حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس سے قبل مولانا فضل الرحمن اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے درمیان ٹیلیفون پر طویل دورانیہ کی مشاورت ہوئی۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان حکومت مخالف تحریک (یہ 23مارچ کے مہنگائی مارچ سے شروع ہونی ہے) اور دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
ہمارے لئے اہم خبر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تحریکوں کو غیرضروری قرار دیا ہے۔
گو (ن) لیگ کے ہی ایک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ کہہ کر کہ ’’عدم اعتماد حساس معاملہ ہے، پوری تیاری ہوگی تو تحریک پیش کیں گے‘‘ لیپا پوتی کی بھرپور کوشش کی مگر اصل بات یہی ہے کہ پی ڈی ایم جناب نوازشریف کے اس وعدہ کی پاسداری میں مصروف ہے کہ ’’موجودہ حکومت کو پانچ سال پورے کروائے جائیں‘‘۔
اس دعوے کے حوالے سے پیپلزپارٹی جو بھی کہتی ہو لیکن جس بات پر غور کیا جانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کہاں تو پی ڈی ایم کو استعفیٰ استعفیٰ کھیلنے کی اتنی جلدی تھی کہ کسی حتمی فیصلے کے بغیر "انجمن جھولی چُکان جاتی امراء” کے توسط سے مارچ 2021ء سے قبل ’’سماں‘‘ باندھ دیا گیا کہ پی ڈی ایم میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر اتفاق رائے ہے۔
اس اتفاق رائے کی جھوٹی کہانی کا بھانڈہ پھوڑنے پر پیلپزپارٹی اور اے این پی سے جو سلوک ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ سول سپرمیسی کے اطلاعاتی طوطوں اور دوسروں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔
تب ان سطور میں عرض کیا تھاکہ جب جے یو آئی کے لانگ مارچ میں اسلام آباد دھرنے کے دوران مولانا فضل الرحمن کی چودھری برادران کے توسط سے ’’بڑوں‘‘ سے ملاقات کروائی گئی تھی تو یہ طے پایا تھا کہ مولانا پیپلزپارٹی کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر راضی کریں گے اور اگر متحدہ اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہوجاتی ہے تو انتخابی عمل کی طرف بڑھنے میں تعاون فراہم کیا جائے گا۔
یہ بھی عرض کیا تھا کہ انتخابی عمل کی طرف بڑھنے میں تعاون کا ’’لولی پاپ‘‘ دیا گیا ہے۔ ’’بڑے‘‘ چاہتے ہیں یہ بھی کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس سے 18ویں آئینی ترمیم کی صوبائی خودمختاری والی شقیں واپس ہوسکیں۔
چودھری برادران بڑوں کے سہولت کار بنے اور مولانا کو دھرنے کے میدان سے ملاقات کے لئے لے گئے۔ مولانا ملاقات سے واپس آئے تو کہنے لگے، مارچ میں تبدیلی کا وعدہ کیا گیا ہے ، وہ مارچ گزر گیا اگلے مارچ سے قبل نیا سیاپا برپا ہوا استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے تحفظات دور کرنے کی بجائے ” بڑوں ” سے وعدہ کرچکے قائدین کے ایما پر پیپلزپارٹی کو غدار قرار دے دیا گیا
اس عرصہ میں کس کس نے کیا کیا بولا سب تاریخ (زیادہ دور کی بات نہیں پچھلے سال کی) کا حصہ ہے۔ آصف علی زرداری کی پی ڈی ایم کے اجلاس میں ایک تقریر کولے کر ’’میرا ایک بیٹا ہے‘‘ والی کہانی اچھالی گئی یہ کہانی کیوں آگے بڑھائی گئی اس پر ایک سے زائد باران سطور میں عرض کرنے کے سا تھ آصف علی زرداری کی تقریر کے اس حصے کو بھی کالم میں لکھ چکا جس میں بیٹے کے ساتھ بیٹی کا ذکر بھی تھا مگر اطلاعاتی چمونوں نے آدھی بات کی۔
چند ماہ قبل جب پی ڈی ایم نے مہنگائی مارچ کے لئے 2022ء کی تاریخ دی تھی تو تب بھی یہ عرض کیا تھاکہ مہنگائی سے لوگ اب سسک رہے ہیں مہنگائی مارچ، مارچ 2022ء میں ہوگا۔
پی ڈی ایم عوام کو کس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگارہی ہے؟
اب عدم اعتماد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے بیان اور شاہد خاقان عباسی کی تشریح ہر دو کے بعد یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا جو گروپ پی ڈی ایم کہلاتا ہے وہ جناب نوازشریف کے اس وعدے کی پاسداری کا محافظ بنا ہوا ہے کہ حکومت پانچ سال پورے کرے۔
اصولی طورپر کرنے چاہئیں یہی سال 2020ء اور 2021ء میں عرض کرتا رہا ہوں کہ اگر 2013ء کے جھرلو برانڈ انتخابی نتائج پر سیخ پا اپوزیشن جماعتیں ’’شکریہ شریف‘‘ کی واردات کے مقابلہ میں اس وقت (ن) لیگ کی حکومت کے ساتھ کھڑی رہیں تو اب کون سا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
انتخابی نتائج (2018ء والے) بھی تو 2013ء کی طرح کے ہی ہیں۔ حکومت گرانے کی بجائے اسے وقت پورا کرنے دیا جائے۔
تب سیخ پا ہوئے دوستوں کا خیال تھا کہ حکومت کو مدت پوری کرنے دینا جمہوریت سے غداری ہے۔ چلیں اب کرلیجئے جمہوریت کی حفاظت۔
یہاں تک لکھا گیا کہ ’’اگر پی ڈی ایم نے اپوزیشن کی سیاست کرنا ہے تو پیپلزپارٹی کو لات مار کر پی ڈی ایم سے باہر پھینکا جائے‘‘۔ یہ لکھا کس نے جس کا خمیر جہاد افغانستان سے اٹھا اسے صحافت میں ایک ادارے نے لانچ کیا۔ کیا اسے اب کسی اور کو بھی پی ڈی ایم سے لات کر نکلوانا ہے یا خون صرف پیپلزپارٹی کے نام پر کھولتا ہے؟
پی ڈی ایم کے گزشتہ روز والے سربراہی اجلاس میں صدارتی نظام کی باتوں کو خلائی تجویز اورسازش قرار دیا گیا۔ درست ہے مگر اسمبلیوں سے استعفیٰ دلوانے کا وعدہ کیوں کیا گیا تھا خلائی مخلوق سے؟
یہاں ایک سوال اور بھی ہے وہ یہ کہ پچھلے برس پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی کو نکالنے کے باوجود لانگ مارچ کیوں نہ کیا؟ اور پھر سال بھر سے ڈیل کہانیاں، جرنیلوں اور نمائندوں کی لندن میں میاں نوازشریف سے ملاقاتوں، دسمبر اور پھر جنوری میں ان کی واپسی اور امور مملکت سنبھالنے کے لئے قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کہانیاں آگے بڑھانے کی ضرورت کیا تھی؟
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے پیپلزپارٹی سے رابطوں کی تردید کی لیکن جاتی امراء نیوز اور کچھ دوسرے دوگھنٹے تک ہمیں یہ بتاتے رہے کہ اجلاس میں اس بات پر غور ہوا کہ پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم کے مہنگائی لانگ مارچ میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ صحافت کے ’’فیثا غورثوں‘‘ سے کوئی پوچھے کیا پیپلزپارٹی نے اس کے لئے درخواست دی تھی؟
عدم اعتماد کے معاملے میں پارلیمنٹ کی متحدہ اپوزیشن یا یوں کہہ لیجئے کہ دسمبر میں شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے درمیان جو ابتدائی اتفاق رائے ہوا تھا پی ڈی ایم اس سے پیچھے کیوں ہٹی؟
سوال اور بھی بہت ہیں لیکن فائدہ کوئی نہیں۔ میڈیا کی جانبداری کا عالم یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے کسان مارچ کی خبروں کو نظرانداز کرنے کے ’’انداز‘‘ میں نشر کیا گیا۔
اس موضوع کو بھی اٹھارکھئے۔ عدم اعتماد کی تحریک سے پی ڈی پی ایم پیچھے اس لئے ہٹی کہ اس کے خیال میں اگر یہ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے تو پیپلزپارٹی کا موقف درست ثابت ہوگا۔
اب آئیے اس بات پر غور کرلیتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اپنے پرانے مہربان آصف علی زرداری سے ناراض کیوں ہیں۔
ایک وجہ تو وہی ہے کہ پی پی پی نے استعفوں کی خواہش کو رد کردیا اور رد کرنے کی وجوہات بھی پی ڈی ایم کے اجلاس میں بیان کردی تھیں۔ دوسری وجہ جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل والے اجلاس میں
اپوزیشن اتحاد کے 30نکات طے ہوئے تھے 31واں نکتہ "ایک مذہبی معاملہ” مولانا نے اپنے قلم سے لکھا تھا جب صحافیوں کو بریفنگ دی جارہی تھی تو بلاول بھٹو کا موقف تھا کہ یہ مذہبی نکتہ پی ڈی ایم کا نہیں مولانا کی جماعت کا ہے۔
پی ڈی ایم سیاسی اتحاد ہے، سیاسی اتحاد کو مذہبی جذبات سے کھیلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
مولانا کے دل میں گرہ پڑگئی کیونکہ انہوں نے اپنے ( جے یو آئی والے ) لانگ مارچ سے قبل جتنے جلسے کئے تھے وہ ایک مذہبی نکتہ کے گرد گھومتے رہے۔ ان کی تقاریر اٹھاکر دیکھ پڑھ سن لیجئے، مولانا اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے خلاف دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ مذہبی جذبات بھڑکانا سیاست کے لئے اہم ہے۔
پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا سیاسی شعور کا مظاہرہ ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ ناپاک سازش، اسلام کا دفاع، مدارس قلعے ہیں اور ختم نبوتؐ کے قانون کی حفاظت، مولانا کی ساری سیاست ان چار نکات سے عبارت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 23مارچ کے مہنگائی مارچ کے بطن سے کیا برآمد ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر