ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے ہی بچے سے خوفزدہ ہو جائے؟ جہاں آرا ہو گئیں۔ پہلا ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے اپنے دل کو سکڑتے اور اپنی ہڈیوں کو راکھ میں بدلتے محسوس کیا۔ دوسرا ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے دوبارہ دیکھا، کہیں دیکھنے میں غلطی تو نہیں ہوئی۔ تیسرا ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے اپنی تخلیق سے منہ موڑ لیا۔ اپنے چوتھے ردعمل میں انہوں نے خود کو اور بچے کو مارنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔
اردو میں اس واحد زبان میں جو وہ جانتی تھیں، ہر شے کی جنس مقرر ہے۔ صرف جاندار ہی نہیں بلکہ ہر شے کی …..قالین، کپڑے کتابیں، قلم، آلات موسیقی۔ ہر شے یا مذکر ہے یا مونث، مرد ہے یا عورت۔ ہر شے….ان کے اپنے بچے کے سوا۔
کیا زبان سے باہر جینا بھی ممکن ہے؟ ارون دھتی رائے۔ بے پناہ شادمانی کی مملکت” ( ترجمہ ۔ ارجمند آرا)۔
ڈی ایس ڈی……. ارے ارے ڈی ڈی ٹی نہ سمجھ لیجئیے گا جو ہمارے بچپن میں جراثیم مارنے کے لئے ہر طرف چھڑکائی جاتی تھی۔
سب جانتے ہی ہیں کہ ہاتھ میں ہیٹ تھامے آج کل ہم اس سے کچھ نہ کچھ نکالتے ہی رہتے ہیں سو دو مزے کے کمنٹ سن لیجیے جو ہمیں پچھلے مضمون پہ ملے۔
“سیدھی بات کیا کریں، بکواس نہیں”
ہم تو جواب سوچتے ہی رہے اور اتنے میں کسی مہربان نے جواب لکھ دیا اور وہ بھی غالب کے ناز وانداز میں، واللہ مزا آ گیا۔
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
آج ارون دھتی رائے اس لئے یاد آ گئیں کہ وطن عزیز میں خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر کے حقوق کا غلغلہ تو بہت ہے لیکن ابھی تک آگہی ادھوری ہے ۔ ٹرانس جینڈر ایک ایسی چھتری ہے جس کے نیچے ہر طرف سے اور ہر طرح کے مسائل کو اکھٹے باندھ دیا گیا ہے۔ ان کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ معاشرہ یہ یاد کرلے کہ کسی بھی انسان، چاہے وہ مرد ہو یا عورت یا کچھ بھی اور ، ہم اس کے پاجامے میں نہیں جھانک سکتے۔
جی ہاں، دنیا میں یہی اصول بنایا جا چکا ہے کہ کسی کے پاس بھی کوئی ایسا حق موجود نہیں کہ وہ کسی کے بھی پاجامے کے اندر جھانک کر ان کو کسی بھی میزان میں تول ڈالے۔
ڈاکٹر ہونے کے ناطے ہماری گفتگو ٹرانس جینڈر کی ایک شاخ تک ہی رہے گی جو ہم سے اور اس وقت سے متعلق ہے جب انسان نے ابھی پاجامہ نہیں پہنا ہوتا ۔ ماں کے رحم سے برآمد ہونے والا بچہ …. یہ وہ حقیقت ہے جسے کوئی بھی کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کر سکتا ۔
ماں کے رحم سے نکلنے والے بچے کا جسمانی معائنہ اور خون کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ اس وقت ہی صنفی پہچان کا مرحلہ بھی آتا ہے۔
کسی بھی کمی بیشی کی صورت میں تشخیص کے طور پہ ڈی ایس ڈی ( Disorders of sex differentiation) لکھا جاتا ہے جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا کہ اسے ڈی ڈی ٹی نہ سمجھ لیا جائے۔ ماضی میں ڈی ایس ڈی کو inter sex بھی کہا جاتا تھا۔
نومولود میں تین مقامات پہ خرابی ہو سکتی ہے۔
1-کروموسومز کی کمی بیشی
2-بیرونی جنسی اعضا میں شناخت کی کمی
3-اندرونی جنسی اعضا کی کمی بیشی
بعض بچوں میں کوئی ایک اور بعض میں تینوں کم یا زیادہ صورت میں ہوتی ہیں۔
ایسا ہوتا کیوں ہے؟
اللہ جانے !
بالکل اسی طرح جیسے کوئی بھی اور عضو بننے میں خامی رہ جائے۔ پیدائشی نابینا پن، بہرہ پن، گونگا پن، ہاتھ پاؤں نہ ہونا یا ٹیڑھے ہونا …. کیا کیا گنوائیں؟
ستم ظریفی دیکھیے کہ معاشرہ سب کچھ قبول کر کے بچے کو گلے سے لگا لیتا ہے سوائے اس خامی کے جو پاجامے کے اندر ٹانگوں کے بیچ ہو۔
ٹرانس جینڈر کی چھتری کے نیچے کچھ اور اشکال بھی ہیں لیکن ان کا ذکر وقت آنے پر !
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر