نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟||رضوان ظفر گورمانی

ایڈمن بلاک کے اپنے الگ قصے ہیں ایچ آر کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کو دیکھ رہا ہے فنانس والے ایڈمن بنے ہوئے ہیں لاجسٹک والے ایچ آر بن بیٹھے ہیں کوئی اک بندہ بھی متعلقہ کام نہیں کر رہا سب کے سب نا اہل ہیں جب ان سے رزلٹ پوچھیں تو ان کے پلے کاغذی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک بار سابق سینٹر میاں امجد قریشی کے پاس گپ شپ ہو رہی تھی۔ شہر کے اہل علم حضرات موجود تھے کہ میاں صاحب نے سوال پوچھا کہ سب فرداً فرداً بتائیں کہ اس ملک کے تمام مسائل کا حل کیا ہے۔ کسی نے کہا تعلیم کسی نے کہا کرپشن کا خاتمہ کسی نے کہا جمہوریت کا تسلسل طالب علم نے اپنی باری پہ کہا اس ملک کے تمام مسائل کا حل عدل ہے۔

میاں صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ”بالکل سچ کہا رضوان! حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ عدل کیا ہے تو انہوں نے کہا جو چیز جو جگہ ڈیزرو کرتی ہے اس کا وہاں پہ ہونا عدل ہے“ ۔

اب کرپشن ہو نا اہلی ہو آمریت ہو دھوکہ دہی ہو ملاوٹ ہو جنسی جرائم ہوں اگر ہمارا نظام عدل امیر غریب طاقتور اور کمزور کا فرق کیے بنا اگر فوری اور سچا انصاف کرنا شروع کر دیں تو یہ ملک سال کیا مہینے کیا دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔

یہاں طاقتور کے لیے اک قانون ہے اور کمزور کے لیے اور۔ یہ پاکستان ہے یہاں چلتا ہے کہہ کر عام آدمی سگنل توڑ دیتا ہے وارڈن کے کہے پہ نہیں رکتا تو طاقتور جرم کر کے بھی ڈھٹائی سے گردن میں سریا ڈال کر آزاد گھومتا ہے۔

طالب علم سے اگر پوچھا جائے کہ اس ملک کے دگرگوں حالات کا ذمہ دار کون ہے تو میں کہوں گا ججز اور بیوروکریسی۔

سیاستدان مظلوم ہیں ان کی خرابیاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں سیاست کو گالی بنانے میں اک ادارے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن قصور اس ادارے کا بھی نہیں۔

آپ اس ملک کو اک سکول تصور کریں۔

سپریم کورٹ اس سکول کا پرنسپل ہے سیاستدانوں کو اساتذہ تصور کریں ایڈمن بلاک کو بیوروکریسی اور چوکیدار کو ادارہ تصور کر لیں۔

اب ہوتا یہ ہے کہ سکول کے حالات بدتر ہو جاتے ہیں۔ سکول میں چوریاں ہو رہی ہیں طلبا فیل ہو رہے ہیں ان پہ تشدد ہو رہا ہے کچھ طلبا غائب ہو جاتے ہیں

پرنسپل کو جرات نہیں ہوتی کہ وہ چوکیدار سے سوال کرے کہ بھئی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

چوکیدار کا جب دل کرتا ہے کسی کو پکڑ کر پھینٹ دیتا ہے اساتذہ کو کان سے پکڑ کر کلاس سے نکال دیتا ہے۔ اگر کوئی استاد پیریڈ نہ لے تو اسے بلیک میل کرتا ہے جب کہ خود پورا پورا دن بنا بتائے چھٹی مار لیتا ہے۔

ایڈمن بلاک کے اپنے الگ قصے ہیں ایچ آر کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کو دیکھ رہا ہے فنانس والے ایڈمن بنے ہوئے ہیں لاجسٹک والے ایچ آر بن بیٹھے ہیں کوئی اک بندہ بھی متعلقہ کام نہیں کر رہا سب کے سب نا اہل ہیں جب ان سے رزلٹ پوچھیں تو ان کے پلے کاغذی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

اب اگر کوئی ان سے پوچھے سکول کی ایسی حالت کا کیوں ہے تو ساری ذمہ داری اساتذہ پہ ڈال دیتے ہیں کہ بھئی یہ نکمے ہیں۔

اب آپ بتائیں اس میں چوکیدار کا کیا قصور ہے جب پرنسپل میں جرات نہیں کہ چوکیدار سے پوچھ سکے الٹا چوکیدار اور ایڈمن برانچ کے کان بھرنے پہ اساتذہ کو سزائیں دیتا ہو ان کی ڈیوٹیاں تبدیل کرتا ہوں ان کو کلاس سے نکال دیتا ہو تو چوکیدار کو کیا پڑی ہے کہ وہ طلبا کا درد لے وہ تو مزے میں ہے۔ میری نظر میں سکول کی اس حالت کا ذمہ دار پرنسپل اور ایڈمن برانچ ہے۔ پرنسپل نا اہل بھی ہو مگر اس کی انتظامیہ سمجھدار ہو تب بھی معاملات چل سکتے ہیں۔

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال لے لیں وہاں کی بیوروکریسی کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ انہوں نے اک اک چیز پہ نظر رکھی ہے انہوں نے ایسا سسٹم بنایا ہے کہ وہاں کسی شوگر مافیا کسی آٹا مافیا کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ وہاں کی بیوروکریسی نے انفراسٹرکچر ایجادات سیاحت جدت کے ساتھ ڈیجیٹل معاملات پہ بھی بہت زیادہ کام کیا ہے۔ شوبز انڈسٹری سے لے کر انکم ٹیکس تک پراپرٹی قوانین سے لے کر امپورٹ ایکسپورٹ تک ان کی بیوروکریسی نے اک اک چیز پہ محنت کی ہے۔ وہاں ہر چیز ریگولرائزڈ ہے

آپ کو دو مثالیں دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں جس طرح پاکستان میں کار صرف امرا کی دسترس میں ہیں اور عوام کار مینوفیکچر کرنے والی تین بڑی گاڑیوں کے نرغے میں۔ وہاں انہوں نے ایسے حالات بننے ہی نہیں دیے وہاں ان کمپنیوں کو کار مینوفیکچر کرنے کی اجازت تب ملی جب انہوں نے بھارتی حکومت کو بزنس پارٹنر بنایا۔ یہاں کی سوزوکی مہران اور وہاں کی ماروتی 800 اک ہی کمپنی کی اک ہی گاڑی ہے لیکن یہاں کی مہران اور وہاں کی ماروتی میں زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ وہاں ان پہ چیک اینڈ بیلنس رکھنے والے اپنا کام کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے بھارت موٹرز ٹاٹا موٹرز جیسے اداروں کو باہر کے اداروں سے ٹکر لینے کے لیے باقاعدہ شیلٹر فراہم کیا آج بھارتی آٹو انڈسٹری دنیا میں اک نام رکھتی ہے افریقہ سے لے کر ایشیا تک کے درجنوں ممالک میں بھارتی گاڑیاں چلتی نظر آتی ہیں ٹاٹا موٹرز نے بڑے بڑے مغربی برانڈز کو اپنے اندر ضم کر لیا ہے۔

دوسری مثال کوکا کولا کی لیں جب کوکا کولا کی بھارت میں مناپلی ہونا شروع ہوئی تو بھارت نے ان سے شیئرز مانگ لیے اور خود پارلے جی بسکٹ کمپنی کی حوصلہ افزائی کر کے تھمبز اپ نامی کولا بنانا شروع کیا۔ جب بھارت نے دیکھا کہ انہوں نے مقامی سطح پہ معیاری کولا بنانا شروع کر دیا ہے تو انہوں نے کوکا کولا کو ملک سے ہی نکال دیا

انہوں نے کوکا کولا کے سامنے شرط رکھی کہ ہم سے اپنا فارمولا شیئر کرو اور ہمارے شیئرز بھی بڑھاؤ وہ جانتے تھے کوکا کولا اپنا فارمولا شیئر نہیں کرے گا یوں کئی سالوں تک کوکا کولا بھارت میں بین رہی اس دوران ان کی مقامی تھمبز اپ نے بڑا مارکیٹ کیپچر کر لیا پھر کہیں جا کے پہلے پیپسی اور پھر کوکا کولا کو بھارت میں آنے کی اجازت ملی۔

پاکستان میں پراکٹر اینڈ گیمبل اور یونی لیور ان دو کمپنیوں کی مناپلی ہے جب کہ بھارت میں ان کی مقامی پتانجلی کا راج ہے یہ دو کمپنیاں محض کچھ فیصد کاروبار ہی کر پاتی ہیں

وہ کیٹبری ڈیری ملک سے لے کر نیسلے تک میگی نوڈلز سے لے کر کوکا کولا تک سب پہ بین لگا چکے ہیں اور شرائط منوانے کے بعد ان کو مارکیٹ میں اترنے کی اجازت ملی

ادھر پاکستان میں ان پہ لگنے والے ٹیکس کے علاوہ کسی کو کچھ علم بھی ہے کہ وہ کیا فارمولے استعمال کرتے ہیں ان کی فیکٹری میں چائلڈ لیبر ہوتی ہے ان کی پروڈکٹس دنیا کے مقابلے میں یہاں کم تر ہوتی ہیں۔ نیسلے جیسے ادارے نے کس طرح بچوں کی صحت خراب کی ہے بھارت کی ہی فلم ٹائیگر دیکھ لیں جو پاکستانی میڈیکل ریپ پہ بنی ہے جس نے نیسلے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔

میں سیو دی چلڈرن میں ملازمت کرتا تھا وہاں نوٹس لگا ہوا تھا کہ نیسلے کی پروڈکٹس لینا منع ہے پوچھنے پہ علم ہوا کہ پاکستان میں ام کے پلانٹس ایسے ہیں کہ کچھ پائپوں کی صفائی کے لیے انہیں بچے ضرورت پڑتے ہیں چونکہ اپنی فیکٹری کا انفراسٹرکچر بدلنے کی بجائے وہ چائلڈ لیبر کراتے ہیں اس لیے ان کی مصنوعات نہیں لینی۔

اک باہر کی کمپنی کو سمجھ تھی علم تھا لیکن ہماری انتظامیہ گھوڑے بیچ کر سوتی رہتی ہے۔

سکول کی حالت تب تک ایسی رہے گی جب تک انتظامیہ اپنا کام ٹھیک سے کرنا شروع نہیں ہوتی پرنسپل جب تک کانوں کا کچا ہونا بند نہیں کرتا اور چوکیدار سمیت اساتذہ انتظامیہ طلبا حتیٰ کہ کینٹین والے تک سے بازپرس کرنا شروع نہیں کرتا۔ ادھر تو یہ حالات ہیں خود اس کا چپڑاسی اس کے سامنے کینٹین والوں سے اس کا نام استعمال کر کے سموسے منگا کر کھاتا ہے طلبا سے ناجائز جرمانے بٹورتا ہے پیسے لے کر پیپر لیک کرتا ہے اور یہ سب اس کی ناک کے عین نیچے ہوتا ہے نہیں یقین تو کبھی عدالت میں جا کر دیکھ لیں پیشی لگوانے سے لے کر ضمانت کے فردوں تک ریٹس مقرر ہیں اور یہ سب جج صاحبان کے نام پہ کیا جاتا ہے لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں:

ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

رضوان ظفر گورمانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author