حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف میدان گرم ہے۔ جماعت اسلامی کا مستقل دھرنا جاری ہے۔ ایم کیو ایم بہادر آباد کا احتجاج، اس احتجاج کے ہمنوائوں میں تحریک انصاف، جی ڈی اے، ایم کیو ایم حقیقی بھی شامل ہیں۔ ان سب کا موقف ہے کہ سندھ اسمبلی کا منظور کیا گیا نیا بلدیاتی نظام کالا قانون ہے۔ سندھ میں امن و ترقی کیلئے پرویز مشرف والا بلدیاتی نظام بحال کیا جائے ،
ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا کسی ایک صوبے میں مشرف والا بلدیاتی نظام موجود ہے؟
ضمنی سوال یہ ہے کہ کس صوبے نے کس سال میں اسی نظام کو ختم کرکے نیا بلدیاتی نظام نافذ کیا؟
کراچی میں احتجاج کرنے والی دو جماعتیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف 2013ء سے 2018ء کے درمیان خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت کا حصہ تھی اس دور میں کے پی کے کا نیا بلدیاتی نظام تشکیل پایا صالحین نہ صرف اس کا حصہ رہے بلکہ اسمبلی سے منظوری کے وقت وہ اتحادیوں کے ساتھ کھڑے تھے ، کچھ ردوبدل کے ساتھ کے پی کے میں اب بھی نیا بلدیاتی نظام ہے۔
جماعت اسلامی اس کا حصہ ہے ، پہلے مرحلہ کے انتخابات میں اس نے ’’تاریخ ساز‘‘ فتح بھی حاصل کی ہے۔
پی ڈی ایم کی جو جماعتیں کراچی میں مشرف کے بلدیاتی نظام کی بحالی کے لئے احتجاج کرنے والوں کی پشت پناہی میں جُتی ہوئی ہیں ان سب نے کے پی کے ، کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت انتخابی عمل میں شرکت کی۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے 2013ء والے اقتدار کے دنوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر انتخابات کروائے تو اس نے بھی مشرف کے بلدیاتی نظام کو چلتا کرکے پرانا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا۔ کوئی ایک جماعت بتادیجئے جس نے اس وقت مطالبہ کیا ہوا کہ پرانا بلدیاتی نظام بحال کیا جائے۔
آج پنجاب میں تحریک انصاف اور جنرل پرویز مشرف کی بنوائی مسلم لیگ ق کی اتحادی حکومت مسلم لیگ ق بھی پی ٹی آئی کے دیئے گئے بلدیاتی نظام کے ساتھ کھڑی ہے جس کے تحت اگلے چند ماہ میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں۔
یہاں پنجاب میں جماعت اسلامی کا دینی و سیاسی مرکز منصورہ بھی موجود ہے مگر احتجاج کی ہلکی پھلکی آواز بھی سنائی نہیں دی۔
آیئے واپس کراچی چلتے ہیں۔ سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف کراچی میں مورچہ لگائے جماعتوں کی عمومی شہرت یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی لائن پر چلتی ہیں۔ ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ الطاف حسین سے راستہ جدا کرنے والوں پر مشتمل ہے۔
اس گروپ نے اپنی جماعت کے بانی سے لاتعلقی کا اعلان کرکے ’’زندگی‘‘ حاصل کی تھی۔
ایم کیو ایم حقیقی پر اس کے قیام کے دن سے الزام ہے کہ یہ تنظیم "آئی بی” نے بنوائی تھی۔ اس الزام کی بڑی وجہ یہ رہی کہ اس کے بہت سارے رہنمائوں نے 1990ء کی دہائی میں کراچی سے نکل کر لاہور میں جن مکانات میں قیام کیا تھا وہ اسی محکمے نے لے کر دیئے تھے۔
تب ہمیں بتایا جاتا تھا کہ الطاف حسین جناح پور قائم کرنا چاہتے تھے محب وطن مہاجروں نے اس کا منصوبہ ناکام بنادیا ہے۔ ایم کیو ایم حقیقی انہی محب وطن مہاجروں پر مشتمل تنظیم ہے۔
جی ڈی اے نامی اتحاد کا قیام حیدرآباد کے جس ایک بڑے گھر میں عمل میں لایا گیا تھا وہ گھر کس کا ہے سندھ کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
2018ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی جگہ تحریک انصاف کو کراچی میں بندوبست کے ساتھ آگے لانے کے الزامات موجود ہیں۔ الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں ایسے ایسے لوگ قومی اور سندھ اسمبلی کے رکن بن گئے جو قبل ازیں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کونسلر اور چیئرمین یونین کونسل نہ بن پائے۔
سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ایم کیو ایم بہادر آباد اور حقیقی گروپس، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور جی ڈی اے سندھ میں جنرل پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں اور یہ اس کے لئے احتجاج بھی کررہے ہیں۔
پی ڈی ایم کی قیادت ان کے مطالبہ کو درست سمجھتی ہے۔ بلدیاتی نظام پر اٹھے اس تنازع کے دوران اسے سندھی مہاجر مسئلہ بناکر پیش کرنے کی کوششیں بھی بھرپور طریقہ سے ہوئیں لیکن ’’چورن‘‘ بک نہیں پایا۔
ایم کیو ایم اور اس کے ہم خیال گروپوں کا خیال ہے کہ کراچی صرف اردو بولنے والوں کا شہر ہے یہی مقامی ہیں باقی سب غیرمقامی۔
کچھ عرصہ قبل کراچی میں راتوں رات مقامی اور غیرمقامی کی شناختوں اور توہین آمیز کلمات والے بینرز بھی لگائے گئے تھے۔ حال ہی میں کراچی کے سابق میئر وسیم اختر، ایک اور سابق میئر مصطفی کمال اور حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کی ایک ایک تقریر کے ویڈیو کلپس وائرل ہوئے۔
وسیم اختر کا ارشاد تھا ’’سندھی وڈیروں کو اپنی ٹوپی کراچی ٹول پلازہ پر اتار کر کراچی میں داخل ہونا پڑے گا‘‘۔ مصطفی کمال فرمارہے تھے
’’اٹھو پیپلزپارٹی والوں کا نام و نشان ختم کردو مرنا تو ہے ہی مار کر مرو‘‘۔
آفاق احمد اپنے خطاب میں مہاجروں سے کہہ رہے ہیں کہ ’’غیرمہاجروں سے لین دین بالکل نہ کریں‘‘ یہاں تک ارشاد ہوا کہ ’’مہاجروں کو چاہیے کہ وہ پٹھانوں کے ہوٹلوں اور دکانوں سے خریداری کرنے کی بجائے ہم نسل لوگوں سے خریداری کریں‘‘۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے گو ان تین رہنمائوں کی سی زبان تو استعمال نہیں کی مگر ان کے ارشادات کی تلخی بھی دور تک محسوس کی گئی۔
کراچی میں لگے سجے احتجاجی میدان میں بدھ کو گرماگرمی پیدا ہوگئی۔ ایم کیو ایم اور مقامی انتظامی کے درمیان احتجاجی جلوس کا روٹ پریس کلب تک طے ہوا تھا۔ وسیم اختر احتجاج کے لئے جو ڈیڑھ دو سو کارکن لے کر آئے انہیں منصوبے کے تحت پولیس سے بھڑوادیا گیا۔
میڈیا کی جانبداری اور زہریلے پن کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے پولیس پر حملے کی ویڈیوز نشر کیں نہ تصاویر شائع، البتہ پولیس کی کارروائی کی فوٹیجرز ضرورنشر کیں۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رُکیئے یہ احتجاج بلدیاتی نظام کے خلاف تھا۔ نعرے لگے سندھو دیش مردہ باد مہاجر زندہ باد کے لگائے جارہے تھے ، یہ نعرے کس نے اور کیوں لگوائے اس کا مقصد کیا تھا۔
وسیم اختر احتجاجی کارکنوں کو آگے دھمکیل کر خود پتلی گلی سے نکل گئے انہیں پولیس کی جوابی کارروائی کے وقت کارکنوں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ کراچی میں لگے سجے احتجاجی میدان کے مقاصد کیا ہیں انہیں سمجھنے کے لئے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے بیانات پڑھ اور تقاریر کی سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز سن لیجئے ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ بتایا تو بلدیاتی نظام جارہا ہے مگر کھچڑی کچھ اور پک رہی ہے۔
جو خدمت پی ڈی ایم نہیں کرسکی اس کے لئے اب یہ چار خون کے پیاسے میدان میں اتارے گئے ہیں۔
سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی کہتے ہیں ’’جب ایم کیو ایم اور انتظامیہ کے درمیان جلوس کا روٹ طے تھا تو خلاف ورزی کیوں کی گئی‘‘۔
مقررہ روٹ سے ہٹ کر احتجاجی جلوس کے شرکا نے جو راستہ اختیار کیااس راستے پر وہ ہوٹل بھی ہے جس میں پی ایس ایل میں شرکت کرنے والے کھلاڑی مقیم ہیں۔ پولیس نے راستہ روکا احتجاجی کارکنوں نے اس پر حملہ کردیا۔
ویڈیوز موجود ہیں کہ پہلے پتھرائو کس نے کیااور لاٹھیاں کس نے چلائیں۔ یقیناً پولیس نے جوابی کارروائی کی۔ اس کارروائی میں کچھ تجاوز بھی ہوا۔ تجاوز کی وجہ کیا رہی؟
پولیس کی جوابی کارروائی میں ایک رکن سندھ اسمبلی بھی زخمی ہوئے۔ (ن) لیگ کے حامی ایک میڈیا گروپ نے بنا تحقیق کے ایک شخص کے جاں بحق ہونے کی خبر نشر کرکے کس کی خدمت کی؟ جبکہ جاں بحق ہونے والا شخص جلوس میں تھا ہی نہیں وہ اپنے گھر پر دل کادورہ پڑنے سے راہی ملک عدم ہوا تھا ، یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ ہنگامہ مذاکرات کی ناکامی پر ہوا یہ آدھا سچ ہے۔ مذاکرات جلوس کے لئے طے شدہ روٹ سے ہٹ کر راستہ اختیار کرنے سے پیدا شدہ صورتحال پر ہوئے تھے یہ وہ لمحہ تھا جب وسیم اختر نے کارکنوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور خود ایس پی کے عہدے کے ایک پولیس افسر کے ہمراہ موقع سے چلے گئے۔ جلوس کی مخالف سمت جاتے ہوئے وسیم اختر اخبار نویسوں کو کہہ رہے تھے میں آگے جانے والوں کو واپس لانے کے لئے جارہا ہوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر