یاسر جواد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(شاید زیادہ تر افراد کو اس پوسٹ میں دلچسپی نہ ہو، لیکن یہ پاکستانی ’’لیفٹ‘‘ کے آخری کلاسیکی کردار پر روشنی ڈالتی ہے)۔
نسرین انجم بھٹی کی قریبی سہیلی کے شوہر لخت پاشا عرف پاشی نے 1980ء کی دہائی کے اواخر اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں لاہور میں نوجوانوں کا سٹڈی سرکل کروانا شروع کیا (اور وہیں سے میری براہ راست معلومات شروع ہوتی ہیں)۔ وہ اندرون موچی دروازہ، چوٹہ مفتی باقر سے تعلق رکھتا تھا جہاں باپ کا بنوایا ہوا دو تین مرلے اور چار منزلوں پر مشتمل مکان تین بھائیوں کے حصے میں آیا۔ جب میں نے موچی دروازے والے مکان میں سٹڈی سرکل کے لیے جانا شروع کیا تو وہ بطور مہمان اُستاد کے آیا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دیبی پرساد چٹوپادھیہ کی کتاب ’’میٹریلزم اِن اینشنٹ انڈیا‘‘ کے چند صفحات پڑھ کر اُن پر بات کی جاتی ہے، بلکہ سمجھایا جاتا تھا۔
پھر یہ سرکل پکی ٹھٹھی سمن آباد منتقل ہوا اور وہاں تین تین ویگنیں بدل کر جانے لگے۔ تب افضل احسن رندھاوا کا ناول دوآبہ پڑھتے اور اُس پر بات کرتے تھے۔ پاشی کی خاص بات یہ تھی کہ وہ سٹڈی سرکل کے ایک گھنٹے سے پہلے اور بعد دو دو گھنٹے کی جگت بازی کا جواب بھی دے لیتا تھا۔ ویسے وہ تند مزاج تھا، وسیع المطالعہ تھا، گفتگو اور مکالمے بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا، غصہ بھی کر جاتا اور دلجوئی بھی کرتا۔
تب سوشلزم کے امکان کا سورج سوویت روس کے انتشار کے بعد تیزی سے اپنی روشنی کھونے لگا۔ سٹڈی سرکل بھی کم ہونے لگے، آپس میں انا پرستی کی لڑائیاں بھی شروع ہو گئیں۔ دراصل پنجاب لوک رہس (ڈراما)، پنجاب لوک لہر (سیاست)، پنجابی پرچار کمیٹی (ادب) اور سنگیت منڈلی (موسیقی) اور آرٹ سے متعلقہ پانچ شاخوں پر مشتمل انجمن کا سربراہ پاشی تھا۔ پرانے سوشلسٹ پارٹی سٹرکچر کے مطابق ہر ضمنی شاخ میں اگر دس دس ارکان ہیں تو چار یا تین ارکان باقی سے خفیہ طور پر ایک ’’سیل‘‘ تشکیل دیں گے جس کا باقی چھ ارکان کو علم نہیں ہو گا۔ یہ ’’سیل‘‘ کے ارکان معاملات کو manoeuvre کرتے۔ لیکن ان تین یا چار ارکان میں ایک رکن ایسا ہوتا تھا جن کا باقی دو یا تین کو علم نہ ہوتا۔ اِسے pivot کہا جاتا تھا۔ یہ رکن براہ راست مطلق گرو کو رپورٹ کرتا اور اُس سے ہدایات لیتا تھا۔ اس انجمن میں یہ مطلق گرو پاشی تھا۔
سوویت یونین ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے انتشار کے نتیجے میں اندرونی خلفشار شروع ہوا۔ سیاسی ونگ (جس میں میں بھی تھا) کے اراکین کو کسی طرح ’’سیل‘‘ کا علم ہوا اور اُنھوں نے بغاوت کر دی، پاشی کے گرو ہونے پر سوال اٹھایا۔ پاشی اس حیثیت کے بارے میں کسی بھی سوال کا جواب دینے کو تیار نہیں تھا، لہٰذا گروپ منتشر ہو گیا۔
پاشی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ وہ اپنے ماتحت شاخوں سے متعلقہ امور میں معلومات اور حتمی رائے رکھتا تھا (یا کم ازکم ہمیں ایسا لگتا تھا)۔ آپ روسی ادب یا ہندوستانی فلسفے، یونانی یا اطالوی ڈرامے، کلاسیکی موسیقی، آرٹ وغیرہ کسی بھی بارے میں سوال لے کر جاتے، وہ آپ کو بھرپور طریقے سے راہنمائی دیتا۔
انتشار نے چند سال کے لیے پنجاب لوک لہر کے ارکان کو ایک دوسرے سے نالاں کرنےکے علاوہ پاشی کا باغی بھی بنا دیا۔ اور چند سال اُس سے ملاقات نہ ہوئی۔ لیکن پھر میں دوبارہ اس کے سٹڈی سرکل یا ’’میٹنگ‘‘ میں جانے لگا جو اب کچا فیروزپور روڈ پر واقع ایک پلازے کے کمرے میں ہوا کرتی تھی۔ پاشی نے کہا، ’’او، تینوں تے اسیں پنجابی لئی تیار کیتا سی، توں اردو ول جا وڑیا؟‘‘ خیر چند میٹنگوں کے بعد پھر گڑبڑ ہونے لگی۔ میں نے ایک بار بے باکی سے پوچھا، ’’تو نے بچے کیوں پیدا نہیں کیے؟‘‘ اُس نے کہا، ’’میں نے فیصلہ کیا تھا کہ بچے پیدا نہیں کرنے، کام کرنا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو بھابی نے تو کام نہیں کرنا تھا۔ اُس کا کیا قصور؟‘‘ پاشی کو تھوڑا دھچکا لگا اور بولا، ’’یار فیر انقلاب لئی قربانی تے دینی پیندی اے۔‘‘ (پاشی کے دوسرے بھائی کی بھی اولاد نہیں اور تیسرے بھائی نے شادی ہی نہیں کی)۔
خیر، جلد ہی اپنی خصلت کے مطابق میں نے دوبارہ گرو کی حیثیت پر سوال اٹھایا اور ایک دو دیگر ’’ناراض عناصر‘‘ بھی ہم آواز ہوئے۔ پاشی نے صاف صاف کہا، ’’اگر مجھے گرو ماننا ہے تو بیٹھو ورنہ جا سکتے ہو۔‘‘ ہم چار پانچ لوگ اُٹھ کر چلے آئے، اور شاید اُس سے دوبارہ ملاقات نہ ہوئی۔
بعد میں بس خبر ہی ملتی تھی کہ وہ اوکاڑہ میں ہے، کسی این جی او کا پروجیکٹ چلا رہا ہے، اُس کی بیوی فوت ہو گئی ہے، اُس کی طبیعت خراب ہے۔ وغیرہ۔ اب کچھ دن پہلے طاہر مہدی کی پوسٹ کے توسط سے پتا چلا کہ وہ شدید بیمار ہے اور کریٹیکل حالت سے دوچار ہے کیونکہ گردے بھی جواب دے گئے ہیں۔ عمر ستر سے اوپر اور پچھتر سے کم ہی ہو گی۔ لاہور میں لیفٹ اور پنجابی کے بہت سے کارکن اُسی کے پروردہ ہیں۔ وہ اختلاف کی اجازت دیتا تھا، غصے بھرے لہجے میں جواب دینا اُس کا خاصا تھا۔
مہابیانیے نہ ہونے کی راہِ فرار دستیاب ہو جانے کے بعد اِس قسم کے سٹڈی سرکلز بھی مفقود ہو چکے ہیں۔ اب ہر کوئی اپنا ہی استاد ہے، اور نتیجے سے ہم سب کم و بیش واقف ہیں!
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر