ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اگلی صبح جب سورج نکلا اور کمرے کی فضا نرم گرم ہو گئی تو انہوں نے ننھے آفتاب کے کپڑے اتارے اور اس کے ننھے بدن کی پڑتال کرنے بیٹھیں۔ آنکھیں، ناک، سر، گردن، بغلیں، انگلیاں، انگوٹھے ایک سیری اور بے تعجیل خوشی کے ساتھ ٹٹولے۔ تبھی اس کے مردانہ اعضا کے نیچے لگا ایک چھوٹا، ادھورا لیکن بلاشبہ زنانہ حصہ نظر آیا۔
خیر یہ سچ مچ کا زنانہ حصہ تو ہے نہیں، انہوں نے خود کو سمجھایا۔ اس کا سوراخ کھلا ہوا نہیں ہے۔ محض پیوند ہے، ننھی سی شے۔ شاید خود بخود بند ہو جائے گی، ٹھیک ہو جائے گی یا مندمل ہو جائے گی کسی طرح۔ وہ جتنی درگاہیں جانتی ہیں، جائیں گی اور پروردگار سے رحم کی بھیک مانگیں گی اور وہ رحم کرے گا۔
آفتاب کی زندگی کے چند ابتدائی برسوں میں جہاں آرا کا یہ راز محفوظ رہا۔ وہ اس کے زنانے حصے کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرتی رہیں۔ بالآخر انہیں اپنے شوہر حکیم ملاقات علی کو اس راز میں شامل کرنا پڑا۔
حکیم صاحب ننھے آفتاب کو ڈاکٹر نبی جو خود کو ماہر جنسیات بتاتے تھے، کے پاس لے گئے۔ آفتاب کی جانچ کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ ( Hermaphrodite) ہرمیفروڈائٹ ہونے کا ایک نادر نمونہ ہے، جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک سرجن کا بتائیں گے جو زنانہ حصے کو ٹانکے لگا کر بند کر دے گا۔ لیکن ہیجڑے پن کی فطرت باقی رہے گی، جس کے معدوم ہونے کا امکان نہیں ”
(ارون دھتی رائے۔ بے پناہ شادمانی کی مملکت۔ ترجمہ؛ ارجمند آرا )
مردانہ اور زنانہ اعضا، اندرونی اور بیرونی، اگر دونوں موجود ہوں، تو عرف عام میں ہیجڑا یا خواجہ سرا اور سائنسی زبان میں ہرمیفروڈائٹ۔
ہرمیفرو ڈائٹ قدیم یونانی زبان میں دیوتا ہرمس اور دیوی ایفرو ڈائٹ یا وینس کے بیٹے ہرمیفروڈائٹس کے نام سے منسوب ہے جس کا ذکر یونانی شاعر اووڈ نے تینتالیس قبل مسیح میں کیا۔ ہرمیفرو ڈائٹس نے زنانہ اور مردانہ دونوں اعضا کے ساتھ جنم لیا۔
انگریزی زبان میں لفظ ہرمیفروڈائٹ چودھویں صدی میں داخل ہوا اور اس کے معنی مرد اور عورت کے جنسی اعضا کا اکٹھے ایک جسم میں موجود ہونا تھا۔
وکٹورین زمانے میں طبی علما نے ہرمیفروڈائٹ انسانوں کے متعلق جاننے کی مزید کوشش کی۔ اس دور سے بیسویں صدی کے آخر تک ہرمیفروڈائٹ کو دو اقسام میں بانٹا گیا۔ ٹرو اور سوڈو۔
ٹرو ہرمیفروڈائٹ میں جسم کے اندر خصیے بھی ہوں گے اور بیضہ دانی بھی۔ بیرونی طور پہ عضو تناسل بھی اور ویجائنا بھی، جیسا ناول کے کردار آفتاب کے ساتھ ہوا،
” تبھی اس کے مردانہ اعضا کے نیچے لگا ایک چھوٹا، ادھورا لیکن بلاشبہ زنانہ حصہ نظر آیا“
لیکن سوڈو ہرمیفروڈائٹ ( pseudo Hermaphrodite) میں صورت حال کچھ یوں ہو گی کہ بیرونی طور پہ عورت/ مرد اور اندرونی طور مرد/ عورت جیسے کہ منٹو کے مسٹر حمیدہ اور ہماری مریض۔ جسم کے اندر خصیے اور باہر ویجائنا، سو داڑھی بھی اور زنانہ پن بھی۔
ہرمیفروڈائٹ جنیاتی طور پہ XX یا XY نہیں بلکہ دونوں طرح کے کروموسومز کے ابنارمل ملاپ ( موزیک) سے وجود میں آتا ہے۔
زنانہ یا مردانہ خصوصیات کا انحصار اس بات پہ ہو گا کہ جسم میں مردانہ ہارمونز زیادہ ہیں یا زنانہ۔
ارون دھتی کے آفتاب نے انجم بننا پسند کیا تھا لیکن منٹو کی مسٹر حمیدہ، حمید نہیں بن سکی تھی۔
”ڈاکٹر مختار نے ڈاکٹر نبی کے مقابلے میں زیادہ تسلی دی تھی۔ انہوں نے کہا وہ اس کے مردانے حصے کو نکال دیں گے اور زنانہ حصے کو چوڑا کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کچھ گولیاں بھی تجویز کیں جن سے آواز کا بھاری پن کم ہو جائے گا اور چھاتیاں بڑھنے میں مدد ملے گی“
( بے پناہ شادمانی کی مملکت؛ ارون دھتی رائے )
اگر آفتاب کی قسمت ساتھ دیتی، اگر یہ علاج وقت پیدائش ہو جاتا اور پہچان مکمل ہو جاتی تو شاید بے پناہ شادمانی کی مملکت تو ہوتی مگر انجم کے بغیر۔ دنیا تب شاید اسے حکیم آفتاب کے نام سے جانتی، وہ حکیم صاحب جنہوں نے مجرد زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر