گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مصری کہاوت ہے کہ جنت میں جانے سے پہلے آپ سے دو سوال پوچھے جائیں گے۔نمبر ایک کہ تم نے دنیا میں خوشی محسوس کی؟ فرض کر لیتے ہیں آپ کا جواب yes
ہے تو دوسرا سوال پوچھا جاتا ہے کیا تم نے لوگوں میں خوشی تقسیم کی؟ اس کا جواب بھی اگر yes ہو تو دربان کہ دیتا ہے۔۔۔تم تو پہلے ہی جنت میں ہو ۔۔
یہ بات مجھے اس لیے یاد آئ جب ہم بچپن میں گاٶں میں پل بڑھ رہے تھے تو عملی طور پر ہم ایسا ہی کرتے تھے اگرچہ ہمیں اس کہاوت کا پتہ نہیں تھا۔گاٶں وہ ہوتا ہے جہاں سادہ سماج آباد ہو جہاں سچائی اور ایمان داری کا بول بالا ہوں ، جہاں لوگ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے کام آتے ہوں اوربوقت ضرورت ایک دوسرے کی دستگیری کرتے ہوں اور جہاں فضائی آلودگی سے محفوظ ایک صاف وستھری آب وہوا میسر ہو اور کھیتوں سے تازہ سبزیاں جسے آجکل organic کہا جاتا ہے دستیاب ہوں ، دیسی مرغ اوردیسی مرغی کےانڈے ، گائے اور بھینس کا تازہ و خالص دودھ مہیا ہو ، شام ہوتے ہی چوپال لگتی ہو جہاں گاؤں بھر کے مسائل پر چرچا ہوتی ہو۔ہمارے گھر گوشت کبھی کبھی پکتا تھا ۔چٹنی۔سلاد۔اچار۔شکر ۔بھاجی ۔پیاز یہ ہمارا سالن تھا ۔تنور کی روٹی پکاتے وقت پیاز کتر کے مکس کر لیتے اور لسی ساتھ ملا کے کھا لیتے۔
اس وقت ہمیں شھری کھانے میسر نہیں تھے اس لیے ہم اپنے آپ کو غریب سمجھتے تھے۔ہمارے ہاں کوئ بلڈ پریشر۔شوگر ۔جوڑوں کے درد ۔ڈیپریشن ۔کرونا کا مریض نہیں تھا۔ ۔گاٶں میں ایک حکیم تھا جو خمیرے۔معجون اور کٹی نباتات کی پڑیاں معمولی دام پر ضروت کے وقت دے دیتا ۔دھشت گردی کا نام نہیں سنا تھا۔ اگر سال میں ایک دفعہ سرخ آندھی آتی تو ہمارے بزرگ کہتے کسی جگہ ناحق قتل ہوا ہو گا۔۔
آج زندگی کے چلن دیکھ کے سوچتا ہوں ہم نے بے زری کے زمانے سے زرخیزی کے زمانے داخل ہو کر کیا پایا؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ