مجھے اور میرے دوستوں کو ان قبائلی بچوں کا اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ ان کا تعلق یمن کے جنگ زدہ علاقوں سے ہے یا برما سے آئے پناہ گزینوں کے کیمپ سے ہے نہ ہی پتہ چل رہا تھا کہ کہ مقبوضہ کشمیر سے یہاں آئے ہیں اور نہ ہی ہم اندازہ لگا سکے کہ ان کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے۔ اور نہ ہی ہمیں پتہ چلا کہ یہ وہ بچے ہیں جو افغان جنگ کے دوران لاوراث رہ گئے تھے اور اب طالبان کے پاس ہیں ان بچوں کے لئے تو اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے امداد کی اپیل کر دی لیکن ان کی امداد کی اپیل کون کرے گا؟
کوہ سلیمان کے یہ بچے اگر سردی سے مر جائیں تو کوئی بات نہیں یہ ننھے فرشتے اور اقبال کے شاہین ہمیں موسم کی شدت سے بے نیاز نظر آئے انہیں تو مئی، جون، جولائی کی شدت گرمی کا احساس ہوگا اور نہ ہی دسمبر،جنوری، فروری میں خون جما دینے والی سردی کا احساس ہے ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پارہ 51سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا یا منفی6تک چلا گیا وہاں پر ٹھنڈی اور یخ بستہ ہوائیں چل رہیں تھیں ان بچوں کے بدن پر نہ کوئی سوئیٹر تھا اور نہ کوئی کوٹ اور اوور کوٹ یہ ننگے پاؤں اور ننگے سر تھے، کوٹ، چادر، مفلر کا تو ان کو پتہ ہی نہی اور یہ ننگے پاؤں، ننگے سر کوہ سلیمان کے سنگلاخ اور نوکیلے پتھروں پر پیدل چلناتو ان کو ورثے میں ملا ہوا ہے ان کو اپنے لئے نوروزی باٹا ہرگز نہیں بلکہ پلاسٹک والے 100اور200روپے والے چپلوں کی ضرورت ہے ان کو سردیوں سے بچاؤ کے لئے عام لباس مل جائے تو بہتر ہے، برانڈڈکی ضرورت نہیں ان کی خوراک قیمے والے نان، کڑاہی گوشت سجی، فاسٹ فوڈاور نہ ہی سویٹ یہ جوار باجری کے زنب کھا کر زندہ ہیں۔ یہ کمزور اور نحیف جسامت والے بچے نیڈو اور نجی کی پیداوار ہرگز نہیں یہ اپنی ماں کا اصل دودھ پی کر جوان ہورہے ہیں۔ تعلیم تو ان کے والدین کے مقدر میں نہیں تھی اور نہ ہی ان کے مقدر میں ہے۔
پھر سرکاری سکول کیا Beacon House،Head Starیا صدیق پبلک سکول ان کا مقدر تو دنیا کے خداؤں کےFixکردیا ہے دنیا میں آتے ہی چند مویشی ان کے نام کردیئے جاتے ہیں اور یہ چھڑی ہے کر ان کی نگرانی کرنا ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے دستخط کرنے سے انک نفرت نہیں لیکن یہ تھمب سسٹم کے قائل ہوگئے ہیں۔ انگوٹھا لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان معصوم بچوں کو نہ جنرل لفظ کی سمجھ ہے اور نالجکا پتہ ہے انہیں نہیں معلوم کہ باجوہ کون ہے اور انجم کون ہے۔ ان کو پتہ نہیں عمران کون ہے اور خاتون اول پیرنی کون ہے نہ ہی یہ نواز شہباز، مریم، بلاول، زرداری، فضل الرحمن اور سراج الحق کا نام جانتے ہیں ان کو پتہ نہیں کہ نیب اور اینٹی کرپشن کیا بلا ہوتی ہے۔
انہوں نے کرنسی کا نام تو کبھی نہیں سنا یہ کیا بلا ہے، یورو، ڈالر، اور پونڈ کا ان کو کیاعلم۔ یہ آرمی، رینجر، ایف سی اور پولیس کسی فورس کو نہیں جانتے لیکن خاکی وردی والے BMPکے سوار سے لے کر رسالدار کو پہچان لیتے ہیں اور بلوچی میں کہتے ہیں ”اے مئیں صاحب ہے“ مسلسل نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے سرداری نظام میں آنکھیں کھولنے والے یہ بچے اب اپنے چیف یا سردار کسی کا بھی نام بتانے سے قاصر ہیں یہ چست چالاک اور تیز طرار بھی نہیں شہری بچوں کی طرح ان قبائلی بچوں کے چہرے سے سادگی اور معصومیت جھلک رہی ہے۔
ان بچوں کو اپنی تحصیل، ضلع اور ڈویژن کا کچھ پتہ نہیں ان کو صرف یہ معلوم ہے کہ ہمارے بزرگ دو کلو میٹر کچے روڈ کے لئے جھولی پھیلا پھیلا کرچندہ کررہے ہیں اور پانی کے لئے تو ہم بارش کی دعا مانگ رہے ہیں پھر کیا اور کیاحکومت۔ ان بچوں کے دکھ درد کے لئے کوئیاقوام متحدہ اپیل نہیں کرے گی اور نہ ہی کوئی سرخی پاؤڈر والے این جی اوز ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائے گی ہم نے تو زرگلی جا کر جو دیکھا اس کی منظر کشی کردی بطور صحافی میری اپیل ہے کہ علاقہ زبان، قوم،رنگ نسل سے بالا تر ہو کر آپ ہی ان ننھے بچوں کی امداد کریں جس میں سوئیٹر کمبل، جرابیں، ٹوپیاں اور چپل شامل ہوں، زیادہ سے زیادہ زرگلی اور نزدیک دو سو بچے ہوں گے مجھے خوشی ہے کہ سردار فاروق خان کھتران نے سب سے پہلے امداد کا اعلان کیا ہے انہوں نے کہا کہ میں جلد ہی وہاں جا کر سامان تقسیم کروں گا انہوں نے مجھے اپنا نام لکھنے کا ہرگز نہیں کہا یہ زیادتی میں خود کررہا ہوں۔
آخر میں میں اپنے سی ایم سے کہوں گا کہ سی ایم صاحب تمن قیصرانی تحصیل کوہ سلیمان کے یہ بچے آج بھی تبدیلی کی راہ دیکھ رہے ہیں وہ تبدیلی جس کے لئے عمران خان نے آپ کا انتخاب کیا تھا شاید کوہ سلیمان کے یہ بچے بھی شامی بچے کی طرح یہ کہتے ہوئے کہ اگلے جہان ہم وہاں جا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے ساتھ ہونے والی شکایت کرینگے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر