سے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ماہر تاریخ دان اپنے ہاتھ کی صفائی دکھا رہا ہوتا ہے۔ ہر پنے سے واضح ہوتا ہے کہ کسی محقق ماہرِ لسانیات کی طبع آزمائی آشکار ہو رہی ہے۔ غرض یوں لگتا ہے کہ مصنف کی نگاہ سے زندگی کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں ہے۔ ناول کی پرتیں کھولتے جاؤ ادب، فلسفہ، تاریخ، سائنس، لسانیات کے اسرارا افشاں ہوتے جائیں گے۔
لونؕی شہر کوزہ گری سے پرے کی دنیا ہے جہاں ہر بندہ اپنی ذات میں دیوتا ہے۔ سو ہر جناؕ صرف صراحی و مینا نہیں بلکہ طیور و آہو، کیلنڈر اور جنگل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں نہ پیشہ ورانہ نہ کوئی جنسی تقسیم ہے۔ یہاں کسی کی نسبت اس کے پیشے، کاروبار، قوم برادری سے نہیں۔ کوئی امارت افلاس کا تصور نہیں۔ زندگی چل رہی ہے تو شہر کے اپنے اصولوں پر۔ لونی شہر میں کسی خارجی تعلیم نے لوگوں کے ذہن نہیں بناۓ۔ لونؕی باسی کسی حاکم کے سزاوار نہیں ہیں۔ خود ساختہ اذہان اپنی ٹھاٹھ پر قائم ہیں۔ یہاں کوئی خلق اشرف نہیں۔ اسی لیے شہر کے چوپاۓ لونؕی دنیا کے راستوں کو ان جَنؕوں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔
لونی شہر زمان و مکاں کی ان بندشوں سے آزاد ہے جہاں نفسیات کے اصول کارفرما ہیں۔ یہاں کی میکانکی خوبیاں دیوتا کی بنائی گئ دنیا کے فطری اصولوں سے الگ ہیں۔ خواب دیکھنے والے ذہن کے لیے اپنے جسم کا ہونا لازمی نہیں۔ یہاں کوئی بھی بندہ کسی دوسرے کے خواب دیکھ سکتا ہے۔ ہر ایک دوسرے کے خواب کو کنٹرول اور دوسرے کو منتقل کر سکتا ہے۔ یہاں خواب سراب نہیں حقیقت ہے۔ خواب کسی خیال کا نام نہیں بلکہ ایک ایک وجود کا نام ہے۔ ایک ذہنی کیفیت کا نام نہیں ایک جستجو، ایک تلاش کا نام ہے۔ لونی شہر کی نقاشی کا نام ہے۔
ایسی دنیا جسے دیوتا نے نہ بنایا ہو وہ لسانیاتی طور پر بھی مکمل مختلف ہو گی۔ یہاں کسی گناہ کسی اپرادھ کا تصور نہیں۔ یہاں کوئی کڑواہٹ کوئی تلخی نہیں۔ یہاں تو نمک کی بھی تاثیر شیرینی ہے۔ خدا کی دنیا میں جو ڈی سوسُر نے لسانیاتی سگنیفائر اور سگنیفائیڈ کا تصور دیا لونؕی شہر ان تصورات سے آگے کی دنیا ہے یہاں الفاظ ذہن میں محض عکس کی صورت نہیں دھارتے۔ یہاں لفظوں کا کوئی کتابی روپ نہیں، یہاں شبدوں کی کوئی ذہنی کیفیت نہیں بلکہ بولے گئے الفاظ خود کو وجود میں ڈھال لیتے ہیں۔ یہاں لفظ کوئی ایبسٹریکٹ شے نہیں بلکہ جیتا جاگتا جسم ہے۔ یہ ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار جن کا اطلاق صرف دیوتا کی بنائی گئ دنیا کے لیے لاگو ہے، ان سے آگے کی دنیا ہے۔ ہر جنؕے کی استطاعت ہے کہ لفظ بولیں اور انہیں وجود بخش دیں۔ یہاں سنتھیسز، تھیسز اور اینٹی تھیسز کا محتاج نہیں۔
آسمان کسی لاحاصل چیز کا نام نہیں بلکہ لونؕی شہر تہذیب کی اتنی بلندی پر ہے کہ سیڑھیاں چڑھتے وقت آسمان ان کے سروں کو چھوتا ہے۔ ان کے احترام کے لیے نیچے اتر آتا ہے۔
کیوں کہ لونؕی شہر میں کوئی دیوتا موجود نہیں اس لیے ہر چیز لونی کے مقامی بناتےہیں۔ درشا (ایک کردار) ہرن بناتا ہے جس کی آنکھیں بارش اور خوابوں سے بنتی ہیں۔ رات کا لفظ ناول کے کردار "رتڑی” سے ماخوذ ہے۔ اس شہر میں نہ کوئی دن ہے نہ کوئی رات۔ اس لیے وہاں کوئی موت بھی نہیں ہے۔ یہاں کوئی علم الہامی نہیں یہ بس رفعت کا لونؕی شہر ہے۔ ایک جگہ پر رفعت صاحب خود فرماتے ہیں کہ وقت (کلاک) کالونیلزم کی بہت بڑی دین ہے کیوں کہ اس وقت کے ذریعے مقامی آدمی کو لندن کے وقت (GMT) کے ساتھ پابند کیا جاتا ہے۔ لیکن لونؕی شہر میں وقت کسی لمحے کا نام نہیں ایک مقامی عنصر ہے جسے لونؕی باسیوں نے خود تخلیق کیا۔ اس کے ساتھ بچے بڑے سب کھیل سکتے ہیں۔ یہ کبھی ان کی منڈیروں پر پنچھیوں کی طرح بیٹھتا ہے تو کبھی لونؕی شہر میں مدھر آوازوں کا اضافہ کرتا ہے۔ لوگ وقت کے پابند نہیں بلکہ وقت ان کے لیے محض ایک تفریح ہے۔ ایک پنچھی ہے جو لونؕی واسیوں سے بچھڑ نہیں سکتا، ایک گیند کی طرح ہے جسے لوگ جہاں پھینکتے ہیں وہاں جاتا ہے۔ گردشِ دوراں سے نہیں بلکہ مقامی آدمی اپنے آرٹ سے ہی سال کے بارہ مہینے تجویز کرتا ہے۔
ناول کے شروع میں لونؕی شہر قاری کے لیے ایک انجان دنیا ہے۔ وہ اسے محض شاعرانہ تخیل سمجھتا ہے۔ کیوں کہ لونؕی کی تاریخ عیسوی تاریخ سے مختلف ہے۔ اس کی تقویم لونؕکا کے وصال سے شروع ہوتی ہے۔ قاری اس کی تاریخ کو نہیں سمجھ سکتا۔ مگر مصنف اسے عیسوی تاریخ کے ساتھ مَس کر کے قاری کی پہچان کراتا ہے۔ یہ جنتری قاری کی سمجھ میں تب آتی ہے جب مہابھارت کے لٹریچر سے لونؕی شہر کا تعلق بتایا جاتا ہے۔ جب یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ منصور حلاج کی کہانی لونؕی کے کردار سہاگے سے کس طرح متماثل ہے۔ جب یہ بتایا جاتا ہے کہ لونؕی شہر کا جغرافیہ کیا ہے، ملتان اور لونؕی کا بیانیہ کس طرح ایک جیسا ہو سکتا ہے، تو پھر قاری پر لونؕی شہر کا تخیلاتی طلسم ٹوٹتا ہے اور لونؕی کی حقیقت کو آسانی سے تسلیم کر لیتا ہے۔
فزکس میں سپیشل ریلیٹیویٹی تصور کے تحت زمان و مکاں کو ایک دوسرے کے حساب سے ماپا یا ضم کیا جا سکتا ہے۔ میکونسکی کے تصورِ زمان ومکاں کے اعتبار سے لمحہ اور فاصلہ کو ایک ہی اکائی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر دو مشاہد ایک لمحے میں کسی وقت کی لمبائی پر اتفاق نہیں کریں گے تو یقینی طور پر عین اسی لمحے فاصلے کی لمبائی پر بھی اتفاق نہیں کریں گے۔ لونؕی شہر میں بھی زمان و مکاں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا رہا۔ زمان و مکاں ایک دوسرے میں ضم ہو کر چہار جہتی اکائی بن جاتے ہیں۔ اسی لیے شہر میں موجود کیلنڈر اپنے اندر گلیاں رکھتا ہے، اس کیلنڈر میں کوچے ہیں، گھر ہیں۔ یہاں کیمیت اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ سو ناول کے کردار اس کیلنڈر کے مہینے ہیں۔
سپائینوزا کے نظریے کے مطابق خیالات، سوچ ، جسم، ذہن سب ایک ہی شے کی اصل ہیں۔ وہ اصل خدا ہے۔ جسم اور ذہن ایک ہی شے ہیں۔ سہاگا ناول کے کردار میں لونؕکا اس کی سوچ ہے۔ اس کی تلاش ہے۔ اس کا ذہن ہے۔ لہذا اس سے الگ نہیں ہے۔ لونؕکا سہاگا کے اندر تحلیل ہو کر سہاگا سے کہلواتا ہے کہ میں لونؕکا ہوں۔
"میں” اور "تو” کی لڑائی استعماری نظر سے اپنے معنی رکھتی ہے۔ استعماری اعتبار سے ہمیشہ "میں” سچا ہوتا ہے۔ تمام تہذیب، ثقافت، ادب صرف وہی مہذب ہوتا ہے جس میں "میں” موجود ہو۔ "تو” کی ثقافت، تہذیب، ادب ہمیشہ گالی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہمیشہ اسے نفرت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے مگر رفعت کے ناول میں "تو” کے لیے بھی محبت کا پیغام ہے۔ انگریزوں کی آمد سے نوآبایات نے اپنی تہذیب، ثقافت، تاریخ سب کھو دی تھی لیکن لونؕی شہر کی تاثیرِ محبت نے انگریزوں کی استعماری جبل کے اندر جنؕے کو تلاش کیا۔ انگریز یہاں استعماری نقوش چھوڑ کر نہیں گیا بلکہ خود محبت کے جال میں پھنس گیا اور محبت کی بِسرام میں بسنے لگا۔ اس کی ٹوپیاں بندوقیں تانے سپاہیوں کو کمانڈ کرنےکے لیے استعمال نہیں ہوئیں بلکہ پرندوں کے گھونسلوں کی جاہِ استراحت بن گئیں۔

یہ بھی پڑھیں:

لون دا جیون گھر نیٹو سینسیبلٹی ہے۔۔۔کاشف بلوچ

رفعت عباس دا ناول لون دا جیون گھر۔۔۔ نذیر لغاری

ڈیلی سویل بیٹھک: لون دا جیون گھر۔۔ناول رفعت عباس ۔۔ پہلی دری

سرائیکی مقامیت کی سوجھ بوجھ اور لون دا نمک گھر ۔۔۔عامر حسینی

About The Author